میرا سرگودھا پانچ سالوں کی ن لیگی دورِ حکومت کے تناظر میں ۔
میں سرگودھا کی رہائیشی نوشیلا قریشی اپنے ہوش و حواس اور اپنے بیان کی تمام تر زمہ داری کے ساتھ بیان کرنا چاہتی ہوں کہ دور شہباز اور دور نواز میں سرگودھا نے کیا کھویا کیا پایا ایک عام شخص کو ملا ایک کسان کو ملا ایک کاروباری کو ملا ۔
تو شروع کرتی ہوں زراعت کے شعبے سے جو کہ سرگودھا کا ستر پرسنڈ ہے اور المیہ ہے سب سے پہلے بڑی کاشت کنو جس پر کسان نے لاکھوں خرچ کیے کھاد ۔پانی (جو کہ پیٹر چلا کہ لگایا کیونکہ بجلی نا میسر ہوئی کہ ٹیوب ویل چلاتے اور نہری پانی اپنی متعین کردہ مدت کے دو ماہ لیٹ ملا ) اسکے بعد زیریلی ادویات اور سپرے نوکروں کی تنخوائیں نکال کر کسان کو بس یہی بچا کہ پچھلا قرض اتارا تا کہ اب اس سال کوئی دوبارہ قرض دے دے
اگلی کاشت چاول اسکا یہ حال ہوا کہ ساٹھ فیصد کسانوں نے کانوں کو ہاتھ لگایا کہ اب کاشت ہی نہیں کرنا کیونکہ چاول پر بے انتہا پانی کا خرچہ چاہیے ہوتا اور پیٹر پر ڈیزل لگا کر ککھ نہیں بچتا تھا جنہوں نے کاشت کیا انہوں نے حلفیہ یا تو گھاٹا اٹھایا یا بس پیسے ہورے کیے
پھر گندم دکھ کی انتہا کہ ٹرالیاں محکمہ کے سامنے لدی ہوئی ایک ایک ماہ کھڑی رہیں کوئی لینے کو تیار نہیں (حالنکہ بار دانہ بانٹا جا چکا تھا جیسے تیسے ) ان کھڑی ٹرالیوں پر دھوپ نے اثر کیا اور دانہ خشک ہو کہ وزن کم کرنا شروع کر دیا اور بارش پڑ گئی تو ویسے تباہ ٹرالی جو کرایہ کی تھی وہ کھڑی رہنے کی وجہ سے کرایہ اتنا بن گیا کہ محکمے نے جس ریٹ پر خریدا کسان نے پھینکا اور جان چھڑائی یہاں مینشن کر دوں کہ فصل بہت اچھی رہی کسان نے سپرے کٹائی بیجائی پانی کھاد سب کا خرچہ نکال کر سوچا ہوا تھا کہ ساتھ کچھ بچ جاے گا
پھر آ جاتا ہے گنا جس نے اس دفعہ سب سے زیادہ نقصان اٹھایا اور مار کھائی کہ ظلم خدا کا جیسے ہی فصل نے سر اٹھایا بیماری حملہ آور ہوئ اس پر ہزاروں کا سپرے کھاد سب کرنے کے بعد فصل تیار ہو گئی اور کرشنگ کا وقت آیا زمیندار نے سکون کا سانس لیا کہ یار چلو کچھ نا کچھ بچ ہی جاے گا لیکن کرشنگ کا سیزن جو ستمبر کے آخر میں شروع ہونا تھا وہ چلتے چلتے دسمبر پر آ گیا کسان پریشان کیونکہ وہ تو چاول اور گندم کی فصل میں مار کھا کر اب ادھار پر گزارا کر رہا تھا اور ہھر شروع ہویی شوگر ملز کی عجب لوٹ مار کی غضب کہانی (یاد رہے کہ سرگودھا میں یوسف مل جو کہ اب عریبیہ مل کے نام سے ہے وہ سلمان شہباز کی ہے اور چنیوٹ مل بھی شہباز صاحب کی ہے ) اب کیا ہوا کہ سب سے پہلے گنے کا ریٹ مقرر ہوا 180روپے فی من سی پی آر کاٹی گئی لیکن گنا لیا 160 روپے پر بیس کا نقصاں پھر ایک ہزار من ٹرالی کنڈے سے تول کر جب مل پہنچی تو وہاں جا کر آتھ سو من ہو گئی یہ نقصان سیزن لیٹ ہونے اور ملز بند ہونے کے خدشے کی وجہ سے مزدور کی سابقہ مزدوری ستائیس روپے سے پینتیس روپے ہو گئی ایک اور ظلم الغرض ہر طرف سے لٹ لٹا کہ کسان کو اسی روپے فی من بچا جو کہ اخراجات بھی پورے نا ہو سکے
