نعت ایک آفاقی مخاطبہ (Universal Discourse) ہے۔ اس میں متکلم کی حسّی و کلامی پیش قدمی ایک مقدس اصلیت سے منسلک ہوتی ہے۔ بیان و ادا کی سبھی جمالیاتی قدریں اپنے منطقی پھیلاؤ میں پرکار کی حیثیت سے ذاتِ احمد ﷺ کے گرد دائرہِ توصیف کی بِنا ڈالتی ہے۔ اس میں متکلم کا عقیدہ اور حیاتی Essence اپنے تمام تر داخلی احوال میں تشریکی رویوں سے میل نہیں کھاتے بلکہ قلبی وجدان کے سبھی سلسلے عشق و سرمستی میں طے کرتے ہوئے بھی بارگاہِ نبوی ﷺ میں باادب رہتے ہیں۔ اس حُبّی سرشاری کو بعض منحرفین تعقلاتی سطح پہ گمراہی و بےدینی کی زنبیل سے نکلا ہوا کوئی طلسم قرار دیتے ہیں۔ ایسے موقع پہ مولانا رومؒ کا یہ شعر پیشِ نظر رکھنا چاہیے :
نے ہمہ جا بیخودی شر میکند
بے ادب را بے ادب تر میکند
یعنی عشق و مستی کی وارفتگی ہر جگہ شر کا لازمہ نہیں بنتی بلکہ قلبی جذبات کی جمالیاتی اٹھان کی غماز ہوتی ہے۔ ہاں! بےادب کو یہ سرمستی مزید بےادب بنا دیتی ہے۔
نعت کے تشکیلی و جمالیاتی پیرائے میں حسنِ ادب اور عجزِ اظہار کا برملا اعتراف کرنے کی ایک تازہ آواز "میرے کریم ﷺ" کی صورت میں نمودار ہوئی ہے۔ سید الانبیاء ﷺ کی نگاہِ رحمت اور اولیاء کے فیضان کی گھنی چھاؤں میں عشق و محبت کا یہ پودا اپنی شاخیں نکال رہا ہے۔ فن میں معتد بہٖ مہارت کے باوجود نعت کی معنویاتی سطح ابھی پروان چڑھ رہی ہے۔ مگر متعدد مقامات پر پختہ کاری اور مضبوط تلازمات کا عکس ریزی کے مناظر دید کے لائق ہیں۔
نعت کے باب میں بیان کی سلاست و بلاغت کی اہمیت مسلمہ ہے۔ محمد احمد زاہد کے ہاں اس کا شعوری احساس اپنی منطقی تحویل میں ازحد موجود ہے جس کے بعض جواہر ملاحظہ کیجیے :
قلبِ مضطر درِ سرکار پہ فوراً پہنچا
جس گھڑی میں نے سنا، بات سنی جاتی ہے
۔۔۔
خلدِ بریں ٹھکانہ ہی ٹھہرے گا دوستو!
ازبر اگر حضور ﷺ ہے فرمان ہو گئے
۔۔۔
ہم ان ﷺ کو دیکھیں گے مرقد میں نقدِ جاں دے کر
ہمارے عشق کی قیمت حضور ﷺ جانتے ہیں
۔۔۔
اک امتی کو کیوں نہ ہو اپنے نبی پہ ناز
زاہد! ذرا حضور کے در پر مچل کے دیکھ
”میرے کریم“ میں فنی حوالوں سے اتار چڑھاؤ ظاہر ہے۔ تلازمہ، محاورہ بندی، روانی، اسلوبِ بیان، صنائع بدائع، ترکیبِ جملہ، جمالیاتی جواہر اور معنوی درجات کے متناسب رویّے کے ساتھ ساتھ شعر کی تخلیقی بناوٹ میں خاصہ خستہ پن ہے۔ کچھ اشعار دیکھتے چلیں :
خدا نے رکھا رَفَعْنَا کا تاج جس کے سر
انھیں کا ذکر ہے ہر لمحہ چار سو اب تک
۔۔۔
اک نعتِ نبی ﷺ جب سے رواں ہے مرے لب پر
صحرا سا جہاں آپ ﷺ سے گلزار ہوا ہے
۔۔۔
اوصافِ حمیدہ ہوں بیاں کس سے نبی کے؟
ہے پیشِ نظر عظمتِ سلطانِ مدینہ
۔۔۔
امت پہ تری ﷺ آج ”کرونا“ کی وبا ہے
موذی سے ملے سب کو شفا شاہِ مدینہ
آخر میں مجموعی جائزے کے طور پر محمد احمد زاہد کی بعض شعری ترجیحات کا ذکر ضروری ہے جو ”میرے کریم“ کے مطالعے کے دوران صفحہ بہ صفحہ مجھ پر منکشف ہوئیں۔ میں نے جانا کہ ان کے یہاں شعری پیکر کی اَن محسوس بناوٹ میں لاشعور کی خاصی ترتیب شامل ہے۔ جمالیاتی سطح کی معنوی اٹھان ہو یا بین المصرعین تلازماتی حوالے کی صُوَری تمثال گری، ہر دو اعتبار سے فن کی نارسیدگی کافی واضح ہے۔ نعت صرف جذبے کا حضور (Presence of Emotion) نہیں ہوتی بلکہ شعری وسائل کی خوب ترین تزئین و تکمیل بھی ہے۔ اس لیے نعتیہ ڈسکورس میں شعری صناعت کے ضروری لوازم سے بہرہ یابی اہم الامور ہے۔ چند شعروں میں ترقی کے بہت امکانات اب بھی پوشیدہ ہیں :
سورج نکالا ڈوبا ہوا ان کے واسطے
نقصان کب نبی ﷺ کو گوارا علیؓ کا ہے
۔۔۔
زندگی زندگی کا مزہ لیتی ہے
جان و دل زاہدؔ ان پر لٹانے کے بعد
۔۔۔
موجود تھے خدا کے مظاہر بہت مگر
آقا ﷺ سے پہلے اس کو کوئی جانتا نہ تھا
۔۔۔
ہر بامِ عرشِ اعظم ہو خوب تر بنا دو
آنے کو اب فلک پر مہمان ہیں محمد ﷺ
موصوف کے لیے دعاگو ہوں کہ اس مقدس صنفِ سخن سے مربوط رہیں اور توصیفِ سرکار ﷺ میں خامہ آرائی ان کا سرمایۂ حیات بنے۔ آمین!