،، ہم جو دار کی خشک ٹہنی پہ وارے گئے ،،
میرا ساتھی نذیر عباسی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سندہ سے چھپتے چھپاتے گاڑیاں تبدیل کرتے سندہ کے نوجوانوں کا ایک گروپ لاہور پہنچ گیا تھا۔ ادھر لائل پور سے میں خالد جیلانی شاہ بھائی اور دوسرے ساتھی بھی لاہور پہنچ گئے تھے۔۔ پورے پاکستان سے نیپ کی پارٹی سے وابستہ کارکن ، طالب علم ، کسان اورپارٹی رہنما لاہور پہنچ رہے تھے ۔۔
بھٹو نے جب نیپ پہ پابندی لگائی تھی تو نیپ نے این ڈی پی کے نام سے کام کرنا شروع کر دیا تھا ، نیپ کے راہنما اور تما م بلوچ قیادت جیل کے اندر تھی ۔ جب این ڈی پی نے شیر باز مزاری کی قیادت میں کام کرنا شروع کیا تو کچھ عرصہ بعد ہی پارٹی کے اندر ترقی پسندوں نے محسوس کر لیا کہ ولی خان اور ان کے ساتھ وابستہ گروپ اب کسی اور کے ہاتھوں کھیل رہا ہے اور بھٹو کے خلاف چلائی جانے والی قومی اتحاد کی تحریک میں ولی خان کا گروپ کھل کر سامنے آگیا تھا ۔۔ترقی پسندوں نے خود کو اس پارٹی سے الگ کر کے ایک نئی پارٹی بنائی تھی جس کے سربراہ لائل پور کے سیف خالد بنائے گئے تھے ۔ ان ہی کی قیادت میں پارٹی نے لاہور کے صوبائی انتخاب میں آغا اختر علی قزلباش کو پارٹی کا امیدوار بنا کر حصہ لیا تھا ان کے مقابلے میں پیپلز پارٹی کے سردار مظہر علی خان تھے جو بذات خود
ایک ترقی پسند سوچ رکھتے تھے ۔
اُس دن یہ سب لوگ آغا اختر علی قزلباش کے ہی گھر اکٹھے ہو رہے تھے ۔ اس اجلاس میں ایک پارٹی کا نیا نام ، پارٹی کا نیا منشور اور پارٹی کئ نئے سربراہ کا انتخاب کیا گیا اور وہ تھے ڈاکٹر اعزاز نذیر۔
صبح کوئی نو یا دس بجے کا وقت ہوگا مجھے کامریڈ عزیز نے کہا یہ سندھ سے آئے نوجوان ہیں یہ پارٹی کا اجلاس شروع ہونے سے پہلے لا ہور دیکھنا چاہتے ہیں ۔ انھی میں نذیر عباسی، جبار خٹک اور لیاری کے کچھ اور نوجوان تھے۔
میرے سامنے مونچھوں کو ایک ہاتھ سے مروڑتا اور دوسرے ہپاتھ ہاتھ میں سگریٹ پکڑے، باتوں میں قہقہہ ۔لگاتا نذیر عباسی لیاری کے چند کامریڈز کے ساتھ کھڑا تھا ، میں نے ان سے پوچھا آپ لاہور میں کیا دیکھنا چاہتے ہیں تو نذیر عباسی نے سگریٹ کا دھواں نگلتے ہوئے کہا شاہی قلعہ اور انار کلی بازار ۔ مجھے حیرانگی ہوئی کہ ان کے بارے تو میں نےسُنا تھا کہ یہ بڑے انقلابی ہیں ان کو شاہی قلعہ دیکھنے کا کیا شوق ہے ، میں نے کہا ٹھیک ہے پہلے شاہی قلعہ چلتے ہیں انار کلی تو شام کے بعد رات کی روشنی میں دیکھنے کی چیز ہے ۔ ہم جیسے ہی شاہی قلعہ پہنچے تو یہ بات مجھ پہ عیاں ہو چُکی تھی کہ نذیر عباسی شاہی قلعہ کیوں دیکھنا چاہتا ہے ۔ شاہی قلعے کے اندر داخل ہوتے ہی نذیر عباسی نے کہا کامریڈ مسعود ہمیں صرف وہ کو ٹھڑی دیکھنی ہے جس میں حسن ناصر کو رکھا تھا ۔ میں نے وہاں موجود عملے کے بہت سے لوگوں سے بات کی مگر کوئی بھی ہمیں اس کوٹھڑی تک لے جانے کے لیے تیار نہیں تھا بلکہ بہت سوں نے تو اس کوٹھڑی سے ہی لا علمی کا اظہار کر دیا ایک نے کہا وہ کوٹھڑی تہہ خانہ کے اندر ہے اور وہاں صرف پولیس، خفیہ ایجنسی کے لوگ یا قیدی ہی جا سکتے ہیں ، بڑی مشکل سے ایک سپاہی پچاس روپے کے عوض تیار ہوا مگر اس نے کہا میں اتنے سارے لوگوں کو وہاں نہیں لے جاسکتا ایک آدمی یا زیادہ سے زیادہ دو آدمی جاسکتے ہیں ۔ آخر ہم
