1 نومبر، ٢٠١٨، رات ایک بج کر دس منٹ : پرچھائیوں کا رقص شروع ہوا تو ساحرکی نظم یاد آگئی – پھرایک ایک کر کے یا دوں کے دریچے کھلتے چلے گئے۔ ایک چہرہ روشن ہوا اور مجھےخیال آیا کہ نئی صدی کے اٹھارہ برسوں میں ، ہم ایک دوسرے سے کتنی دور چلے گئے۔ لیکن کیا حقیقت میں ایسا ہوا؟ مولانا رومی، رسول حمزہ توف، خلیل جبران کے شہ پاروں کے درمیان وہی روشنی تھی، جو ابو بن ادہم نے خواب سے بیدار ہوتے ہوئے دیکھی تھی اور نیم شب ایک فرشتہ طلائی کتابوں میں کچھ لکھ رہا تھا۔ اب اس فرشتہ کی صورت واضح تھی۔ یہ عرفان صدیقی تھے– ہم دونوں کے محبوب شاعر — انہوں نے مسکرا کر میری طرف دیکھا ، ایک شعر پڑھا اور مجھے ہجر وفراق، عشق ووصال کے فلسفوں کا وہ نکتہ ہاتھ آ گیا کہ وقت کی طویل مسافت کے باوجود عشق اسی مرکز پر ٹھہرا رہتا ہے.. اور اسے وصل کے لمحوں کا انتظار ہوتا ہے ..۔این چراغ شمس کو روشن بود …یہ خورشید جہاں تاب کا چراغ جو روشن ہوتا ہے، اس کے پیچھے بھی عشق کی تجلّی ہے کہ عشق روشنی کا اور یار کا دوسرا نام ہے۔
اس نے پوچھا تھا۔..
کہا تھا تم نے کہ لاتا ہے کون عشق کی تاب
سو ہم جواب تمہارے سوال ہی کے تو ہیں
یہ شعر دیر تک دل و دماغ میں گردش کرتا رہا تو زمانے فانوس بن گئے۔ دیوار سے جھولتا ھوا جھومر ہلنے لگا–آرہ سے دلی کی دوریاں یوں طے ہوئیں کہ معراج کا واقعہ یاد آ گیا ..۔ میں دلی آیا تو اجنبیوں کی بستی تھی دلی۔ مگر ایک نور اس وقت بھی ساتھ تھا۔ جب میں تنہا تھا، جب بے قرار موجیں میری آوارگی پر حاوی ہو جاتیں ، وہ میری نظروں کے سامنے ہوتا .. جب تھکنے اور ٹوٹنے کا احساس غالب ہوتا، اسکی گفتگو سے امید کی مرجھایی شاخیں ہری بھری ہو جاتیں .. وہ نور ساتھ ساتھ چلتا تھا۔
دلی کی بھول بھول بھلیوں میں جب آزمائشوں کے پہاڑ قدم روک دیتے تھے، ایک نور کا ہیو لہ میرے ہاتھوں کو تھام لیتا تھا۔ کون تھا یہ؟ جو میرے ساتھ ساتھ ہی دلی آ گیا ؟ اور پہلی بار آجکل رسالہ کے دفتر میں ملنے کے بعد ہی احساس ہوا کہ میں اپنے ہمزاد کے ساتھ کھڑا ہوں ..یا کسی کا عکس مجھ میں یوں سرایت کر گیا کہ … خورشید جہاں تاب کی ضو تیرے شرر میں ..یہ ملنا میری اب تک کی زندگی کا سب سے بڑا واقعہ تھا .
