میرا وطن، پاکستان
ہر فرد اور طبقے کو قانون کے مطابق احتجاج کا بنیادی حق حاصل ہے۔ یہ حق 1973ء کے آئین میں درج بنیادی حقوق کے مطابق ہے۔ ہمارے ہاں اجتماعات کے کئی ایسے طریقے متعارف ہوئے ہیں جس نے سماج اور ریاست کے وجود کو چیلنج کر دیا ہے، خصوصاً مذہبی اجتماعات۔ اگر کوئی شخص، ادارہ یا ریاستی ادارہ ایسے اجتماعات کا ذکر کرتا ہے تو فوراً فتوے صادر کر دئیے جاتے ہیں۔ ریاست اُن کو آئین کی پاسداری کا کہے تو حکومتیں گرنے کے خدشات امڈ آتے ہیں۔ پہلے لوگ یا عوام بے بس نظر آتے تھے، اب ایسے احتجاجوں پر ریاست ہی بے بس نظر آنے لگی ہے۔ جی ہاں، حکومت ہی نہیں، ریاست۔ کوئی بھی شخص، کسی بھی بنیاد پر اپنے عقیدے کے مطابق ریاست اور آئین کو چیلنج کرنے کا حق رکھنے لگا ہے۔ گزشتہ ماہ دھرنوں نے ان خدشات کو خوف میں بدل دیا کہ اگر حکومت اور ریاست ان دھرنوں کو آئین کے اصولوں کے مطابق ڈیل کرنے کی طاقت سے محروم ہوتی جا رہی ہے تو پھر ریاست کا وجود کیسے برقرار رہ سکتا ہے۔ ایک ایسی ریاست جو اسلامی جمہوریہ ہو، یعنی جہاں کوئی قانون سازی اسلام کے منافی نہیں ہوسکتی، ایک ایسی آئینی جمہوریہ میں کوئی فرد یا گروہ، کم لوگوں، مگر طاقت اور دھونس کی بنیاد پر ریاست کو جھکنے پر مجبور کردے۔ یہ المیہ مشرقی پاکستان کے المیے سے کہیں بڑا ہے۔ مشرقی پاکستان، مغربی پاکستان سے اکثریت میں زیادہ تھا۔ اکثریت نے انتخابات کے بعد علیحدگی حاصل کرلی۔ لیکن اگر آج چند سو یا ہزار لوگ مذہب کے حساس ایشوز پر ریاست کو زیر کرنے میں کامیاب ہوگئے تو ذرا تصور کریں چند سالوں بعد صورتِ حال کیا ہوگی۔ سوشل میڈیا، مین سٹریم میڈیا سے بھی زیادہ اس بکھرتی ریاست کے عمل کو تیز کررہا ہے۔ دراصل سماج کے اندر دلیل، منطق اور قانون کی پاسداری کو مسترد کردینے کی منفی طاقت زور پکڑتی جارہی ہے۔ لوگوں کو ایک دین نہیں بلکہ فرقوں پر اکٹھا یا فرقوں کی بنیاد پر صف بندیاں کی جارہی ہیں۔ اب کسی کو بھی کافر قرار دینے کا حق ہر انفرادی شخص کے پاس آتا جارہا ہے۔ اور کفر،الحاد کی سزا کا حق بھی۔ حالاںکہ 1973ء کے آئین نے اس معاملے کو بھی قانون کے مطابق طے کیا ہے لیکن آئین کو ہی مسترد کر دیا جائے تو پھر کسی ریاست کے پاس کون سا قانونی حق رہ جاتا ہے؟ ہر کوئی بس یہ کہہ دے کہ فلاں نے کفر کردیااور ساتھ ہی اس نے اس پر عمل یا سزا دینے کا حق بھی اپنے پاس لے لیا ہے۔ اس سارے عمل میں ریاست کے اہم ترین اداروں، عدلیہ اور فوج کو بھی چیلنج کیا جارہا ہے۔ اُن کے وجود کو للکارا جارہا ہے۔ یہ ایک نہایت سطحی دلیل ہے کہ اگر ’’یہ نہ ہوتا تو فلاں ہندوئوں کے کتے نہلا رہا ہوتا‘‘۔ آج بھی پاکستان کے 95فیصد عوام اسی غلامی میں جی رہے ہیں، جو 1947ء سے مختلف نہیں۔ 1947ء سے پہلے بھی انہی 5فیصد مسلمانوں کے پاس وسائل اور طاقت تھی، جن کے پاس آج ہے۔ جذباتی خطابوں، سطحی دعووں اور لچھے دار تقریروں سے سماج نہیں بدلتے۔
