’میرے عزیز ہم وطنو‘ اگوکی کی کہانی | قسط نمبر 11
ـــ
اکتوبر1999 کی ایک معتدل شام میرےعزیزہم وطنووالی تقریراگوکی میں سنی۔ میں ایک نوآموزلفٹین تھااورعباسیہ کےقائم مقام ایڈجوٹنٹ کےفرائض انجام دےرہاتھا۔ شام سےغیر یقینی صورتحال کےپیش نظر یونٹ گارڈ سٹینڈٹو تھی اور میں آفیسر آن ڈیوٹی۔
رات گئےسرکاری ٹی وی پرنشرہونےوالی ایک کلف دارتقریرمیں کمانڈو وردی پہنےاتنےہی کلف دار لہجےمیں چیف کوکہتےسناکہ
Your armed forces have never and shall never let you down!
تو ہم نےبھی ہاتھ میں پکڑی ملٹری اسٹک اپنی خاکی پتلون کی کلف زدہ کریز پرمارتےہوئےباآوازِبلند انشاء اللہ کہا تھا۔
اگلےدن اسی سرکاری ٹی وی پرنوازحکومت سےجان چھوٹنےپرلوگوں کومٹھائیاں بانٹتےدیکھاتووہ سطریں یادآئیں جن میں اس قوم پرترس کھانےکاذکر ہےجو بینڈباجےکی ایک جیسی ماتمی دھن میں جانےوالوں کی خوشی اورآنےوالوں کاسواگت کرتی ہے۔ایک ناتجربہ کارلیفٹیننٹ نےفرطِ جذبات میں خلیل جبران کےقولِ زرّیں کا یک صفحی پرنٹ بھی نکلوالیاتھا کہ فریم کرواکےایڈجوٹنٹ آفس میں لگایاجائےمگرایک تجربہ کارکمانڈنگ آفیسرسےاجازت نہ ملی۔
1999کےاکتوبرسےچندماہ پہلےاگوکی میں کھینچی ایک لاابالی کھلنڈرےافسرکی یہ تصویرناچیزکی ہےجس میں ہم عباسیہ کےافسر میس کےلان کےایک کونےمیں مِنی آبشار کےڈھانچےپرکھڑے ہیں ہماری مسکراہٹ کی وجہ یہ راکری ہے جو ہماری ماہرانہ سرپرستی میں یونٹ کے مستریوں نے تعمیر کی تھی۔ کچھ دن پہلے ہم میجر نقوی کے ساتھ سمبڑیال کی ہمسائیگی میں ایک سپورٹس فیکٹری کا آفس دیکھ کر آئے تھے جہاں اسی طرز کی ایک آبشار بنی تھی۔ صاحبو فوج چھاپے پر چلتی ہے سو ہماری چھاپہ زدہ ہدایات پر تغاریاں حرکت میں آئیں اور ہم خود خلافِ توقع اس آبشار نما راکری کی حسین شکل نکلنے پر دنگ رہ گئے۔ یونٹ کے فنکار مستریوں کے ہاتھوں تکمیل پائے اس عمارتی ڈھانچے کو میجر نقوی کی ماہرانہ نظر نے فنشنگ ٹچز دیے تھے، مگر نام ہمارا بولتا تھا کہ یونٹ میں منعقدہونےوالی ایک تقریب میں یہ ہماراپراجیکٹ تھا۔
عباسیہ اپنااگلاکرنل آف دی رجمنٹ منتخب کرنےجارہی تھی اوراسی کی تیاریاں جاری تھیں۔ اگوکی میں واقع یونٹ کامنہ ماتھابہتربنانے پر، جتنا کہ اگوکی کی جغرافیائی و ثقافتی حدودمیں منہ ماتھا بہتربنانا ممکن تھا، یونٹ افسرکمربستہ تھے۔
ہماری شاگردانہ تربیت سے پرے میجر نقوی اس تقریب کے حوالے سے یونٹ کی شیلڈ ڈیزائن کرنے پر بھی مامور تھے۔ مغل منی ایچرز کی طرز پر ایک آراستہ بارڈر سے ڈیزائن کی گئی شیلڈ اپنی مثال آپ تھی۔ افسوس کہ وہ شیلڈ ہمارے گناہوں کے اس بوجھ کا حصہ ہے جو ہم کینیڈا ہجرت کرتےوقت کراچی میں چھوڑ آئے۔
ہم وعدہ کرتے ہیں کہ جیسے ہی ہمارے ہاتھ اس مغلیہ طرز کی نوابی شیلڈ کو لگے ہم اپنے پڑھنے والوں سے اس کی تصویر ضرور شیئر کریں گے۔
اگوکی میں عباسیہ کی کچھار میں منعقد ہونے والی یہ تقریب ہر لحاظ سے ایک گرینڈ فنکشن تھا۔ کرنل آف دی رجمنٹ کی اعزازی پوسٹ بریگیڈیئر ریٹائرڈ اقبال سے انہی کے سپوت بریگیڈیئر جاوید اقبال کےکندھوں پر سجنے والی تھی۔ ایک لمبے چوڑے قدکاٹھ والے بریگیڈیئر جاوید اقبال کیریئر افسر تو تھے ہی، اسوقت ملٹری سیکرٹری ٹو پرائم منسٹر بھی تھے۔ وزیرِ اعظم نوازشریف کا قرب اپنی جگہ، عباسیہ ان میں آنے والے دنوں میں یونٹ کا پہلا جرنیل دیکھ رہی تھی۔
