آج مجھے پاکستان سے ایک پرائیوٹ نمبر سے فون آیا اور مجھے میرے وکیل اقبال جعفری کے بارے میں پوچھا گیا ، ان کا فون نمبر پوچھا گیا اور مجھے سوشل میڈیا بلاگنگ سے اجتناب کرنے کا حکم دیا گیا۔ عجیب و غریب معاملہ ہے ، بلکل سمجھ سے باہر ۔ مجھے فورا میری ہی طرح کی مالٹا کی سوشل میڈیا بلاگر یاد آ گئ ۔ مالٹا کے لوگ اخباریں پڑھنا بند ہو گئے تھے اور ٹی وی بھی نہیں دیکھتے تھے ، صرف اس کے بلاگز کی وساطت سے اس کے انویسٹیگیٹو جرنلزم کا حسن دیکھتے اور داد دیتے ۔ ڈیفنی گلیزیا جرنلسٹ تو تھی ہی لیکن روایتی نہیں ، کسی اخبار کے لیے نہیں لکھتی تھی صرف بلاگز کے زریعے سماجی برائیوں اور مالی گھپلوں کا انکشاف کرتی تھی ۔ ڈیفنی کو اس بات پر شدید غصہ تھا کہ مالٹا کا پاسپورٹ ارباب اختیار بیچتے ہیں ملک کا سودا کرتے ہیں صرف پاسپورٹ ہولڈر کو EU کے ملکوں میں رسائ اور رہائش کی خاطر ۔
جب پناما لیکز ۲۰۱۵ میں ظہور پزیرہوئیں اور Mosack Fonseca کمپنی کے ۱۱ ملین کاغزات ہیک ہو کر لیک ہوئے اور پہلی دفعہ financial underworld کے سیاہ کرتوت سے پردہ اٹھا تو ڈیفنی کے مزے ہو گئے ۔ بہت سارے سربراہان مملکت بشمول پاکستانی وزیراعظم نواز شریف ، برطانیہ کے وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون اور آئیس لینڈ کا صدر سگمندر ڈیوڈ شکنجے میں آ گئے ۔
ڈیفنی کا خاوند وکیل تھا جس سے ڈیفنی کو پاناما کے کاغزات کو سمجھنے اور حاصل کرنے میں بہت مدد ملی ۔ ڈیفنی نے اس کالے دھن کے مافیا کے خلاف کھلم کُھلا جنگ شروع کر دی ۔ مالٹا کے وزیر اعظم نے ڈیفنی پر مقدمہ دائر کر دیا صرف اس بنا پر کہ ڈیفنی نے اس کی بیوی کو آفشور کمپنی کا بینیفیشری کہا اور ساتھ ہی ڈیفنی کے بیٹے پر منی لانڈرنگ کے بارے میں محض فیس بُک پوسٹ کی بنیاد بنا کر ۔ ڈیفنی کی فیملی نے اسے conflict of interest کے زمرے میں لا کر اس کا دفاع کیا ۔ ڈیفنی اکتوبر ۲۰۱۶ کی ایک شام اپنی سلیٹی رنگ کی Peugeot 108 پر جب گھر سے نکلی تو تھوڑی دور ہی اس کی گاڑی کے پرخچہ اُڑ گئے اور ڈیفنی نے وہیں جان دے دی ۔ مافیا نے اس کی گاڑی میں بم پلانٹ کیا ہوا تھا۔ ڈیفنی کے گھر سے نکلنے سے پہلے اپنے آخری بلاگ کے آخر ی الفاظ جو ٹائپ کیے وہ مندرجہ زیل تھے ؛
“There are crooks every where you look now. The situation is desperate”
اس کی بہن نے اس کی موت پر کہا کہ پیسہ والے اور طاقتور لوگوں کے لیے اس کی بہن ناقابل برداشت تھی ۔ مالٹا میں ہی چند عام لوگ ڈیفنی کو نا پسند بھی کرتے تھے کہ ڈیفنی مالٹا کو پوری دنیا میں ننگا کر رہی تھی ، کس سے وہ سمجھتے تھے کہ مالٹا بدنام ہو رہا ہے ۔ اس منفی سوچ کو ایک سیاست دان نے یہ کہ کر رد بھی کیا کہ ؛