آج پاکستان کی ریاست جس اندرونی خلفشار اور چیلنجز کا سامنا کررہی ہے، وہ چیلنجز اور خطرات بیرونی چیلنجز اور خطرات سے کہیں زیادہ طاقتور ہیں۔ میں بڑی معذرت سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ہمیں اپنے بیرونی دشمنوں سے اتنا نقصان نہیں پہنچ رہا جس قدر اندرونی جاہلانہ دعووں، جاہلانہ طاقت کی بنیاد پر لوگوں کو زیر اور ریاست کو برباد کردینے والوں سے ہے۔ یہ لوگ درحقیقت علامہ اقبالؒ اور قائداعظمؒ محمد علی جناح کے پاکستان کو زیر کرنا چاہتے ہیں، اپنے وقت میں علامہ اقبالؒ اور قائداعظمؒ برصغیر کے مسلمانوں میں سب سے زیادہ تعلیم یافتہ شخصیات تھیں۔ جدید افکار کی علمبردار اور علم، منطق، دلیل اور انسانیت کے پیکرتھیں یہ شخصیات۔ میں یقین کامل سے کہہ سکتا ہوں کہ علامہ اقبالؒ اور قائداعظمؒ محمد علی جناح نے کبھی کسی دشمن اور غیرمسلم کے لیے وہ زبان استعمال نہیں کی تھی جو ہمارے دھرنوں اور خطابوں میں استعمال کی جانے لگی ہے۔ یہ آئینہ دار ہے تہذیبی گراوٹ اور زوال کی۔ ذرا تصور کریںکہ اگر علامہ اقبالؒ کسی ایک احتجاجی دھرنے کو دیکھنے آجائیں تو عاشق رسولﷺ، درویش خدا اقبالؒ کے دل ودماغ میں کیسے جذبات امڈیں گے۔ اور اسی طرح قائداعظم بانی ٔ پاکستان ایسے کسی ایک دھرنے میں آجائیں تو کیا فرمائیں گے، کیسا ردِعمل ہوگااُن کا۔ بس آپ خود ہی اندازہ کرلیں، دونوں عظیم ہستیوں کی فکری بنیادوں اور بلندیوں کو مدنظر رکھ کر۔ افسوس، ہمارے لوگ کس طرف چل نکلے ہیں۔ بندوق، بم، خودکش جیکٹ، ڈنڈا اور غلیظ زبان، یہ طاقت بنتے جا رہے ہیں اسلامی جمہوریہ پاکستان میں۔ کیا یہ رحجانات اسلامی جمہوریہ کو مضبوط کریں گے؟ خام خیالی ہے ان گروہوں کی۔ کبھی کسی ایک ایسے ملک کی خانہ جنگی کی تاریخ کو پڑھیں کہ وہاں خانہ جنگیوں نے کیسے جنم لیا، کن شیطانی طاقتوں نے ایسے ملکوں کو خانہ جنگیوں میں داخل کیا، کیسے خانہ جنگیوں کے شعلے الائو میں بدل گئے۔ لوگوں نے کیسے ایک دوسرے کے گلے کاٹے۔ کیسے شہروں میں محلے اور گلیاں، فرقوں اور عقیدوں میں تقسیم ہوگئیں۔ بس ذرا لبنان کی خانہ جنگی کا ہی مطالعہ کرلیں۔ شہروں، قصبات کے اندر عقیدوںپر حصار کھڑے ہوگئے، شیعہ علاقہ، سنّی علاقہ، دُروز، مسیحی اور دیگر فرقوں نے گلیاں بانٹ لیں۔ اور قتل کا مسلسل عمل شروع ہوا اور پھر بیرونی طاقت (اسرائیل) اور شام نے بھی اس جنگ میں اپنا حصہ ڈالا۔ کہیں ہم پاکستان کو لبنان تو نہیں بنا رہے۔ وہ تو صرف چالیس لاکھ آبادی کا چھوٹا سا ملک تھا، یہ بیس کروڑ کا ایک بڑا ملک۔ اس اندرونی جنگ میں ہم ریاست کے اہم اداروں فوج اور عدلیہ کو ادھیڑ کر ایک خوفناک اندرونی بربادی اور قتل عام کا سامان بڑھا رہے ہیں۔قانون اور فیصلے پر ہر کوئی اپنا حق جتا رہا ہے۔ ریاست مجبور ہوتی چلی جارہی ہے۔ زیادہ وقت نہیں لگتا کسی ریاست کو بکھرنے میں۔ کوئی ایک ایسا خطرناک سوراخ ہونے کی دیر ہے جو سارے لاوے کو ہرطرف پھیلا سکتا ہے۔ ریاست جب پسپائی اختیار کرتی ہے تو وہیں سے اس کے خاتمے کا آغاز ہوتا ہے۔ ریاستیں ہمیشہ قانون کی پاسداری کے لیے پیش قدمی کیا کرتی ہیں۔ اسلام میں حضرت عمرؓ کی ریاست کی مثال سے بڑھ کر اور کیا مثال ہوسکتی ہے۔ بس اس کے ماڈل کو ہی سامنے رکھیں تو معلوم ہوگا کہ ریاستیں کیسے کامیاب ہوتی ہیں۔ پسپا ہوتی ریاستیں انہونے انداز میں بکھر جاتی ہیں۔
“