اس مبارک موقعے کی مناسبت سے یونٹ کےافسروں اور جوانوں سے دونوں بریگیڈیئر صاحبان اور یونٹ کے کمانڈنگ آفیسر کے خطاب کی تقاریر کا متن لکھنے کی ذمہ داری یونٹ ایڈجوٹنٹ کیپٹن بخاری کی تھی اور ہم اردو میں کسی حد تک درک رکھنے کے سبب انکی راست امداد میں تھے۔
اپنےمولاناحسرت موہانی اسیری کےدنوں کی یاد میں کہہ گئےتھے
ہےمشق سخن جاری، چکی کی مشقت بھی
صاحبو، ڈرافٹ درڈرافٹ، اوپرنیچےتین عدد فوجی تقریروں کی کانٹ چھانٹ، تلفظ کی درست ادائیگی کےلیےدرست اعراب کا باریک بینی سے اندراج اور نظرِ ثانی و ثلاثہ و چہارم کے دوران ان کی درستگی کا جائزہ۔
سچ بتائیں تو یہ خامہ فرسائی کسی چکی کی مشقت سے کم نہ تھی۔ خدا خدا کرکے تقریب کا دن بھی آیا جب سیالکوٹ چھاؤنی کے سُرخ فیتوں اور تلوار و ڈھال سے مزین کندھوں نے اگوکی کو شرفِ میزبانی بخشا۔ ہمارے بریگیڈیئر صاحبان بھی تشریف لائے اور کرنل آف دی رجمنٹ کا عہدہ بخیروخوبی منتقل ہوا۔
تقریب کے بعد ہماری آبشار کے جِلو میں اگوکی افسر میس کے لان میں بریگیڈیئر جاوید اقبال ملک سے یونٹ افسروں کی غیر رسمی ملاقات رہی۔ بریگیڈیئر صاحب سروس ڈریس کے کالر کی اوپری ہُک کھول کر کچھ بے تکلف سے ہوگئے۔ صاحبو ایک جونیئر لفٹین ایک رشک کے عالم میں بریگیڈیئر ریٹائرڈ اقبال کے چہرے کی فخریہ مسکراہٹ اور انکے حاضر سروس بیٹے کی ڈیشنگ گفتگو سُنا کیا۔
کسے معلوم تھا کہ کچھ ہی دنوں میں ملکی صورتحال ایک قلابازی کھائے گی اور بریگیڈیئر صاحب لکیر کے اُس طرف کھڑے ہوں گے۔ 12 اکتوبر کی اس شام جب شہرِ اقتدارکے پڑوس سے ٹرپل ون بریگیڈ کے اربابِ اختیار وزیرِ اعظم اور ٹیلیویژن سٹیشن کو تحویل میں لینے پہنچے تو بریگیڈیئر جاوید اقبال ملک کا ریوالور آئینِ پاکستان کی حفاظت کی خاطر بلند ہوگیا۔ اٹک جیل کی کال کوٹھڑیوں کےباسیوں میں ایک حاضر سروس فوجی کا اضافہ ہوگیا اور جب کچھ نہ بن پڑا تو ایک پریشانی کے عالم میں بریگیڈیئر ریٹائرڈ اقبال اگوکی میں اسی عباسیہ کے دفتروں میں آئے جہاں کچھ دن پہلے ایک اعزازی تقریب منعقد ہوئی تھی۔
یونٹ کے کمانڈنگ آفیسر کے پاس تسلی کے چند الفاظ کے علاوہ بریگیڈیئر صاحب کے لیے کچھ نہیں تھا۔ اس پر مستزاد یہ کہ یونٹ کے افسروں کا مین حیث البٹالین اس پر اتفاق تھا کہ بریگیڈیئر جاوید نے بےوقوفانہ حدتک صورتحال کاغلط تخمینہ لگایا اوراب اس کاٹھیک خمیازہ بھگت رہےہیں۔ آپ سےجھوٹ کیوں بولیں ہمارااپنابھی یہی نکتۂ نظرتھا۔ دنیاکی ریت ہےجو لوگ وقت پڑنےپرتاریخ کی درست سمت کھڑے ہوں وہ اس کی بھاری قیمت ادا کرتے ہیں۔ بریگیڈیئر جاوید اقبال اسی رینک میں جبری ریٹائر کردیئے گئے۔
یونٹ کے جس کمانڈنگ افسر کا خیال تھا کہ کرنل آف دی رجمنٹ کی غلطی نے یونٹ کو ایک متوقع جنرل افسر سے محروم کردیا وہ خود ایک کیرئیر افسر تھے۔ کرنل رانا بہت بعدمیں جبکہ وہ بریگیڈیئر رانا تھے اور پاکستان ملٹری اکیڈیمی کے ڈپٹی کمانڈنٹ تھے توپخانےکےہی ایک جنرل کی ذاتی چپقلش کاشکار ہوکر
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...