میرے بچپن کے اُستاد
ماسٹر عبد الخالق
اِنھوں نے ہمیں پہلی کلاس سے پانچویں تک تعلیم دی اور ڈنڈے کے ساتھ دی ، آپ کی شہادت کی انگلی آدھی کٹی ہوئی تھی ، ڈنڈا مارتے وقت اُسی کا دباو زیادہ چھڑی پر ہوتا تھا ، طلبا کو یقین تھا اگر اُستاد جی کی انگلی کٹی ہوئی نہ ہوتی تو اُن کی چھڑی کا درد آدھا ہوتا ۔ اُستاد جی کا گھر سکول سے دس قدم پر تھا اور یہی بات تشویشناک تھی ، صبح 8 بجے سے شام 5 بجے تک سکول ہی میں نیم کے بڑے درخت کی گھنی چھاوں میں بٹھائے رکھتے ، خود بھی وہیں بیٹھے رہتے ۔ ڈنڈا چلائے جاتے اور سبق دہرائے جاتے ۔ دن میں ایک بار گھر جا کر روٹی کھانے کی اجازت دیتے تھے ، ٹیوشن نہیں لیتے تھے ، فالتو وقت میں تعلیم مفت دیتے تھے، خود بھی ایک ہی بار گھر جاتے تھے ،پتا نہیں روٹی بھی کھاتے تھے کہ نہیں البتہ مَیں اپنے گھر سے جو لسی لے کر آتا تھا ،وہ پی لیتے تھے اور وہیں کرسی پہ بیٹھے سو لیتے تھے۔ اُن کی آنکھ بند دیکھ کر ہم بھی خوابوں میں ہو لیتے تھے ۔ گھر میں کم کم جانے کی وجہ اُستاد جی کی بیگم صاحبہ تھیں ۔ کہ اُن کا ڈنڈا آپ پر چلتا تھا ۔ بہت دفعہ ہم نے بقلم خود اُستاد جی کو پٹتے دیکھا ۔ اُستاد جی کے بیٹے بیٹیاں بھی تھیں ، جنھیں کھیلانا ، بہلانا ، اور ہگانا بھی ہمارے ذمے تھا ۔ اُستاد جی چونکہ سب مضمون پڑھاتے تھے اِس لیے ہم ہر حالت میں اُن کے با ادب رہنے پر مجبور تھے ۔ اُستاد جی کا گھر کسی طرح بھی ہمارا اپنا گھر تھا ۔ اُن کے مکان کی لپائی ، ستھرائی ، صفائی اور رکھائی ،سب ہمارے ذمے تھی ۔ کھانا اُن کی بیگم بہت اچھا بناتی تھی ، اور ہم چند لڑکے ،جن کا گھر میں بے اجازت جانا بااجازت تھا ، وہ کھانا اکثر چٹ کر جاتے تھے ،پھر گالیاں کھاتے تھے ، مگر اُستاد جی نے کبھی کھانا کھانے کے سبب ڈنڈے کے سایے میں نہیں لیا ۔ رٹا ایسا لگواتے تھے کہ الامان ۔ آئے دن کلاس کا مانیٹر بدلتے تھے ۔ سرکنڈے کی قلم خود تیار کر کے طلبا کو دیتے تھے ، اور خوش خطی کا ڈھنگ بھی سکھاتے تھے ، خود بھی بلا کے خوش نویس تھے ۔جب ہم پانچویں میں پاس ہوئے تو اُستاد جی کے گلے میں گیندے کے پھولوں کے ہار ڈالے اور فی بچہ 5روپے نذرانہ کے بھی گزرانے ۔ سراسر غریب آدمی تھے اور ابھی تک غریب ہیں۔ اِس کے ساتھ ریٹائر اور بوڑھے بھی ہو چکے ہیں ۔ اولاد کچھ زیادہ کمانے والی نہیں ۔ اللہ اُن کی عمر دراز کرے ۔ اوپن یونیورسٹی کے ٹیوٹر کا سرٹیفیکیٹ بھی لے رکھا ہے مگر اوپن والے اُنھیں کام نہیں دے رہے ۔ ہم نے بہت دفعہ شاہد صدیقی صاحب (چانسلر یونیورسٹی ) سے اور اوپن یونیورسٹی کے کارمداروں سے گزارش کی کہ ہمارے اُستاد جی کو ساہیوال کے علاقے میں اوپن یونیورسٹی کے طلبا کا ٹیوٹر مقرر کر دے مگر وہ میری کب سُننے والے ہیں ۔ آج کل اُستاد جی مجھے خواہخمواہ وزیرِ اعظم سمجھے بیٹھے ہیں اور ناراض ہیں کہ مَیں نے اُن کا کام نہیں کیا ۔ اُستاد جی مَیں شرمندہ ہوں ، اگر مَیں ادیب اور شاعر کی جگہ کوئی بڑا سرکاری افسر ہوتا تو آپ کب کے ٹیوٹر بن چکے ہوتے مگر آپ کی اور میری بد قسمتی یہ ہے کہ مَیں ایک ادیب اور شاعر بن گیا جس کی اِس غلام معاشرے میں ٹکے کی عزت نہیں ہے ۔
