بہت یاد آتے ہیں مجھے، میرے چاردوست اور جدوجہد کے ساتھی اور سیاسی رہنما بھی۔ بابائے سوشلزم شیخ محمد رشید مرحوم، ملک معراج خالد مرحوم، حنیف رامے مرحوم اور راؤ رشید مرحوم۔ مجھے ان دوستوں کے ہمراہ کبھی بھی کم مائیگی کا احساس نہیں ہوا۔ اُن نام نہاد روایات کا کبھی ان کی محفلوں اور جدوجہد میں گزر بھی نہ ہوا کہ جہاں عمر کی بنیاد پر آپ عمر میں ان بڑوں کے سامنے خاموش بت بنے رہیں۔
بولنے، سوال کرنے، اختلاف کرنے، سیکھنے بلکہ سکھانے کے آداب سیکھے میں نے اپنے ان دوستوں سے۔ میں جب اِن کے کاروانِ جدوجہد اور دوستی کے حلقے میں داخل ہوا، اس وقت میں چڑھتی، جوشیلی اور امیدوں بھری جواں عمری کے ابتدائی سالوں میں داخل ہی ہوا تھا جبکہ شیخ رشید مرحوم، پاکستان کی سب سے مقبول اور مضبوط حکومت میں سینئر منسٹر کے عہدہ پر فائز رہ چکے تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو جیسے عظیم اور مقبول وزیراعظم کے ساتھی اور بہ لحاظِ عہدہ نائب وزیراعظم، جن کی جنبشِ قلم سے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں کسانوں کو زمین کے مالکانہ حقوق مل گئے۔ جن سے پاکستان کے بڑے بڑے جاگیردار اور وڈیرے خوف زدہ تھے کہ وہ بحیثیت چیئرمین لینڈ کمیشن سوموٹو اختیارات استعمال کرکے صدیوں سے قائم جاگیرداری میں دراڑیں ڈال دیتے تھے اور لاکھوں بے زمین، خدا کی زمین پر حق دار ٹھہرا دئیے جاتے تھے۔ یہ شاعر نہیں تھے، الفاظ کی خوب صورتی اور اسلوبِ بیان سے لوگوں کا دل نہیں جیتتے تھے بلکہ عمل اور حکم سے لوگوں کو اُن کے حقوق دلوا دیتے تھے۔ شیخ رشید بابائے سوشلزم۔
وڈیرہ سندھ کا ہو یا پنجاب کا ، بلوچستان کا یا صوبہ سرحد (خیبر پختونخوا) کا، سب ہی ان کے عوامی حکم سے دبتے تھے اور ملک کے چاروں کونوں میں پھیلے کروڑوں کسانوں اور ان کے نام سے مزدوروں کے چہروں پر خوشی امڈ آتی تھی ۔ بابائے سوشلزم نے ان بے چہرہ لوگوں کے لیے اس وقت جدوجہد شروع کی جب برطانوی سامراج کا سورج اپنے عروج پر تھا۔ یہی بابائے سوشلزم تھے جنہوں نے آل انڈیا مسلم لیگ لاہور کے پلیٹ فارم سے لاہور میں انقلابی سماں باندھ دیا تھا۔ اور یہی بابائے سوشلزم تھے جنہوں نے پاکستان پیپلزپارٹی کو پنجاب میں مقبول ترین جماعت بنانے کی خاطر قریہ قریہ، گاؤں گاؤں اور شہر شہر منظم کیا۔ اور اسی پنجاب نے ذوالفقار علی بھٹو کو پاکستان کا مقبول ترین لیڈر بنانے میں کلیدی اور فیصلہ کن کردار ادا کیا۔
شیخوپورہ کے ایک گاؤں میں جنم لینے والے اس کسان کے بیٹے نے کسانوں کی قسمت بدل دی۔ ایک امریکی سفیر ان کے در پر آنا چاہتا تھا۔ بابائے سوشلزم نے کہا، ’’نہیں، آپ میرے ہاں نہیں آسکتے۔ آپ میرے لیڈر ذوالفقار علی بھٹو کے قاتل ہو۔ پاکستان میں جمہوریت، آئین، محنت کشوں، کسانوں اور دنیا بھر میں عوامی انقلابات کو کچلنے والے امریکی سامراج کے سفیر ہو۔ اس سامراج کے ہاتھ تیسری دنیا کے عوامی رہنماؤں کے خون سے آلودہ ہیں۔ نہیں، آپ نہیں آسکتے۔‘‘ جب امریکی سفیر اس کسان لیڈر، بابائے سوشلزم کے در پر پہنچا تو محفل میں بیٹھے دوستوں نے کہاکہ ہم کہہ دیتے ہیں کہ شیخ صاحب گھر پر نہیں۔ شیخ صاحب نے کہا، ’’نہیں! کہو میں گھر پر ہی ہوں لیکن تم سے ملنا نہیں چاہتا۔‘‘
بابائے سوشلزم شیخ محمد رشید کے خلاف جنرل ضیا کے حمایتی ایک کالم نگار نے پاکستان کے سب سے زیادہ شائع ہونے والے اخبار میں کالم لکھ دیا کہ ’’شیخ صاحب نے زرعی اصلاحات تعصب کی بنیاد پر کی تھیں۔ سندھ میں تو ہاتھ ہلکا رکھا اور پنجاب میں سخت اور یہ کہ انہوں نے شان دار کوٹھی بنالی۔‘‘ میں نے سب سے زیادہ شائع ہونے والے اس اخبار کے مالک اور بانی کو اس انقلابی کے ہاں ان کی قدم بوسی کرتے ہوئے دیکھا کہ اسے معاف کردیں۔ بڑی بڑی سفارشیں ڈلوائیں کہ ہتک عزت کا مقدمہ واپس لے لیں۔ بابائے سوشلزم کا جواب ہوتا تھا کہ انہوں نے میری نہیں، بلکہ پاکستان کے محنت کشوں کی توہین کی ہے۔ مقدمہ واپس نہیں ہوگا۔ مقدمہ انہوں نے جیتا اور سب سے زیادہ اشاعت کی کلغی لیے یہ بانی ومالکِ اخبار جرمانے کا سزاوار ہوا۔