اب آتے ہیں تاجر کی طرف تو وہاں بھی یہی بات کہ کسان کے پاس پیسا ہوتا تو وہ کچھ خریدتا وہ غریب تو کھڑے دس دس کلے بھینسوں کا چاراہ بنا کر بیچتا رہا اسکو کیا بچنا تھا اسکی اپنی جان کے لالے پڑے ہوے تھے جو زمیندار کم از کم سال میں دو بوسکی کے سوٹ لیتا تھا اس نے کم کر کے دو لٹھے کے سوٹ لیے جو ہر سال اپنی بیٹی بہن کے لیے دو چار تولے سونا بنا لیتا تھا وہ اس دفعہ قرض میں جکڑا تھا اسی حساب سے ہر چیز میں کمی آئی کیونکہ کسان کی قوت خرید نا تھی تو تاجر اپنی جگہ روتا دیکھا
بجلی سردیوں میں اتنی تھی کہ پڑوسی بھی مانگ کر لے جاتے لیکن گیس اتنی ببی نا تھی کہ روٹی پک جاتی اس سال بھی مزدور کی مزدوری وہی سات سو رہی لیکن آتا دال چاول گھی پتی چینی سب مہنگا ہوا اور مزدور کی اگر دو دن دیہاڑی نا لگ سکی تو وہ اور اسکے بچے بھوکے ہی سو گیے
اب آتے ئیں ترقیاتی کاموں کی طرف (سرگودھا میں سو پرسنٹ ن لیگ کی ہی حکومت ہے نادیہ عزیز ۔حامد حمید قابل زکر شخصیت ہیں جنہوں نے پورے پانچ سال ٹکے کا بھی کام نا کیا اور اب جب آخری چھ ماہ رہ گئے تو محترم بھاگم بھاگ راتوں رات سڑکوں پر ٹوٹے لگانے لگ گیے اور جنکا پول صرف ایک ہی بارش نے کھول کے رکھ دیا اور سب دعوے منہ کے بل آ کے گرے پانی کی صاف پانی کا کوئی بھی قابل زکر پراجیکٹ نا لگایا گیا جو چھوٹی چھوٹی نالیاں لگائی گئیں وہ بھی سیورج کے پانی کے ساتھ ملکر ایک ٹکٹ میں دو مزے دے رہی ہیں سول ہسپتال کی بلڈنگ پر کروڑوں خرچ کر دیے گیے لیکن نا وہاں ادویات موجود ہیں نا ڈاکٹر ایم آئی آر جیسی مشین مہینوں سے بند پڑی ہے ایک عام سا ایکسرے کروانے کے لیے اسی روپیہ فیس بھر کر دن بھر انتظار کرنا۔ پڑتا ہے اور دھکے فری میں کوئی بھی قابل زکر ہسپتال۔کلینک ۔ انفرٹیلٹی سنٹر ۔ شروع نا کیا گیا سکول جو کہ کسی بھی ملک اور معاشرے کا اہم جزو ہوتا ہے اسکا یہ حال ہے کہ خادم اعلی صاحب کا آرڈر جاری ہوا کہ پہلی سے لے کر آٹھویں تک ہر بچہ پاس کیا جاے صرف گڈ پوزیشن دکھانے کے لیے چاہیے بچے کی بیس نا بنے بس آرڈر ہیں کہ تعداد پوری کی جاے اور روز چھاپے مارے جاتے ہیں آگے سے ٹیچرز بھی مہا شانے ہیں کہ وہ ادھر کے بچے اُدھر پورے کر کے چھاپہ ٹیم کو مطمئن کر لیتے ہیں
جناب یہ حال میرے سرگودھا میں ہے جہاں ن لیگ کی سو پرسنٹ حکومت میں پانچ فیصد کام نا ہو سکا اگر اب بھی سرگودھا کی عوام سرگودھا کا کسان نا جاگا تو یقیناً اگلے پانچ سال جہنم کا نظارہ دیں گے اگر میری لسٹ میں سرگودھا کے لوگ ہیں وہ میری باتوں کو پروف کے ساتھ جھٹلا سکتے ہیں تو میں ویلکم کرتی ہوں کہ یہاں جو بولا گیا وہ جھوٹ ہے اور اگر سچ ہے تو اچ کا ساتھ دیجیے میں پوسٹ پبلک کرتی ہوں شئیر کیجیے تا کہ مکالمہ ہو سکے پتا چلے کہ ہم نے انکو ووٹ دے کر کیا کھویا کیا پایا کیا یہ نمائیندے اب اس سال ہماری بیٹھکوں ہمارے ڈارئینگ رومز میں آ کے ہمارے سے ووٹ مانگنے کے حقدار ہیں اور جو جو جہاں ہے اپنے شہر کے نمائیندگان کے کام منصوبے لکھے تا کہ ہتا چلے کہ کونسا لیڈر اس قابل ہے کہ اگلی دفعہ ووٹ دیا جا سکے اللہ حامی و ناصر احباب
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