ماسٹر شریف حسین
اِن صاحب نے ہمیں چھٹی سے آٹھویں تک ریاضی پڑھائی ، اور خوب پڑھائی ۔قریب کے ایک گاوں 31 ٹو ایل سے آتے تھے اور سائکل پر آتے تھے ۔ شریف آدمی تھے ۔ کلاس میں کسی مذہب کی تبلیغ نہیں کی ،سوائے ریاضی کے اور وہ بھی ہمیں آ کے نہ دی ۔ ایک دن میں تین سے زیادہ ڈنڈے نہیں مارتے تھے ،اور پیٹھ کی بجائے ہاتھوں پر مارتے تھے ۔ اِن سے ڈنڈے کھانے کے بعد ہم ریاضی میں کم از کم ایک دن کے لیے بے خطر ہو جاتے تھے ۔ سائیکل پر آتے تھے اور اُسے بہت چمکاتے تھے ۔ سکول کی حدود میں کبھی سائکل پر نہ چڑھتے ، گیٹ پر آ کر سوار ہو جاتے ، پھر اُسے ایف سولہ بناتے ۔ آپ کُھلی ڈھُلی شلوار قمیض پہنتے تھے ، شلوار کے پائنچے پٹھانوں اور افغانیوں کی مانند چوڑے ہوتے اور ٹخنوں سے اُوپر ہوتے ۔ پاوں میں بند جوتے ہوتے تھے اور قائدِ اعظم کے جوتوں کی طرح خوب چمکے ہوئے ۔ پڑھاتے وقت اردو بولتے تھے مگر وہ پنجابی معلوم ہوتی تھی۔ ہم اِن کی اردو اکثر نقل کرنے کی کوشش کرتے اور ایک دوسرے سے شرط باندھ کر بولتے مگر نہ بول سکتے ۔ ماسٹر شریف حسین واحد اُستاد تھے جنھوں نے سکول کے بچوں سے کبھی کچھ کام نہ لیا ۔ سگریٹ وہ پیتے نہیں تھے ۔ حقے کے دو چار گھونٹ لگاتے دیکھا ۔ جسم قدرے بھاری تھا مگر ایسا کہ موٹاپے کا احساس نہ تھا ۔ مذہب کے وہابی تھے مگر نہ داڑھی تھی ، نہ نمازی تھے نہ دوسروں کو نمازی بنانے کے چکروں میں تھے ۔ اکثر اساتذہ سے الگ ہی ہو کر بیٹھتے اور خموش بیٹھتے، میرا خیال ہے اُن کے سیاسی اور سازشی چھوت چھات سے ڈرتے تھے ۔اِس کا یہ مطلب نہیں کہ غورخوض میں غرق رہتے ،زمیندار تھے ، بوائی کٹائی کے سوچوں میں ہوتے تھے ۔ تعلیمی معاملات میں نئے قانون ، قاعدے دریافت کرنے ،یا طریقہ کار میں تبدیلی لانے جیسی بدعات سے بری تھے ، چالیس سال ایک ہی سکول میں پڑھایا اور چھٹی سے آٹھویں تک پڑھایا اور صرف ریاضی پڑھایا اور ریٹائرد ہوگئے ۔ یہ پیغمبرانہ جُہد گویا سابقہ انبیا کی شریعت نافذ کرتے ہی گزری ، اپنی نبوت کا اعلان نہ کیا ۔ یعنی کبھی کتاب وغیرہ اِن کے ہاتھ میں نہیں دیکھی ۔ اِن کا ایک بیٹا بھی اُنھی دنوں سکول میں پڑھتا تھا ۔ بیٹا اِن سے اور یہ بیٹے سے غالباً گریز کی حالت میں رہتے ، آنے جانے کو سائکلیں بھی الگ الگ تھیں ۔ گھر میں شاید اکٹھے رہتے ہوں ۔ بیٹا بھی اِنھی کی طرح شریف تھا ۔ پچھلے دِنوں اِنھی کے گاوں کے ایک فرد پر ہم نے چوری کا پرچہ کٹوا دیا ، شریف حسین اُس کی سفارش لے کر آ گئے تب مجھے پہلی بار اُن کی عزت میں کسی بندے کو معاف کرنے کی خوشی ہوئی ۔ اللہ سلامت رکھے ، اِنھوں نے باوقار زندگی گزاری ہے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