جنرل ضیا کی آمریت میں پنجاب سے پاکستان پیپلزپارٹی نے سب سے زیادہ جدوجہد اور قربانیاں دیں۔ اس مزاحمت اور دل دہلا دینے والی داستانِ جدوجہد کی قیادت بابائے سوشلزم کر رہے تھے جن کو ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے بعد پارٹی کا چیئرمین نامزد کیا اور کہا کہ شیخ صاحب کے بعد وہ شخص پارٹی کا چیئرمین ہوگا جسے شیخ رشید بابائے سوشلزم چیئرمین نامزد کریں گے۔ لیکن شیخ صاحب پی پی پی کے تنظیمی ڈھانچے سے آگاہ تھے جس میں جاگیرداروں نے اب پناہ لے رکھی تھی۔ انہوں نے کہا، نہیں، بیگم بھٹو چیئرمین ہوں گی۔ میرے اس دوست کے خلاف جنرل ضیا نے سرکار اور ریاست کی مشینری کو متحرک کردیا کہ جاؤ، اس شخص کے خلاف لوٹ مار کرنے کے واقعات اکٹھے کرو۔ یہ انقلابیوں کا سرغنہ ہے۔ لاکھوں کروڑوں صرف کیے گئے اور پھر کرپشن ڈھونڈ نکالی آئین توڑنے اور عوامی اقتدار پر ڈاکا ڈالنے والے آمر نے کہ شیخ صاحب نے حکومت کے ذریعے ایک شخص کو نوکری دی اور کارکنوں میں سہراب سائیکلیں تقسیم کیں۔
جی! بابائے سوشلزم میرے دوست تھے۔ ان کی جدوجہد میں جو بھی اُن کے قریب ہوا، جس پر بھی اُن کو اعتماد ہوا، وہ دوست ٹھہرا۔ عمر کا کوئی لحاظ نہیں۔ انقلابیوں کے کارواں میں دوستی عمروں کی بنیاد پر تقسیم نہیں ہوتی۔ سب برابر ہوتے ہیں۔ شیخ رشید بابائے سوشلزم میرے رہبر بھی تھے اور دوست بھی۔ اُن سے سیکھا بھی اور وہ سیکھتے بھی تھے۔ بڑے لوگ صرف سکھاتے نہیں بلکہ سیکھتے بھی ہیں۔ اُن کی تکمیل کبھی نہیں ہوتی۔ بڑے لوگوں کے ہاں ارتقا اور آگہی کا سفر آخری سانس تک جاری رہتا ہے۔ بابائے سوشلزم جب پیدا ہوئے، جو انہیں ورثے میں ملا، جب اس جہانِ فانی سے رخصت ہوئے اس وقت اُن کے ہاں اس سے کم تھا۔ مال و دولت بڑھا نہیں۔ وہ انسانوں کی دنیا میں رہتے تھے، اسی لیے انسانوں سے پیار کرتے تھے اور سیاست کو بے وسیلہ لوگوں کی خدمت سمجھتے تھے۔
میں 1983 کے موسم گرما میں اُن کی جلاوطنی میں ملنے لاہور سے چلا۔ بلوچستان کے صحراؤں اور پہاڑوں میں سفر کرتے کرتے ایران کی سرحد پر پہنچا اور پھر ایران سے ترکی۔ ترکی سے چلا اور اشتراکی بلغاریہ میں جا داخل ہوا۔ اور پھر اُن کے پاس سندانسکی جیسے ایک گمنام شہر جا پہنچا۔ وہ مجھے اپنے ہوٹل میں دیکھ کر دنگ رہ گئے۔ کھانا کھا رہے تھے۔ لقمہ اُن کے ہاتھ سے گر پڑا اور بولے، سہیل بیٹا! تم… میں نے کہا، جی میں ہی ہوں۔ پوچھنے لگے، بلغاریہ کیسے پہنچ گئے؟ میں نے طفلانہ انداز میں جواب دیا، بائی روڈ۔ بولے، سڑکوں کے راستے بلغاریہ پہنچا جا سکتا ہے؟ ایسے حیران ہوئے کہ اُن کو یقین ہی نہیں آرہا تھا۔ مجھے کہا، یہیں ٹھہر جاؤ، تعلیم حاصل کرو۔ میں بلغارین حکومت سے کہہ کر تمہاری تعلیم کا انتظام کروا دیتا ہوں۔ میں نے کہا، نہیں شیخ صاحب! مجھے واپس جانا ہے، جدوجہد کرنی ہے جنرل ضیا کی آمریت کے خلاف۔
دوست تھے میرے بابائے سوشلزم، بہت یاد آتے ہیں۔ لکھوں تو قارئین شاید یقین نہ کریں۔ خوابوں میں ملتے ہیں تو واقعات کی فلم چلتی ہے۔ ہڑبڑا کر اٹھتا ہوں تو صرف سارا چہرہ ہی نہیں بھیگا ہوتا، تکیہ تک آنسوؤں سے نم ہوچکا ہوتا ہے۔ وہ گفتار کے غازی نہیں تھے، نہ ہی الفاظ سے کھیلتے تھے بلکہ وہ عمل اور کردار کے دھنی تھے، بابائے سوشلزم شیخ محمد رشید۔
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