موضوعاتی سطح پر اردو کا منفرد اور اچھوتا ناول:میرے ہونے میں کیا برائی ہے از رینو بہل
معاصر اردو ادب بالخصوص اردو فکشن کے سیاق میں رینو بہل کا نام کسی رسمی تعارف کا محتاج نہیں۔اردو میں نئی لکھنے والی خواتین قلم کاروں میں جن کی تخلیقات پسندیدگی کی نظر سے دیکھی گئیں ان میں رینوبہل کی تخلیقات بھی شامل ہیں۔اب تک ان کے افسانوں کے سات مجموعے منظر عام پر آکر داد و تحسین حاصل کر چکے ہیں۔ ان کا پہلا افسانوی مجموعہ ’’آئینہ‘‘ 2001میں شائع ہوا تھا، اس کے بعد تواتر کے ساتھ ان کے افسانے رسالوں اور کتابوں کے ذریعہ قارئین تک پہنچتے رہے ہیں۔ 2016میں ان کے افسانوں کا ساتواں مجموعہ ’’دستک‘‘ منظرعام پر آیا۔ افسانوں نے انھیں جو اعتبار بخشا اس سے حوصلہ پاکر انھوں نے ناول نگاری کے میدان میں قدم رکھا۔ 2017میں ان کا پہلا ناول ’’گرد میں اٹے چہرے‘‘ شائع ہوا ۔ اسی سال ان کا دوسرا فکرانگیزناول ’’میرے ہونے میں کیا برائی ہے‘‘ منصہ شہود پر آیا۔ کتابوں کی تعداد اور اشاعت کے دورانیہ سے ان کی زود نویسی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ زود نویسی ایسی بری شے بھی نہیں لیکن اس کے منفی اثرات سے انکار بھی نہیں کیا جاسکتا ہے۔ یہاں یہ اعتراف ضروری ہے کہ رینوبہل کی زود نویسی نے ان کے فن کو متاثر کیا ہے لیکن اس پر گفتگو پھر کبھی، سردست ان کے فکرانگیز ناول ’میرے ہونے میں کیا برائی ہے‘پر تبصرہ مقصود ہے۔ اس میں شک نہیں کہ یہ ناول اپنے موضوع کے لحاظ سے اردو قارئین کے لیے منفرد اور اچھوتاہے۔ تیسری جنس( جسے مخنث، ہیجڑا،چھکّا، اردھ ناری اور خواجہ سرا وغیرہ بھی کہا جاتا ہے)قدیم زمانے سے انسانی معاشرے میں سانس لے رہی ہے۔قدیم زمانے کے ادبیات میں ان کی موجودگی اس امر کو واضح کرتی ہے کہ معاشرے میں اس کی کیا حیثیت رہی ہے ۔ مہابھارت کی شکھنڈی کو یاد رکھیں اور ناول کا مطالعہ کریں تو شیکھر /شیکھامیں اس کا عکس نظر آئے گا۔مرد اور عورت کی کہانیاں لکھتے پڑھتے ہوئے کبھی اس تیسری جنس کی طرف نظر کیوں نہیں گئی؟ یہ اعتراف تو کرنا ہی پڑے گا کہ اس کی طرف جتنی توجہ دی جانی چاہیے اتنی تو دور اس کی جانب آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی زحمت بھی نہیں کی گئی۔اردو شعر وادب(بالخصوص فکشن ) میں خواجہ سرا کے جوکردارپیش کیے گئے ہیں ان کی نوعیت مختلف ہے۔ انھیں چند امور تک محدود رکھ کر یہ تاثر قائم کرنے کی کوشش کی گئی کہ ان کی دنیا یہیں ختم ہوجاتی ہے۔ ان کی ذاتی اور معاشرتی زندگی، نفسیاتی پیچیدگی، معاشی پریشانی اور جنسی الجھنوں کو پہلی مرتبہ رینو بہل نے اپنے اس ناول میں موضوع بنایا ہے۔ رینوبہل کے پاس قصہ گوئی کا فن ہے، وہ قاری کو اپنے ساتھ بنائے رکھنے کا ہنر جانتی ہے۔ اس ناول میں موضوع کے انوکھے پن نے بھی ان کا ساتھ دیا ہے۔ کتاب میں جن کرداروں کی مدد سے بیانیہ خلق کیا گیا ہے ان میں شیکھر/شیکھا، نرائن دت تواری، ماں، ستارہ، اور راشد اہم ہیں۔مرکزی کردار شیکھر/شیکھا ہے اور اس کی ہمزاد ستارہ/نورہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مرکزی کردار کے نام کا انتخاب کرتے وقت مصنفہ کی نگاہ میں مہابھارت کا کردار شکھنڈی رہا ہوگا۔دونوں کی صوتی ہم آہنگی ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔
ناول بظاہر تیسری جنس کے مسائل ، اس کی سماجی اور گھریلوحیثیت اور معاشرے میں اس کی اہمیت سے متعلق ہے مگر بات صرف اتنی نہیں ہے۔ناول کے صفحات ، سطور اور بین السطور میں جن مسائل کو مدھم لے میں پیش کیا گیا ہے اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ تیسری جنس دراصل جسم اور روح کی دوئی کا مسئلہ ہے جسے رینوبہل نے کئی مقامات پر واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ انسان کی اصل شناخت اس کی روح سے قائم ہوتی ہے مگر سماج اس کی روحانیت سے نہیں بلکہ اس کی جسامت سے پہچانتا ہے۔ جب جسم اور روح کا اتصال نہیں ہوتا تو انسان Abnormal ہوجاتا ہے۔ Abnormalityجسمانی حرکات اور Harmonic Disorderکی صورت میں سامنے آتی ہے۔ اس Abnormalityکا خطاکار کون ہے؟اگر کسی کے اندر پیدائشی(فطری) نقص ہے تو اس کی بنیاد پر اس کے ساتھ امتیاز برتنا اور اس کے مقابلے میں خود کو برتر قراردینا کتنا مناسب ہے؟ سوال یہ بھی ہے کہ Abnormal کون ہے؟صرف قوت تخلیق اور جسمانی ساخت سے انسان مکمل ہوجاتا ہے؟ اگر ایسا ہے تو اس صورت میں بھی ’نارمل انسان‘ کی اپنی حصولیابی کیا ہے؟ ان تمام سوالات کو قارئین کے ذہن و دل میں پیوست کرنے میں رینوبہل نے کامیاب کوشش کی ہے۔ ناول میں زبان و بیان کی سطح پر کسی طرح کی کوئی پیچیدگی نظر نہیں آتی۔املا، جملہ اور پروف کی غلطیوں سے بھی ناول پاک ہے۔ مجموعی طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ رینو بہل کا ناول ’’میرے ہونے میں کیا برائی ہے‘‘ نہ صرف دلچسپ بلکہ فکرانگیز بھی ہے۔ اب اس ناول کے ساتھ اردو کی ادبی تنقید میں تیسری جنس کے مسائل پر گفتگو کا سلسلہ شروع ہونا چاہیے……
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