میرے عزیز ہم وطنو۔السلام علیکم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اس انداز تخاطب میں آج کے دن میرے لےؑ احباب سےمعذرت کی کویؑ بات نہیں۔۔میں شکریہ ادا کرتا ہوں آپ سب کا جنہوں نے غیر ملکی آقاوں کی زبان میں لکھی ہویؑ میری ایک تحریرکو اس درجہ پسندیدگی کی سند سے نوازا۔ میں نے وضاحت ضرور کی تھی کہ یہ میں نے 'ڈان' اخبار کیلےؑ لکھی تھی چنانچہ اختصار کی پابندی کو ملحوظ رکھا تھا ورنہ تفصیلی حقایق کی داستاں طولانی ہوتی
اس سفر کے پیچھے حالات کی اصل کہانی ان معاشرتی اور سیاسی اسباب کا اندوہناک پس منظر رکھتی ہے جو پاکستان کی تخلیق کے وقت لاکھوں افراد کی دوطرفہ ہجرت میں بے حساب جانی و مالی خسارے سے معنون ہے۔۔میری عمر کی اس عورت کا تصور کیجےؑ جو اس وقت موسم شباب میں بہار کا گل نو دمیدہ تھی چنانچہ آج وہ زندہ ہویؑ تو نہ جانے کس ہندو سکھ گھرانے میں جوان نواسوں پوتوں کے ساتھ آباد تو ہوگی لیکن اس کی یادوں کے گورستان میں پر آسیب یادوں کے کتنےاژدھے سرسراتے ہوں گے جو اس کے خوابوں کو اور تنہا لمحوں کو ڈ ستے رہیں گے
یہ بھی میری بہت جلد طبع ہونے والی سرگزشت کی بس ایک جھلک تھی ۔جیسے کہ کسی فلم کا ٹریلر ہوتا ہے۔۔حقیقت ہمیشہ فسانے سے زیادہ اثر انگیز ہوتی ہے۔۔میری پوسٹ میں آپ نے 19 ستمبر 1947 کی ایک مہاجر اسپیشل کے سفر کی مختصر روداد پڑھی۔۔اس کہانی سے پہلے اور اس کے بعد والے حالات آپ کو پوری فلم دکھادیں گے۔۔ جومیرے جیسے اکا دکا مسافرکے ذہن میں ہوسکتی ہے۔۔لیکن میرے علاوہ بھی کویؑ مسافر ہے تو آج کہاں ہے؟
ہر شخص میرے جیسا خوش نصیب نہیں ہوتا کہ قدرت اسے فرصت عمر کے ساتھ ایسا حافظہ بھی دے کہ عمر گزشتہ کے 71 برسوں کی یادیں کسی البم میں ترتیب سے لگی ہویؑ تصویروں کی طرح محفوط ہوں ۔۔ وہ ان کی مدد سے عکس خیالی کو الفاظ کا روپ بھی دے سکتا ہو ۔۔۔ اوراس کی کہانی کو اشتیاق سے سننے والے بھی ملیں۔۔ وہ اکا دکا چشم دید گواہ دلی ۔میرٹھ یا فروزپور گورداس پور کا مہاجر پاکستان کے کسی دور افتادہ گاون قصبے میں ہو سکتا ہے۔۔گمنام۔۔ بے نشاں
گزشتہ سال اس آثار قدیمہ یعنی احمد اقبال کا سراغ تین نشریاتی اداروں نے لگایا۔پہلا ترکی کا"ٹی این ٹی" تھا۔۔۔ ٹرکش نیشنل ٹیلیوژن۔۔دوسرے دن "العربیہ ٹی وی" والے پہنچے اور تیسرے دن "وایؑس آف امریکہ" اردو سروس والے میرے گھر پہنچے۔۔یہ سب اپنا تام جھام یعنی کیمرے لایؑتس وغیرہ ساتھ لاےؑ تھے ۔ انہوں نے میرے تاثرات کے ساتھ میری لاییؑبریری کی اور میری فیملی کی۔۔میرے والدین کی دیواروں پر آویزاں تصاویر کی عکاسی بھی کی۔۔کسی نے تو انہیں میرا سراغ دیا ہوگا۔۔
اگلے روز یعنی 14 اگست 2017 کو مجھے نیو یارک سے "اردو ریڈیو سروس وایؑس آف امریکا" کی پروڈیوسر خاتون کا فون موصول ہوا جو اب ہماری اسلام آباد ہایؑ کورٹ کے جج اطہرمن اللہ کی بہن تھیں۔انہوں نے کہا کہ وہ شام ساڑھے سات بجے میرا آدھے گھنٹے کا انٹر ویو لیں گی اور میرے دونو فون نمبر لے لےؑ۔۔انٹرویو کے دوسرے شریک میرے ہم عمر بھارت کے ایک صاحب تھے جو ہجرت اور بعد کے واقعات پر اپنے تاثرات دے سکتے تھے۔ ہروگرام کی کمپییؑرنگ ڈاکٹر مہدی حسن۔۔صدر ہیومن راییؑٹس کمیشن آف پاکستان نے کی ۔جس پر مجھے فخر ہے۔۔جب مجھ سے سوال کیا جاتا تھا تو پروڈیوسر کہتی تھیں ۔۔"اب ہم چلتے ہیں پاکستان کے مصنف احمد اقبال کے پاس"۔۔اس پر بھی مجھے فخر ہے
لیکن۔۔ مجھے افسوس ہے کہ ۔۔۔۔۔اس سال بھی پاکستان کے درجنوں چینلز میں سے ایک نے بھی یہ ضرورت محسوس نہیں کی کہ قیام پاکستان کے ایک عینی گواہ کو آج ناظرین کے سامنے پیش کریں اور انہیں آنکھوں دیکھی سنوایؑیں
در اصل میں "سیلیبڑٹی" نہیں ہوں جو ایک ماڈل یا فلم اسٹار ہو سکتی ہے
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