میرے ہاتھوں کے نشان اے چارہ گر دیکھے گا کون
—————————-
پاکستان میں فوجی حکومتوں کے ظلم و ستم اور پابندیوں سے داستان بھری پڑی پے ، ایسا کون سا ظلم ہے جو نہتے عوام پہ نہیں کیا گیا۔ ایسی کون سی پابندی تھی جو معاشرے میں تازہ ہوا کے جھونکے کو آنے سے روک نہیں رہی تھی صرف۔ دو ہی دروازے کھلتے تھے بندی خانےکا دروازہ۔ یا پھر ایوان اقتدار کی طرف جانے والی سڑک کا دروازہ ، دو ہی آوازیں سنائی دیتی تھیں چوک میں ٹکٹکی۔ پہ بندھے کوڑے کھانے والے کی چیخ یا اقتدار کے چھنکتے سکوں کے چھن چھن اب آپ پہ منحصر تھا بندی خانے کی تاریک سیاہی میں جا کر بیٹھ کر خود کو روشن رکھیں یا اقتدار کے اس سرخ قالین۔ پہ چلیں۔ جو کسی بھی وقت تمہارے قدموں کے نیچے سے کھینچ لیا جاتا تھا کچھ لوگ ٹکٹکی پہ بندھے ہر کوڑےکے ساتھ آزادی کی چیخ بلند کرتے اور کچھ لوگ بارات میں اُچھلتے سکوں کو لوٹنے کے لیے اپنے سروں پہ گلیوں کی خاک ڈال رہے تھے
اخبارات میں سفید جگہ ایسے نظر آرہی تھی جیسے بوڑھے شخص کا دانتوں کے بغیر دہن –
مگر سول حکومت میں جو ہو رہا ہے اس سے آمر اور سول کا فرق ہی مٹتا جا رہا ہے –میں ان لوگوں میں سے نہیں ہو جو کھلے عام کالموں میں لکھ رہے ہیں کہ بری جمہوریت سے آمریت بہتر ہے چاہے اس میں بادشاہت ہی نظر آ رہی ہو، میرا آج بھی اس فلسفہ پہ قائم ہوں کہ اچھی آمریت سے لنگڑی لولی جمہوریت ہی بہتر ہے –بلوچستان میں لوگوں کو اغوا کر کے ان کی چہرے مسخ۔ کر کےگندے نالوں میں پیھنکے جا رہے ہیں مگر سول حکومت خاموش ہے-اوکاڑہ میں کسانوں کو قتل کیا جا رہا ہے مگر سول حکومت خاموش ہے کراچی میں لوگوں کو اُٹھا کر بغیر قانونی کاروائی کے سال سال خفیہ جگوں پہ رکھا جا رہا ہے اور جب وہ وعدہ معاف گواہ بننے پہ راضی ہو جاتے ہیں تو اچانک کسی کو ائیر پورٹ اور کسی کو سرحد سے گرفتاری کی خبر دے عدالت میں پیش کر دیا جاتا ہے مگر سول حکومت خاموش ہے لاہور میں سر عام لوگوں کا قتل ہو رہا ہے مگر سول حکومت خاموش ہے
آج کل اسلامی نظریاتی کونسل میں پہ جسمانی اور ذہنی بوڑھوں کا قبضہ ہے جو عورتوں پہ ذہنی تشدد کے لیے ہر تین چار ماہ بعد اپنی سفارشات کے کوڑے برساتی رہیتی ہے کبھی ان کو یہ غم کھا ہے جا رہا ہے مرد کو عورت پہ تشدد سے کیوں روکا جا رہا ہے کبھی ان کو یہ غم کھائے جا رہا ہی کہ دوسری شادی کے لیے پہلی بیوی کی اجازت کیوں ضروریہے کبھی ان کو یہ غم کھائے جا رہا ہے کہ لڑکی شادی کے لیے جلد ازجلد بالخ کیوں نہیں ہو رہی لگتا ہے کسی دن یہ بوڑے فیصلہ دے دیں گئے کہ لڑکی پیدا ہونے سے پہلے ہی بالخ ہو چکی ہوتی ہے
