میراثی کے لڑکے کبھی پی ایم نہیں بن سکتے
یہ تمہارے وٹس ایپ پر کس کی تصویر لگی ہوئی ہے، میرے یوروپین دوست نے پوچھا
کس کی ہے تمہارے خیال میں؟ میں نے الٹا سوال کر دیا۔
ہمممم ۔ ۔ ۔ ایک بوڑھا آدمی، پسینے میں شرابور، تمہاری پاکستانی ڈریس میں۔ پلیٹ ہاتھ میں پکڑے چاولوں کو بیتابی سے نگل رہا ہے۔ چہرے پر جھریاں بتاتی ہیں کہ ساٹھ سے اوپر کا ہے۔ کندھوں پر ماس نہیں رہا، مگر کمر سیدھی ہے۔ کچھ تھکا ہوا، مگر بھوکا زیادہ لگ رہا ہے۔
ماس کام میں میرے ساتھ یونیورسٹی پڑھنے والا پالؔ زبردست لکھتا تھا۔ ایک ہی سانس میں اس نے تصویر کی کہانی بیان کردی۔
یہ عمران خان ہے، ہمارا قومی لیڈر، ایک کارنر میٹنگ کے بعد کھانا کھا رہا ہے، میں نے وضاحت کی۔
بکواس مت کرو، میں عمران کھان کو پہچانتا ہوں، لنڈن کا پلے بوائے، جس کی ڈریسنگ شہزادوں سے بڑھ کرہوتی تھی۔ بوڑھا ہو کر بھی ایسا نہیں لگ سکتا، مجھے فول مت کرو، ٹھیک ٹھیک بتاؤ۔
ٹھیک بتا رہا ہوں، یہ پچھلے بائیس سال سے میرے ملک میں سیاست کررہا ہے، اس لیے شائد تمہیں ایسا لگ رہا ہے۔
او مین، پال گڑبڑا گیا۔ کیا ہوا اسکے ساتھ۔ اسکی سیاست کامیاب نہیں ہوئی۔ بائیس سال بہت وقت ہوتا ہے مائی ڈئیر
نہیں کچھ ہو ہی گئی، اب وہ ملک کا تیسرا بڑا لیڈر ہے۔ شروع میں دس سال تو لوگوں نے اسے سیریس نہیں لیا۔ بہت سوال کیے۔ کیوں سیاست میں آیا؟ اسکی نیت کیا ہے؟ بھاگ تو نہیں جائیگا؟ اس کا ملک چلانے کا تجربہ کیا ہے؟ اس کے بچے جائز ہیں کہ نہیں؟ اسکی آمدنی جائز ہے یا نہیں؟ اسکی بیوی اسکو کیوں چھوڑ گئی؟ اسکے یہودیوں سے تعلقات تو نہیں ہیں کہیں وغیرہ وغیرہ۔
میں نے وضاحت کی۔
واؤ، امپریسو مین، پال کا میسج آیا۔ تمہارا نیشن تو بہت سمجھداری سے اپنا لیڈر چنتی ہے۔ اچھا تم نے کہا تیسرا لیڈر تو پہلے دو لیڈر بھی یہی سوال پوچھ کر لیڈر بنائے تمہارا نیشن نے؟
نہیں، وہ دراصل، پہلے سے لیڈر بنے ہوئے تھے۔ ایک کا والد مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کا جاننے والا تھا۔ اور دوسرے کی بیوی، جو ایکس پرائم منسٹر تھی، ایک بم بلاسٹ میں مر گئی تھی۔ اس لیے وہ لیڈر بن گیا۔
میں نے زرا جھجھک کر جواب دیا۔ علم تھا کہ پال کی طرف سے کچھ طنزیہ جواب آئے گا، مگر خیریت رہی۔