“What is worse than having corruption or worse than a break down of rule of law is precisely the lack of public reaction in disgust, in disdain, in protest against it. That is why Daphne was so frustrated”
قتل کے ایک سال پہلے کے دورانیہ میں ڈیفنی کے گھر کو آگ لگائ گئ تھی ، اس کے کتے کی گردن کاٹی گئ اور اسے اخباروں میں چُڑیل اور مالٹا کی دشمن کہا گیا ۔
اپنے قتل سے ایک دن پہلے ڈیفنی نے یورپیین یونین کے ایک وفد کو ملاقات میں بھی یہی کہا تھا کہ جس طرح اسے برا بھلا کہا جا رہا ہے مستقبل میں کوئ whistle blower ایسی مستقبل میں ہمت نہیں کرے گا ۔ اور اس کے اپنے الفاظ اس بارے کچھ یوں تھے ؛
“My biggest concern is that people see what’s happened to me, they don’t want to do it. People are afraid of consequences”
میرا معاملہ بھی ڈیفنی والا ہوتا جا رہا ہے ۔ فرخ عرفان میرے کردار کو اپنے دفاع میں زیر بحث لا رہا ہے جو کھلم کھلا conflict of interest ہے ، اور ثاقب نثار اس کی پُشت پناہی کر رہا ہے ۔ فرخ عرفان کی لاء کمپنی عرفان اینڈ عرفان نے نہ صرف فرخ کے لیے Mossack Fonseca کے زریعہ منی لانڈرنگ کی بلکہ ایک سو سے زیادہ پاکستان اور باہر کے ملکوں کے کلائینٹز کے لیے بھی ۔ جب میں نے ICIJ جس کے دفاتر امریکہ میں ہی ہیں ان سے تفصیلات کے لیے درخواست دی تو انہوں نے بھاری بھرکم رقم مانگی ۔ ICIJ کے پاکستان کے نمائندے عمر چیمہ نے بھی فرخ عرفان سے چُپ رہنے کی بھاری رقم وصول کی اور میری اس ضمن میں عمر چیمہ کے خلاف درخواست ICIJ کے دفتر میں موجود ہے ۔ ڈیفنی کا ایک بڑا نشانہ علی صدر ہاشمی نیجاد تھا جس کا کُھرا بھی فرخ کی کمپنی تک جاتا ہے ۔ فرخ کی کمپنی کے دفاتر سعودیہ ، امریکہ ، دبئ اور دیگر مختلف ممالک میں ہیں جن کام دراصل patent کی آڑ میں منی لامڈرنگ ہے ۔ یہاں نیوجرسی میں فرخ کے نام پر باقاعدہ دو درجن کے قریب گھر ہیں ۔ فرخ عرفان اپنی جیوڈیشل پوزیشن کو اس وجہ سے بھی بچانے کی سرتوڑ کوشش کر رہا ہے تا کہ باہر کے ملکوں میں تحقیقات سے شاید بچت ہو جائے ۔ جس طرح ایک دن ایف آئ اے نے Axact کے دفاتر پر ہلہ بول کر seal کیا تھا اسی طرح عرفان اینڈ عرفان کے دفاتر بھی منی لامڈرنگ کے عالمی ریڈار پر ہیں ۔ کچھ دنوں کی بات ہے ۔ فرخ کے پاس باہر کہ متعدد پاسپورٹ ہیں اور ۹ سالہ ججی کے دوران فرخ سینکڑوں دفعہ باہر گیا ۔
اگر سپریم جیوڈیشل کونسل نے فرخ عرفان کو فارغ نہ کیا تو پاکستان کی شدید بدنامی ہو گی ۔ پہلے ہی یہاں امریکہ میں اسی گند میں امتیاز شاہین بٹ، شعیب شیخ اور حبیب بینک نے پہلے بہت چاند چڑھائے ہوئے ہیں بس فرخ عرفان کی کسر باقی ہے ۔
