مرے ماتھے پہ بوسہ دو!
معروف جوان اہل بیت شاعر سید وسیم عون نقوی خون کے سرطان سے لڑتے ہوئے 30 سال کی عمر میں زندگی کی بازی ہار گئے. دو سال قبل میرے شاعر دوست علی عرفان نے مجھے فون کیا اور بتایا کہ میانوالی کا ایک نوجوان شاعر کینسر کے مرض میں مبتلا ہو گیا ہے اور شوکت خانم ہسپتال سے اپنا علاج کروانا چاہتا ہے. انہوں نے مجھ سے وسیم کی مدد کرنے کی درخواست کی. اگلے دن وسیم کچھ شاعر دوستوں غالباً توقیر عباس اور زوہیر کے ہمراہ ہسپتال کے واک ان کلینک میں پہنچا. بدقسمتی سے شوکت خانم نے اس کا علاج کرنے سے معذرت کر لی کیونکہ ان کے اس وقت کے معیار کے مطابق وسیم کا مرض 3 ماہ سے پرانا ہو چکا تھا. وہاں سے وسیم جناح ہسپتال لاہور چلا گیا اور وہیں اس کا علاج شروع ہو گیا. اگرچہ میں بچوں کے سرطان کا معالج ہوں لیکن وہ اپنی موت تک میرے ساتھ رابطے میں رہا اور مجھ سے مشورے کرتا رہا.
وسیم کی بیماری کا نام کرانک مائیلائیڈ لیوکیمیا یا سی ایم ایل ہے. یہ ایک طرح کا خون کا سرطان ہے جس میں خون کے سفید خلیوں کی تعداد خطرناک حد تک بڑھ جاتی ہے. اس بیماری میں ایک مخصوص جینیاتی تبدیلی رونما ہوتی ہے جسے فلاڈیلفیا کروموسوم کہا جاتا ہے. یہ کینسر اس وقت ستر سے اسی فیصد تک قابل علاج ہے. کچھ دہائیاں پہلے تک بون میرو ٹرانسپلانٹ یعنی خون کے گودے کی تبدیلی اس کا واحد علاج تھا لیکن حیاتیاتی کارگزار دواؤں ٹائیروسین کائینیز انہیبیٹرز کی ایجاد کے بعد اس مرض کے علاج میں انقلاب آ گیا. امیٹینب اس میں استعمال ہونے والی سب سے کارآمد اور پہلی صف کی دوا ہے. یہ گلیویک کے نام سے معروف کمپنی نووارٹس بناتی ہے. بدقسمتی سے یہ انتہائ مہنگی دوائ ہے اور اسی وجہ سے عام آدمی کی پہنچ سے بہت دور ہے. اس وقت پاکستان میں گلیویک ایک معاہدے کے تحت چند سرکاری ہسپتالوں کے ذریعے صرف رجسٹرڈ مریضوں تک مفت پہنچائ جاتی ہے. کئ بار اس کی قلت کے باعث سی ایم ایل کے مریضوں کا علاج تعطل کا شکار رہتا ہے. اس دوا کے استعمال کی شرط یہی ہے کہ اسے مسلسل بلاروک ٹوک لامحدود مدت کے لیے لیا جائے. 70 فیصد تک مریض اس علاج سے مکمل طور پر صحتیاب ہو جاتے ہیں لیکن پھر بھی انہیں اس کا استعمال جاری رکھنا پڑتا ہے. اگر کسی مرحلے پر یہ دوا بےاثر ہو جائے تو ٹی کے آئ گروپ کی دوسری صف کی دوا ڈیسیٹینب یا نیلوٹینب (ٹیسگنا) آزما کر دیکھی جاتی ہے. اگر وہ بھی ناکام ہو جائے تو بون میرو ٹرانسپلانٹ کے سوا کوئ چارہ نہیں ہوتا. سی ایم ایل کا علاج کامیاب نہ ہو تو یہ مزید پیچیدگیوں کے ساتھ ظاہر ہوتا ہے جن میں بلاسٹ کرائسس سب سے جان لیوا ہے.