18 برسوں کی لمبی خاموشی کے بعد،ایک نومبر2016 ،نیم شب کے سناٹے میں مجھے اس سوال کا جواب مل جاتا ہے..۔کہا تھا تم نے کہ لاتا ہے کون عشق کی تاب ؟ تمہارا سوال عشق تھا اور میرا جواب بھی عشق۔…عشق کہیں نہیں جاتا، وہیں اسی مرکز پر رہتا ہے، اور ایک وقت آتا ہے، جب چمکیلی تتلیوں کی طرح ہم اسے ہتھیلیوں پر لے آتے ہیں … پھر ہونٹوں پرایک نام کی جنبش ہوتی ہے اور آنکھوں میں ایک تصویر حرکت کرتی ہے۔
طلائی کتابوں والا فرشتہ دوسرا شعر پڑھتا ہے۔
ذراسی بات ہے دل میں اگر بیان ہوجائے
تمام مسئلے اظہار حال ہی کے تو ہیں
مسئلہ تھا ہی کہاں؟ نہ انا اس طرف نہ انا اس طرف، نہ غبار راہ کا تصور نہ وادی فریب میں گم ہوجانے والاکوئی لمحہ.. پھر کیا تھا کہ ہم، جو دلی آنے کے بعد ایک دوسرے کا عکس بن گئے تھا، بشیر بدر کے شعر کی طرح پٹریاں الگ الگ ہوگییں …
اک سمندر کےپیاسے کنارے تھے ہم، اپناپیغام لاتی تھی موج رواں
آج دو ریل کی پٹریوں کی طرح ساتھ چلنا ہے اور بولنا تک نہیں
دلی کی اجنبی بستی میں خورشید اکرم کا ساتھ ملا تو اجنبیت کی ہزاروں شاخوں میں پھل پھول آگئے۔.. پہلے بستی حضرت نظام الدین .. پھر دلی کا تاج اپارٹمنٹ۔.. ہم ایک خاندان تھے۔ خورشید کے امی ابو بہن سب اپنے تھے۔ ..میرے گھر والوں کی زبان خورشید خورشید کا ورد کرتے ہوئے تھکتی نہیں تھی۔ ہزاروں واقعات….کبھی ان واقعات پر لکھنے بیٹھا تو ہزار داستانیں بھی کم پڑ جاییں …۔تبسم، خورشید ، ساشا، اکرام خاور، نعمان شوق اور شاہد انور( میں مرحوم نہیں .. لکھ سکتا)۔ میرا فلیٹ ہو یا خورشید کا فلیٹ ، ایک مجمع لگا رہتا۔ ادب کی محفل جمتی تو صبح سے رات ہوجاتی، مگر گفتگو ختم ہونے کا نام نہیں لیتی ..۔ دلی میں سب سے اچھے دن وہی تھے، جو خورشید کے ساتھ گزرے۔ طلائی کتابوں والا فرشتہ میری طرف دیکھتا ہے اوریہ شعر پڑھتا ہے۔..
ہوا کی زدمیں ہمارا سفر ہے کتنی دیر
چراغ ہم کسی شام زوال ہی کے تو ہیں
جب دلی آئے توہم دونوں نوجوان تھے اور اب وقت کا ایک لمبا عرصہ گزر چکا ہے۔ ہمارے بچے بڑے ہوگئے۔ زندگی کے ہزاروں نشیب وفراز سے گزر تے ہوئے ، وہ قصے آنکھوں میں جگمگاتے رہے اور اب بھی جگمگاتے ہیں کہ ہم ایسے ملا کرتے تھے کہ طلسم ہوشربا کے قصے بھی ہماری ملاقات کے آگے پھیکے معلوم ہوں۔.. ہماری آوارگی ..دور تک پیدل چلنا ، کسی دھابے میں بیٹھ کر کھانا یا خورشید کے مٹن کی دعوت میں عیش کرنا ، ادب کے موضوعات پر تکرار کا ہونا ..مجھے یاد سب ہے ذرا ذرا تمھیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو .. تاج اپارٹمنٹ میں آمنے سامنے ہمارا گھر۔ درمیان میں ذرا سا فاصلہ۔ بالکونی پر کھڑے ہو جائیے توایک دوسرے کو آواز دے کر بلا لیجئے ..پھر خورشید نے تاج اپارٹمنٹ چھوڑ دیا اور میں اپنی خاموشی کے حجرے میں قید ہو گیا .
ان کہانیوں کو پھر کبھی لکھوں گا۔ سب سے ضروری ہے، خورشید کی نظموں اور افسانوں پرباتیں کرنا۔ وہ محبت کی انمول نظمیں لکھتا ہے۔ ایسی نظمیں کہ صرف وہی لکھ سکتا ہے۔ تہہ دار معنویت کے ساتھ اندر اندر اتر جانے والی نظمیں کہ آپ جسقدر پڑھتے جاییں ، ہر بار غالب کی طرح خیال و ہزار رنگ و معانی کی کہکشاں آپ کی نگاہوں کے آگے جھلملانے لگتی ہے ..لیکن کیا اسکی نظمیں حقیقت میں عشقیہ ہیں ؟ مولانا رومی کا قول یاد آتا ہے .جب میں مر جاؤں، تو میرا مزار زمین پر نہیں، بلکہ لوگوں کے دلوں میں ڈھونڈنا.. خورشید دل کی باتیں کرتا ہے ، رقص کی محفل سجاتا ہے ، اور نت نیے فلسفوں کی بارش میں اپنے شانہ بہ شانہ آپ کو لئے چلتا ہے . یہ فلسفے زمینی حقائق کی آگ سے بھی جنمتے ہیں .اور فکر و نظر کی گہرایی سے بھی پیدا ہوتے ہیں . خورشید کی ایک نظم کا عنوان ہے — تمہارے لئے .
