رات گاؤں میں بیاھی بیٹی اور گھر میں موجود بیٹے کی وڈیو لنک پر بات ہو رہی تھی ۔ بیٹے نے میری جرسی پہنی تھی ، بیٹی اس کے ساتھ جھگڑا کر رہی تھی کہ ابو کی جرسی فوراً اتار دو ۔ بیٹی کا خیال ہے کہ ابو نے نئی جرسی پر خرچ تو کرنا نہیں ، یونہی کسی پھٹی پرانی سویٹر ، جرسی میں سردیاں گزار دیں گے ، لہٰذا بھائی کو ابو کی جرسی نہیں پہننا چاہیئے ۔ ابھی بظاہر تو بات اتنی سی ہے ، لیکن یہ بات ایسی بالکل نہیں جیسی کے میرے بچے سمجھتے ہیں ۔
اس وقت میرے سر پہ پانچ سال پرانی سرخ اونی ٹوپی ہے ، امتیاز سپر سٹور سے دو سو پچاس میں خریدی تھی ۔ دو سردیاں سوچتا رہا کہ خریدوں یا نہیں اور تب بھی خود کے لئے ٹوپی خریدنا اچھا تو نا لگا پر سستی لگی تو لے لی ۔
میری پہنی ہوئی شلوار قمیض بھی چار پانچ سال پرانی ہے ۔ پچھلے تین چار سال سے میں نے نئے کپڑے نہیں خریدے ۔ بس اپنے لئے کچھ لینے کو دل ہی نہیں کرتا ۔
چارپائی کے سر والی سائیڈ پہ ٹین کا ایک ٹرنک پڑا ہوا جس میں میرے کپڑے ہیں ۔ یہ ٹرنک پچاس سال پہلے ، پہلی بار میں نے اپنی دادی اماں پاس دیکھا ، تب بھی ایسا ہی زنگ آلود ۔ شاید ان کے جہیز کا تھا ، دادی سے والدہ پاس آیا ، والدہ سے میرے پاس ۔ دو تین سال سے مجھے کہا جا رہا کہ اپنے کپڑوں کے لئے کوئی نیا صندوق لے لیں لیکن میں نہیں خرید رہا ۔ اپنے لئے نئے اٹیچی کیس پہ دس بارہ ہزار خرچ کرنا مجھے اپنے بچوں کے حق پر ڈاکہ لگتا ہے تو میں یہ ڈاکہ کیوں ماروں ۔ ؟
میری چارپائی کے دائیں ہاتھ تین سیٹر صوفہ پڑا ہے ۔ متواتر استعمال سے اس کا فوم بیٹھ چکا اور سپرنگ اُبھرے نظر آتے ہیں ۔ سب ہی لوگ کہتے کہ اسے مرمت کروا لیں یا نیا صوفہ خرید لیں ۔ لیکن بس مجھے ایسے ہی ٹھیک لگتا ۔ میں کیوں نیا خریدوں ۔
کمرے کے اندر ، ایک کونے میں میرا واش روم ہے ۔ بغیر دروازے اور پلستر وغیرہ کے ۔ جب نہانا دھونا ہو تو کمرے کو اندر سے کنڈی لگا لیتا ہوں تو واش روم کے لئے دروازے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی ۔ سب لوگ کہتے کہ دروازہ نیا لگوا لو پر جب اپنی ذات پہ خرچ کرنے لگوں تو یوں محسوس ہوتا کہ جیسے بچوں سے کچھ چھین کر لے رہا ہوں ۔ یہ جو بھی میرے پاس ہے ، اللہ پاک نے مُجھے بچوں کے صدقے اور بچوں کے لئے ہی تو دیا تھا تو میں اُن کی چیز کیوں لوں ۔ چاہے ٹھیک سوچتا ہوں یا غلط ، بس ایسے ہی سوچنا اچھا لگتا ہے ۔ میری ترجیح یہ ہی ہے کہ بچوں کی سب ضروریات پوری ہونی چاہیئں اور الحمدللہ ، اللّٰہ پاک وہ سب اچھے سے پوری کرتے جا رہے ۔ اس سے زیادہ کی مُجھے کوئی خواہش ہی نہیں ۔
ایسا نہیں کہ میرے پاس پیسوں یا دنیا داری کی کوئی کمی ہے ۔ سب کچھ ٹھیک ٹھاک جا رہا ۔ اللّٰہ نے بہت دیا ، میری حیثیت سے زیادہ ، لیکن چونکہ اکیلا ہوں ، بچوں کی ماں بھی اور باپ بھی ، تو سوچ ایسی ہے ، یا شاید ہر باپ کا دل اپنے بچوں کے لئے ایسا ہی ہوتا ۔
یوں لگتا کہ میں نے یہ جو جوتے کپڑے پہنے میرا وجود بس ان جوتوں کپڑوں تک ہی ہے ۔ باہر سے میرے جو کپڑے نظر آتے وہ میرے نام کا سائن بورڈ ہیں ۔
اوپر سے پیکنگ میری ہے جب کہ اندر سارے کا سارا میرے بچوں کا پیار بھرا ہے ۔ پانچ بچوں سے بنا چھ فٹ اونچا اسی کلو کا ایک ستون ہوں ۔
بہت بار اپنے آپ کو ڈھونڈا کہ میں کہاں ہوں لیکن ہر بار جواب یہ ہی ملا کہ میں اپنے بچوں میں سرایت کر چکا ہوں ، علیحدہ سے میرا کوئی وجود ہی نہیں ۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...