دوسری طرف آج کل پیمرا پہ فوج عدلیہ ایوان اقتدار اور والدین کا قبضہ ہے جو ہر اُس آواز کو دبا دینا چاہتے ہیں جس سے فوج ، عدلیہ ، پارلمینٹ اور والدین کے ماتھے پہ شکن پڑجائے،
کچھ عرصہ پہلے پیمرا نے ایک نجی چینل کو نوٹس بھیجا کہ ان کے چینل سے نشر ہونے والے ڈرامہ اُڈاری سے والدین کے ماتھے پہ شکن پڑی ہے کہ ڈرامے میں ایک کردار کو اپنی سوتیلی بیٹی کو غلط نظر ڈالتے دیکھایا گیا ہے – ان والدین کے ماتھے پہ اس وقت شکن نہیں پڑتی جب یہ خبر آتی ہے یا کسی چینل سے یہ خبر نشر ہوتی ہے جس میں دیکھا جاتا کہ ایک سکا باپ اپنی بیٹی کو پیسے لے کر لوگوں کے پاس ان کی جنسی تسکین پوری کرنے کے لیے بھیجتا ہے نہ صرف دوسرے لوگوں کے پاس بھیجتا ہے بلکہ خود بھی اپنی کندی تسکین پوری کرتا ہے اور نہ اس وقت ان والدین کے ماتھے پہ شکن پڑتی ہے جب یہ خبر آتی ہے کہ بھائی اپنی بین کی ساتھ سُسر اپنی بہو کے ساتھ اپنی جنسی تسکین پوری کرتے رہے ہیں
کل ہی پیمرا نے ایک اور نوٹس اخبارات اور ٹی وی چینلوں کو بھیجا ہے کہ ایسے اشتہار نہ چھاپیں یا دیکھا جائیں جس میں دوران حمل عورتوں کو مختلف ادویات استعمال کرنے کا کہا گیا ہے اس سے خاندانوں پہ برا اثر پڑ رہا ہے– مجھے اپنا بچپن یاد آریا ہے جب دروازے میں کھڑی کوئی عورت گلی میں گزرنے والے کسی بچے کو ایک اخبار کا صفحہ اور ایک روپیہ دیتی تھی کہ مجھے دوکان سے بال سفا پوڈر لا دو اور جب بچہ دوکان سے اخبار میں لپٹا وہ پوڈر لے کے آتا تو دوکان کے تھڑے پہ بیٹھے لوگ آنکھوں آنکھوں میں ایک دوسرے کو بتا رہے ہوتے کہ پوڈر کس کے گھر جا رہا ہے یہ والدین بھی اج کے معاشرے کو اسی دور میں لے کر جانا چاہتے ہیں
جب سب کے ماتھے پہ شکنیں پڑ رہی ہیں تو فوج عدلیہ اور حکمران کے ماتھے کیسے شکنوں کے بغیر رہ سکتے ہیں ، لہذا حکم آیا ہے کہ فوج اور اس کے افسران پہ ان کی کسی کاروائی پہ سوائے تعریف کے کچھ نشر نہ کیا جائے – عدلیہ کے جج کے کسی فیصلے پہ رائے زنی نہ کی جائے آپ کی رائے کسی بھی وقت توہین عدالت تصور کی جا سکتی ہے
پارلمینٹ کی کاروائی کو عزت سے شائع کیا جائے ورنہ آپ کو جرمانہ قید یا آپ کا ڈکلریشن منسوخ کیا جا دکتا ہے یا تینوں۔ سزائیں ایک ساتھ دی جا سکتی ہیں
میرا خیال ہے پیمرا کے ان نوٹسوں پہ نوبل کمیٹی کو غور کرنا چاہیے اور پیمرا کو نوبل انعام سے نوازا جانا چاہیے یا کم از کم اقوام متحدہ کو چارٹر آف فریڈم میں پیمرا کے ان نوٹسوں کو شامل کرنا چاہیے
مجھےتو فوجی اور سول حکومت پہ صرف احمد فراز کا یہ شعر ہی کہنا ہے
جتنے زخم تھے سب منسوب قاتل سے ہوئے
تیرے ہاتھوں کے نشان اے چارہ گر دیکھے گا کون
—————–
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“