نے نذیر عباسی اور لیاری سے ایک اور کامریڈ کو اس سپاہی کے ساتھ روانہ کر دیا ۔ کوئی آدھا گھنٹے بعد جب نذیر عباسی اور وہ کامریڈ واپس آئے تو نذیر عباسی کا سگرٰیٹ اور قہقہہ بجھا ہوا تھا ایسا لگتا تھا نذیر عباسی کے اندر بہت تشدد ہوا ہے اور اس سے چلا نہیں جا رہا ۔ ہم وہیں سب زمین پر بیٹھ گئے نذیر عباسی سے بولا نہیں جا رہا تھا ، میں سمجھ گیا یہ سب حسن ناصر کی کوٹھڑی دیکھنے کا ردِ عمل ہے ۔ میں نے ایک سگریٹ سُلگایا اور نذیر کی طرف بڑھا دیا نذیر عباسی نے میری طرف دیکھا اور سگریٹ کا کش لیتے ہوئے آنکھ ملنے لگا ظاہر کر رہا تھا سگریٹ کا دھواں آنکھ میں چلا گیا پتہ نہیں سگریٹ کا دھواں آنکھ میں گیا تھا یا نہیں مگر جو آنکھ سے باہر نکل رہا تھا وہ ہم سب دیکھ رہے تھے۔
یہ تھی نذیر عباسی سے میری پہلی ملاقات ۔
پھر ایک دوسرے نذیر عباسی سےشام کے اجلاس میں ملاقات ہوئی جب میں نے اُسے اجلاس میں تقریر کرتےسُنا پارٹی کے مسلوں پر بحث کرتے سُنا ۔ تقریر کرتے گفتگو کرتے لگتا تھا اس شخص نے زندگی میں کبھی قہقہہ لگایا ہی نہیں تھا ، اتنی سنجیدگی تھی اس کے چہرے پر کہ گمان ہی نہیں ہوتا تھا یہ وہی نذیر عباسی ہے جو صبح قہقہہ ہر قہقہہ لگا رہا تھا۔
پھر نذیر عباسی سے میری تیسری ملاقات اگلی شام لاہور میں لارڈ ہوٹل کی بیک پہ سیف خالد کے دفتر جو ایک زمانے میں پارٹی کا دفتر بھی ہوتا تھا وہاں ہوئی جب پارٹی کے طالب علموں کی تنظیم ڈی ایس ایف پہ بات ہو رہی تھی کچھ عرصہ بعد ہی کیوبا میں یوتھ فیسٹیول بھی ہونا تھا اس پہ بات ہونی تھی ایک تجویز آئی کہ اس فیسٹیول کے لیے بنائی گئی کمیٹی کا سربراہ کراچی کے نواز بٹ کو بنا دیا جائے مگر جبار خٹک اور نذیر عباسی نے اس تجویز کو بہت خوبصورت اور مدلل دلائل سے نامنظور کرایا ۔ کسی سے اپنی بات منوانے کا ہنر نذیر عباسی اور افرا سیاب خٹک میں بہت پایا جاتا تھا مگر افراسیاب خٹک جب افغانستان چلا گیا تو کسی اور بڑے ماہر نے اس سے اپنی بات منوا لی ۔
نذیر عباسی سے میری آخری اور چوتھی ملاقات کراچی میں ہوئی ، جب میں تحریک آزادی صحافت کی قید کاٹ کر رہا ہوا تھا اور چند دنوں کے لیے لیاری میں دوست کے گھرٹھہرا ہوا تھا تو ایک دوپہر ایک دوست نے کہا مسعود آج کہیں اور نہ پروگرام بنانا ہمیں کہیں جانا ہے اور شام کو وہ مجھے مختلف بسیں تبدیل کر کے فیڈرل بی ایریا کے ایک فلیٹ میں لے گیا،، جس میں پہلے سے نذیر عباسی بیٹھا تھا
نذیر عباسی نے کھلے قہقہے اور کھلی باہوں سے مجھے جھپی ہوئے ڈالتے اُٹھا لیا ۔ اس نے بتایا مجھے علم ہوگیا تھا کہ تم رہا کر دئیے گئے ہو میں نے ہی ملاقات کا کہا تھا پھر تم نے پنجاب چلے جاتا تھا ، نہ جانے پھر کب ملاقات ہو اورکیا پتا کہ ملاقات ہو بھی یا نہ ہو ۔
اور ،،،،، اور پھر میری اس سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی ۔ لائل پور میں جب پولیس میرے پیچھے پڑ گئی تو میں کچھ دن کے لیے اپنے سسرال لیہ چلا گیا ۔ رات نو بجے کی خبروں میں بتایا گیا کہ کراچی میں پولیس نے ایک جگہ پہ چھاپہ مار کر کچھ ملک دشمنوں کو پکڑ لیا اور ان ملک دشمنوں کی فہرست میں نذیر عباسی کا نام بھی تھا ۔ مجھے نذیر عباسی کاکہا ہوا جملہ یاد آیا ۔ ِِ،، پھر تم نے پنجاب چلے جانا تھا نہ جانے پھرملاقات ہویا نہ ہو ۔
نذیر ؑعباسی ان انقلابیوں میں سے تھا جس نے اپنی زندگی کا ہر لمحہ ہر سانس ہر عمل انقلاب کے ساتھ وابستہ کیا ہوا تھا ، اپنی زندگی کا ساتھی بھی اس نے انقلابی لڑکی حمیدہ گھانگھرو کو چُنا اس کی شادی کی تقریب پہ پولیس نے چھاپہ مارا کہ یہ شادی کی تقریب نہیں پارٹی کا اجلاس ہے ، نذیر عباسی نے جان دے دی مگر پارٹی کو بچایا
نذیر عباسی پہ جان لیوا تشدد کیا گیا مگر ریاستی درندے اس سے پارٹی کا کوئی بھی راز نہ اگلوا سکے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“