تمہارے لیے سنبھال کر رکھا تھا
زمین کی کشش سے باہر ایک آسمان
ایک گھوڑے کی پیٹھ
اور ایک سڑک جس پر
دھوپ چمکیلی
بارش البیلی ہوتی ہے
ایک مصرع لکھا تھا تمہارے لیے
من کی مٹی میں دبا کر رکھی تھی
تمہارے نام کی کونپل
تمہارے لیے بچائی تھی
لہو کی لالی / رت جگے / عقیدوں کی شکستگی /
آگ کی لپٹیں ایک ہاتھ میں
ایک میں آب پاک / ایک آنکھ شرمیلی / ایک آنکھ بیباک
کشتی کے تختے / اور شوق کا مواج دریا
شہد دنیا کو بانٹ دیا / بچا کر رکھا اپنا موم
تم اس کی باتی ہوتیں / ہم جلتے ساری رات
تم نے چنا سونے کا سندور / چاندی کی چنگیری /پلنگ نقشین
پختہ چھت / پکی دیواریں / پکا گھڑا / اتھلا کنواں
پانی جیسا ٹھہر گئیں تم
ہوا کے جیسا بکھر گیا میں
خورشید کی خوبی ہے کہ وہ غیر جذباتی ہو کر اس دنیا کا سامنا کرتا ہے .اس کا عشق عام انسانی عشق نہیں ہے .. یہاں وہ شیلی یا کیٹس بھی نہیں ہے ..وہ محبت کے فریب میں نہیں ہے .یہاں بھی وہ ایک بلیک ہول کا سامنا کرتا ہے .اس بلیک ہول میں داخل ہو کر وہ زمان و مکان کے فرسودہ فلسفوں سے باہر نکل کر اپنی شناخت کا سامان تلاش کرتا ہے ہزار ہزار برسوں کے سفر میں انسان کی معراج ہے کیا ؟ سائنس و ٹکنا لوجی کی ریس میں آگے بڑھتے ہوئےخود فراموشی کے اندھے کنویں میں اتر جانا ؟ ایک مختصر زندگی کے وقفے کو بغیر سمجھے خرچ کر ڈالنا .وہ عمومی صورت حال پر غور کرتا ہے تو گھوڑے کی پیٹھ ، چمکیلی دھوپ ، سب کچھ اپنے حصّے میں سنبھال کر رکھتا ہے .. ..اتھلا کنواں، پختہ چھت ، چاندی کی چنگیری..یہ سب اس کے خواب کا حصّہ نہیں ہے ..اس لئے اس نے زمین کی کشش سے باہر ایک آسمان سنبھال کر رکھا ہے ..وہ پریکٹیکل ہے .اس کا ہر اپروچ سائنٹفک ہے ..وہ نثری نظموں میں اپنی فکر کا اکیلا بادشاہ ہے ..وہ کسی کی رہنمایی قبول نہیں کرتا ..وہ زندگی کے لئے کویی پیمانے نہیں گڈھتا ..کویی سانچہ نہیں بناتا ..زندگی سے وابستہ سفید و سیاہ رنگ کے کولاز اس کی نظموں کا حصّہ بنتے چلے جاتے ہیں ..اسکی نظمیں اکایی میں سفر نہیں کرتیں ، اس کے باوجود وہ نظموں کو سنبھال کر جیتا ہے .وہ بہت کم لفظ استعمال کرتا ہے . اور وہ ، وہی کہتا ہے جو وہ کہنا چاہتا ہے ..
خورشید بطور نظم نگار اور افسانہ نگار اپنی اہمیت تسلیم کرا چکے ہیں .افسانوں کی قرات میں ایک البیلا خورشید سامنے آتا ہے ..جس کی کہانیاں ، جس کا اسلوب سب سے مختلف ہے ..وہ کسی سے متاثر نہیں .اس نے ادب میں خود کے فلسفوں کو جیا ہے ..اور یہ جینا آسان نہیں ہوتا .اسکا مطالعہ عمیق ، اور اسکی فکر میں ایک ٹھہراؤ ہے ..مذبح کی بھیڑیں ، حبس ، چیونٹیاں خورشید کی اہم کہانیوں میں سے ایک ہیں . یہ نیے ڈائمنسنس کی کہانیاں ہیں ، جنہیں ایک سانس میں پڑھنا آپکے لئے آسان نہیں ہوگا .وہ بار بار تقاضا کرے گا کہ آپ کو یہاں رکنا ہے .اس ایک سطر میں اس نے جس زندگی کو آواز دی ہے ، اس کے لئے اس نے مہینوں محنت کی ہے .ہندوستان کے دو چند نمائندہ لکھنے والوں میں خورشید بھی شامل ہیں ..میں یہ تسلیم ضرور کرتا ہوں کہ خورشید پر ابھی بھی کم لکھا گیا ..،مگر پر امید ہوں کہ جب بھی اسلوب و فکر و موضوعات پر گفتگو ہوگی ، خورشید کا نام لینا ضروری ہو جائے گا .