(بریلی سے لیکر بمبئ تک اور پانی کے جہاز پر سوار ہونے تک کی دلچسپ روداد ہماری چچی جو ہماری خوشدامن بھی ہیں انھوں نے سنائ تھی پھر پانی کے جہاز کی روداد ہماری دادی نے ہمیں بتائ تھی)
♂️✍️ بریلی سے پنجاب میل چھوٹ چکی تھی ہم پلیٹ فارم پے اپنے خاندان والوں کے ساتھ کالا دھواں چھوڑتی نظروں سے دور ہوتی ہوئ ٹرین کو ڈبڈبائ انکھوں سے دیکھتے رہے کسی نے بتایا تھا حج پر جانے والے کیا پتا زندہ لوٹ کر ائیں بھی کہ نہیں
ٹرین اپنی رفتار سے لکھنئو کی جانب دوڑ رہی تھی مگر ڈبہ جسمیں دادا اور ان کے ساتھ جانے والا قافلہ جو ہمارے رشتے داروں پر مشتمل تھا سوار تھے اسمیں ایک افرا تفری کا عالم تھا ایک تو دھڑ دھڑ کرتی ٹرین اس پر سامان اور سیٹوں کو لیکر ہنگامہ حج پر جانے والی بوڑھی عورتیں محو حیرت اور پریشان ساتھ میں چچا پھوپھا اور دوسرے مرد بکھرے سامان کو سیٹوں کے نیچے لگانے میں مصروف میرے چچازاد چھوٹے بہن بھائیوں کا رونا اور سب کا کھڑکی کے پاس بیٹھنے کی ضد دادا کا ڈانٹنا اور غصے میں آنکھیں دکھانا بڑی بڑی انکھیں غصہ میں اور بڑی ہوجاتیں پوری رات اسی طرح کی ہلچل اور سرگرمیوں میں گزری صبح پانچ بجے ٹرین لکھنئو پہنچ گئ وہاں ایک عجب منظر تھا دادا کے کاروباری ملنے والے اور رشتے داروں کا ایک جم غفیر ہار پھول ناشتہ کھانے پینے کا سامان لئے موجود تھے ایک بار پھر پلیٹ فارم نعرہ تکبیر نعرہ رسالت سے گونج رہا تھا ان لوگوں نے منھ ہاتھ صاف دھویا چائے ناشتہ کیا اور پلیٹ فارم پر ہی نماز فجر کی جماعت ہوئ نو بجے بمبئ کے لئے ٹرین تھی اس درمیان ہر تھوڑی تھوڑی دیر بعد نعرہ تکبیر بلند ہوتا اور اللہ اکبر کی گردان سے لوگوں کے کلیجے کانپ جاتے
اسٹیشن پر موجود قلیوں نے اپنی ہاتھ گاڑیوں سامان لادا اور چل پڑے بمبئ کی ٹرین کی جانب زمیں دوز راستے سے اب اس سرنگ نما راستے میں بھی نعرہ تکبیر بلند ہورہا تھا اور ایکو کی وجہ سے آوازیں ایک لاوءڈاسپیکر کی طرح بہت دور تک جارہی تھی
سامان اور تمام لوگ ایک ڈبہ میں سوار ہوگئے اور ٹرین دوڑ پڑی سفر حجاز کے مسافروں کو انکی منزل تک لے جانے کے لئے بیکراں سمندر کے سینے کو چیرتے ہوئے پانی کے جہاز کی گودی بمبئ کے لئے
ٹرین کا بمبئ کا سفر دو دن کا تھا اب سب اطمنان سے تھے کہ دو دن تو اسی ڈبہ میں گذارنا ہے عورتیں بچے ایک جگہ تھے مرد اور نوجوان ایک جگہ
