آج میری یعنی سلمان حیدر کی گمشدگی کی پانچوین سالگرہ ہے لیکن یہ نظم سلمان حیدر کے لیے نہیں علی حیدر بلوچ کے لیے للھی گئی تھی۔ علی حیدر بلوچ ایک لڑکا ہے جس نے دو ہزار چودہ میں اپنے باپ کی بازیابی کے لیے کوئٹہ سے کراچی اور پھر کراچی سے اسلام آباد تک پیدل مارچ کیا تو اس کی عمر گیارہ سال تھی۔ مجھے یاد ہے کہ جب راولپنڈی کے پاس جی ٹی روڈ پر میں اس مارچ کے ساتھ شامل ہوا تھا تو علی حیدر کے پیر پیدل چل چل کر پھٹ چکے تھے اور وہ ایک ہتھ ریڑھی کو دھکیل رہا تھا جس پر اس کے باپ کی تصویر رکھی تھی۔ بلوچ دوست اسلام آباد پہنچے تھے دنوں پریس کلب کے سامنے بیٹھ رہے تھے۔ واپس چلے گئے تھے۔ علی حیدر کا باپ بازیاب نہیں ہو سکا تھا۔ پانچ سال بعد دوہزار انیس میں ایک دن علی حیدر کو اسی طرح لا پتہ کر دیا گیا تھا جیسے اس کے باپ کو کیا گیا تھا۔ احتجاج میں شرکت کی وجہ سے اسے پہچانا جانے لگا تھا سو میڈیا میں کچھ ہلچل ہوئی تھی تھوؑا سا شور مچا اور علی حیدر کو دو دن بعد چھوڑ دیا گیا تھا۔ میں نے اس رات ایک بلوچ دوست سے بات کرتے ہوئے کہا کہ علی حیدر خوش قسمت نکلا۔ اس کے بعد بہت دیر مجھے خیال آتا رہا تھا کہ کیا ملک ہے جس میں دس سال کے بچے کا باپ گم ہو جاتا ہے، بچہ اسے ڈھونڈتے ہوئے دو ڈھائی ہزار کلومیٹر پیدل چلتا ہے، باپ نہیں ملتا، بچہ خود اغوا ہو جاتا ہے اور جب وہ ملتا ہے تو ہم اس کے بارے کہتے ہیں کہ یہ خوش قسمت ہے۔
علی حیدر بلوچ کے لیے ایک نظم
وہ اپنے باپ کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے
گمشدگی کی عمر کو پہنچ گیا تھا
اس نے اپنا بچپن ان سرمئی سڑکوں پر گزارا
جو آبادیوں اور ویرانوں کو
قیدیوں کی طرح آپس میں باندھے رکھتی ہیں
ہوا نے اس کے ساتھ سسکیاں بھریں
اور پہاڑوں نے اسکے بین دہرا دیے
ویرانوں نے اپنا سناٹا اسکے ساتھ کر دیا
جو اس سے تیز چلتا تھا
اور بازاروں تک اس سے پہلے پہنچ جاتا تھا
وہ ہتھ گاڑی میں
اپنی اور اپنے دوستوں کی دعائیں لادے
شہر شہر پھرتا رہا
لیکن لوگ خدا کی طرح بے نیاز تھے
اس نے انسانوں کو مکھیوں میں بدل دینے والے جادوگروں سے
اپنے باپ کی تصویر میں جان ڈالنے کی درخواست کی
لیکن اسے بتایا گیا کہ یہ قانون کے خلاف ہے
اس نے شہر کی فصیل کے نیچے
اپنی چادر بچھائی
اور اس پر اپنے آنسو خشک ہونے کے لیے پھیلا دیے
جادوگروں نے اسے اسکے باپ کی تصویر سمجھا
اور امیدیں فروخت کرنا
قانون کے خلاف قرار دے دیا
وہ خواب دیکھنے کے جرم میں
اپنے باپ کا مددگار تھا
فصیلیں تصویروں سے خوفزدہ تھیں
زندگی کے چہرے پر آنسوؤں کی لکیریں تھیں
اور ویرانے شہروں میں ڈھل جانے سے پناہ مانگتے تھے۔۔۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...