پال کا اگلا سوال تھا، عمران خان نے کتنا جائیداد بنایا ان بائیس سالوں میں؟ تو میں نے بتایا کہ ایک مکان ہے، باقی سب ایک ایک کر کے بیچ کر چیرٹی کے منصوبوں پر لگا دیا۔ اور باقی دو لیڈرز نے بھی یہی کیا؟ پال نے پوچھا۔ نہیں، انکی جائیدادوں کی لسٹ لمبی ہے، میں پی ڈی ایف لسٹ بھیج رہا ہوں۔ میں نے جواب دیا۔
واؤ مین! یو سرپرائزڈ می، پال نے حیرانی والا ایموجی بھیجا۔ تو پچھلے بائیس سال میں عمران خان نے کتنی بار حکومت کیا؟ پال نے پوچھا۔ پانچ سال، ایک صوبے میں، میں نے کہا۔ اور باقی دو نے؟ اس نے پوچھا۔ تقریباً دس دس سال ، باری باری، میں نے اطلاع دی۔
تو اب کیا مسئلہ ہے؟ تمہارا نیشن عمران سے اتنے سوال کیوں کرتا ہے؟ باقی دو سے کیون نہیں کرتا، پال نے حیرانی سے وہی سوال کر ڈالا، جس کا مجھے ڈر تھا۔
مجھے سمجھ نہ آئی کہ کیا جواب دوں۔ سوچا مذاق میں بات ٹالتے ہیں۔ میں نے لکھا کہ میری قوم یہ سمجھتی ہے کہ میراثی کا لڑکا کبھی پی ایم نہیں بن سکتا۔
میں سمجھا نہیں، وہاٹ میراثی؟ پال نے پوچھا۔
میں پال کو لطیفہ سنایا، کہ گاؤں میں میراثی تھا ۔ ۔ ۔ چوہدری تھا ۔ ۔ ۔ وغیرہ ۔ ۔ ۔ پال بالکل نہ ہنسا۔ میں نے اسے بتایا کہ یہ لطیفہ تھا، اس پر ہنسنا تھا۔
پال کو سمجھ نہ آئی، اس کا میسیج آیا، میراثی کا مطلب ، پبلک؟ عام آدمی؟ رائیٹ ؟
یس، میں نے جان چھڑانے کو لکھ بھیجا۔ میراثی ہمارے ملک میں فنی ہوتا ہے، دلچسپ ہوتا ہے۔
تو تمہارے ملک میں عام آدمی پی ایم نہیں بن سکتا؟ پال نے پھر دہرایا۔
بس ایسا ہمارے لوگ سمجھتے ہیں۔ کیونکہ ہم بس دو خاندانوں کو حاکم مانتے ہیں، میں نے وضاحت کی۔
تو بس مائی ڈئیر، پال کا میسج آیا، ایسا کرو، اپنے آئین کی کتاب میں یہ جملہ لکھ دو۔ کہ میراثی کا لڑکا یعنی پبلک کبھی لیڈر نہیں بن سکتا ۔ دیٹس اٹ۔
میں نے بات بدلنے کو کہا، مگر پال! میری قوم یہ بھی سمجھتی ہے کہ عمران خان کوکین کھاتا ہے۔ میری قوم اس معاملے میں بہت سینسٹو ہے۔
تھوڑی دیر خاموشی رہی، پھر پال کا میسیج آیا، کوکین عمران خان نہیں تمہارا نیشن کھاتا ہے۔ جو خود پبلک یعنی میراثی ہو کر بھی ایک پبلک پرسن کو ووٹ نہیں دیتا۔ بلکہ جو انکو انسلٹ کرتا ہے، اسکو ووٹ دیتا ہے۔ آئی ایم ساری، تمہارا پورا نیشن میراثی ہے آئی مین فنی ہے۔ ۔ ۔ بٹ یہ تمہارا اندرونی معاملہ ہے۔
میں نے لاچار اسمائلی بھیجا۔
جواب میں خاموشی رہی۔ میں سمجھ گیا، پال یہ لطیفہ اپنے کولیگز کو سنا رہا ہوگا
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“