گرمی کے دن تھے پہلے اے سی کلاس نہیں ہوتا تھا شدید گرمی پیاس سے برا حال تھا صراحی کا پانی ختم ہوچکا تھا کھانا کھایا جاچکا تھا دادا کا بڑا سخت آرڈر تھا کہ پانی زیادہ مت پینا ورنہ گھڑی گھڑی پیشاب کی حاجت کے لئے ٹوائلیٹ جانا پڑے گا بچے تو کیا مانتے بڑے بھی خاموشی سے پانی پی لیتے لیکن مصیبت تھی تو بوڑھی عورتوں کی ہماری دادی داداکی بہن منی اپا جنھیں ہم بوا کہتے اور دو اور بزرگ عورتوں کی دادا نے بوا کو خاص تاکید کی تھی " اے منی زیادہ پانی مت پینا نہیں تو بار بار پیشاب کے لئے جائے ڈھول سا جسم ہے کہیں گرگرا پڑی تو مصیبت ہوجائے گی اور اپا بیگم تم پانی مت پینا دھان پان ساجسم کہیں ٹرین میں جھٹکہ لگ گیا اور دروازے سے باہر لڑھک گئیں تو کیا ہوگا" بے چاری بوڑھی عورتیں دادا کے ڈر کی وجہ سے پیاس کی شدت سے حلق میں کانٹے چبھنے کے باوجود خاموش تھیں اسی اثناء میں دادا کو نیند کی جھپکی اگئ ہماری چچی نے جلدی سے صراحی سے پانی نکالا اور پینے لگیں ہمارے چچازاد بہن بھائ بھی پانی پر جھپٹ پڑے بوا اپا بیگم دادی سب اونگھتے سے اٹھ پڑے پانی کے لئے بوا نے ہماری چچی کو بہت آہستہ سے اواز دی اے بابو کی دلہن اور ہاتھ کی اوک بناکر منھ تک لیجاتے ہو پانی کے لئے کہا چچی نے خاموشی سے پانی دے دیا اور جیسے ہی بوا نے گلاس سے ایک گھونٹ پیا تھا کہ دادا کی نیند کھل گئ بوا کو دیکھتے ہی بولے منی مانی نہیں تو ہائیں دادا کی جو اواز سنی تو بوا چونک گئ گھبراہٹ میں پانی ناک میں چلا گیا اور جو انھوں نے چھینک ماری تو دادا کے منھ پر گئ اب سب بچے اور ہماری چچی پھوپھی وغیرہ کا ہنستے ہنستے برا حال ہوگیا
شام ہوئ رات ہوئ کھانا کھایا گیا اور سب لیٹ گئے بوا کا جسم بھاری اور چوڑا تھا اس لئے دو سیٹوں کے بیچ چادر بچھا کر انھیں لٹا دیا گیا اوپر کی سیٹ پر میرے چچازاد بھائیوں کو لٹا دیا گیا رات کے کسی پہر ہمارا بھائ اوپر سے بوا کے اوپر گر گیا اور بوا بہت زور سے چیخیں" ہائے مرگئ ارے اللہ ہائے دم نکل گیا کلیجہ پھٹ جاتا ارے اللہ کیسا اوپر سے پتھر کی طرح گرا ہے " بوا نے بین کرنا شروع کر دیا پورے ڈبہ میں ایک کہرام مچ گیا لوگ جاگ گئے تھے سب گھبرا گئے ہمارا بھائ انکھیں ملتے ہوئے گرنے کی وجہ سے کم بوا کی چیخ پکار سے سہما ہوا رونے لگا اس کو دیکھا دیکھی سب بچے رونے لگے ایک عجیب منظر تھا کسی کی کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا تبھی دادا کی آواز گونجی " ارے منی پاگل ہوگئ اتنی زور سے بچے کے گرنے تیرے چوٹ لگ گئ تونے پورے ڈبہ کو سر پے اٹھا لیا" " ہاں بھیا تو آ یہاں لیٹ پھر دیکھ تیرے اوپر یہ لڑکا گرے گا تو پتہ چلے گا تب میں پوچھوں گی تجھ سے " یہ سننا تھا کہ پورا ڈبہ ہنس پڑا خیر انھیں سب باتوں کے چلتے ٹرین بمبئ پہنچ گئ یہاں بوری بندر اسٹیشن پر چچی کے پورے خاندان والے وہی ہار پھول لئے پہنچے ہوئے تھے
یہاں سے یہ قافلہ میلاد شریف پڑھتا ہوا چچی کے گھر پہنچا جہاں ایک شاندار دعوت کا انتظام تھا