بدنصیبی کہ گلیویک کھانے کے باوجود وسیم کی بیماری کنٹرول نہ ہو سکی جس کے بعد اس کے معالجین نے اسے ٹیسگنا پر منتقل کر دیا. ٹیسگنا بھی وسیم کے لیے بےسود رہی اور وہ بلاسٹ کرائسس میں چلا گیا. اس موقع پر اسے شدید کیمو تھراپی دی گئ جو وہ برداشت نہ کر سکا اور اس کی بون میرو بالکل جواب دے گئ. جہاں تک مجھے علم ہے معالجین کی جانب سے وسیم اور اس کے والدین کو اس بیماری کے مختلف طریقہ ہائے علاج کے بارے میں مناسب آگاہی نہیں دی گئ. یہاں تک کہ بون میرو ٹرانسپلانٹ کے بارے میں بھی ایک عرصے تک وہ بےخبر ہی رہے. میرے مشورے پر وہ ایک مرتبہ سی ایم ایچ راولپنڈی کے ٹرانسپلانٹ سینٹر بھی گئے. لیکن انہیں مایوسی کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ وہاں موجود ماہرین نے انہیں کہا کہ وہ ایک صحت مند بون میرو کے ساتھ آئیں تو ان کا علاج کیا جائے گا . پاکستان میں بون میرو ٹرانسپلانٹ بےحد مشکل اور مہنگا ہے کیونکہ محض تین یا چار مراکز یہ سہولت فراہم کر رہے ہیں.
آخری دنوں میں بلاسٹ کرائسس کی وجہ سے وسیم شدید درد میں مبتلا رہا. بلاسٹ خلیے کینسر کے موٹے سفید خلیے ہوتے ہیں جو خون کی باریک نالیوں میں جا کر خون کی گردش کو سست کر دیتے ہیں یا روک دیتے ہیں. اس بدقسمت نوجوان کو ایک مشکل یہ بھی درپیش ہوئ کہ اسے درد کی دوا مارفین کہیں سے دستیاب نہ ہوئ. کچھ دن پہلے میں اپنے دوست ثمر اور کامریڈ ماروی کے ساتھ وسیم کے گھر اس کی عیادت کے لیے گیا. وسیم کے والد نے اس کی درد میں تڑپتے ہوئے ایک وڈیو دکھائ جو ہم سے دیکھی نہ گئ. اس کی وفات سے تین دن پہلے ہمارے ایک دوست حیدر جمال نے، جن کے بیٹے کا سرطان سے انتقال ہو گیا تھا اور اس کی بچی ہوئ مارفین کی چالیس گولیاں ان کے پاس موجود تھیں، مجھے بذریعہ ٹی سی ایس بھیجیں. یہ گولیاں میں نے وسیم کے والد کے حوالے کر دیں.
وسیم کی بیماری اور انتہائی کربناک موت ہمارے ملک میں سرطان کے علاج کی ابتر صورتحال، اس کے بارے میں عوام کی لاعلمی اور سہولیات کی اشد ضرورت کو نمایاں کرتی ہے.
(ڈاکٹر سید علی شاذف باقری)
مرحوم سید وسیم عون نقوی کی ائی ڈی کا لنک۔
اخر میں مرحوم کی لکھی ہوئی ایک دلسوز نظم شیئر کررہا ہوں۔
عنوان (ایک نظم اپنے لیے)
زندگی بے وفائی مت کرنا!
کینسر جیسی موذی بیماری
میرے پیچھے پڑی ہے سالوں سے
جب سے پیدا کیا ہے خالق نے
میرے سینے میں تب سے دل بن کر
ایک حسرت دھڑکتی ہے اب تک
میں نے شہر – مدینہ جانا ہے
قبر – زہرا (س) کی دید کرنی ہے
دور سے قبر – بنت – سرور ص پ
حسرتوں کے دیے جلانے ہیں۔
قبل – تکمیل – حسرت – نمناک
موت – برحق کا ساتھ مت دینا
زندگی بے وفائی مت کرنا!
زندگی بے وفائی مت کرنا!
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