میں اپنے اس بلاگ کی وساطت سے چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب سے کچھ سوالات پوچھنا چاہوں گا ۔ میری درخواست لاہور ہاہیکورٹ کے جسٹس فرخ عرفان کے خلاف سپریم جیوڈیشل کونسل میں محض پناما لیکز میں فرخ عرفان کا نام آفشور کمپنیوں میں آنے کی بنیاد پر تھی ۔ اس کو باقاعدہ اس وقت کے چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے نہ صرف admit کیا بلکہ میرے پاکستان ہوتے ہوئے فرخ عرفان کو شو کاز نوٹس جاری کیا۔ کیس کو سپریم جیوڈیشل کونسل کی ہیرنگ کے لیے بھی فکس کیا گیا۔
پہلا سوال ، آپ نے ڈھائ سال اسے ڈیپ فریزر میں کیوں رکھے چھوڑا ، جبکہ اسی دوران تین ہیوی ویٹ سیاست دانوں نواز شریف ، عمران خان اور جہانگیر ترین کی ریڑھ لگائ گئ ۔
دوسرا ، آپ نے میرے وکیل کی بارہا درخواست پر اپنے آپ کو اس کیس سے الگ کیوں نہیں کیا جب درخواست میں ہم نے آپ کا جانبدار ہونا ثابت کیا ؟ اب آپ کا ہی ٹاؤٹ شہزاد شوکت فرخ کے لیے پیش ہو کر آپ کی جانبداری ثابت کر رہا ہے ۔
تیسرا سوال ، آپ میرے وکیل کو کاروائ کا حصہ کیوں نہیں بنا رہے اور جب فرخ نے in camera کی بجائے اوپن کورٹ ہیرنگ کا کہا جو آپ نے مانا ۔ میرا بیان کیوں نہیں Skype سے ریکارڈ کروایا جا سکتا ؟
چوتھا ، اخباروں پر کیوں پابندی ہے کہ صرف فرح عرفان کا موقف چھاپا جائے ؟ مجھے کچھ پاکستانی اخباروں نے امریکہ میں رابطہ کیا اور بتایا کہ آپ کا موقف چھاپا نہیںُ جا سکتا ۔ میرے لیے تو خیر میرے بلاگ ہی بہت میں ، لعنت بھیجتا ہوں پاکستان کے بکے ہوئے اخبار اور جرنلسٹوں پر ۔
آخری سوال ، مجھے اور میرے وکیل کو دھمکیاں کس بات کی دی جا رہی ہیں ؟ ہم نے آپ کا کیا بگاڑا ہے ؟ آپ کو تو اُلٹا ہمیں تحفظ فراہم کرنا چاہیے تھا ۔ ہم تو یہ سب کچھ اپنے پیارے وطن پاکستان کے لیے کر رہے ہیں ۔
کیوں آپ عدلیہ کا وقار تباہ کرنے پر تُلے ہوئے ہیں ؟ میری بات آج لکھ لیں ، آپ کی مافیا کو بچانے کی کوششوں کے باوجود آپکو کسی نے چیرمین نیب نہیں لگانا اور نہ ہی چیف الیکشن کمشنر ۔ ادھر ڈیم کے سامنے ٹینٹ لگا کر چوکیداری کرنا جس کا آپ نے قوم سے وعدہ کیا ہے ۔ آنا امریکہ ڈیم کا فنڈ اکٹھا کرنے ملاقات ہو گی آپ کو نزرانہ دیں گے ۔ یاد رکھو چیف جسٹس ، میرے اللہ کی قسم جس نے تمہے بھی بنایا اور مجھے بھی ، فیصلے کہیں اور ہوتے ہیں ؟ اس اصل ہستی کو خوش کرو اگر سچی مستی کا مُوڈ ہے جج صاحب ! افتخار کانا بھی تمہاری طرح اکڑتا تھا آج کوئ گھاس نہیں ڈالتا اور داماد اندر ۔ فرخ سے ۲۰ کروڑ لے کر جج بنانے کے باوجود آج کانا اس کی حمایت میں بیان دینے نہیں آ رہا ۔ سبق سیکھو تاریخ سے ۔ شیکسپیر کے tyrants کی داستانیں پڑھو ، اب ہفتہ بعد وقت ہی وقت ہو گا ، عبرت پکڑو اور اللہ توبہ کرو ۔ میرے لیے تو مجرا پاکستان ، میری عزت نفس اور میرا سچ اتنا عزیز ہے کے اس کے لیے جان دینا بھی ایک معمولی امر ہے ۔ میری ہیرو ڈیفنی گلیزیا ہے ۔ اور میرا امام ، حسین ہے ۔ پاکستان پائیندہ باد