لیہ، ڈیرہ غازی خان، ملتان اور لائلپور (جعلی نام فیصل آباد) کے طوفانی دورے کا اختتام، جس میں ڈیڑھ دو ہزار کلومیٹر کی ڈرائیو تھی، انٹرنیشنل سفر ہو، یا داخلی۔۔ جہاں بے شمار ہم خیال دوستوں کی محبتیں نصیب ہوتی ہیں، وہاں۔۔ مختلف خطوں، لوگوں کے ثقافتی، سماجی مزاج کے علاوہ وہاں ترقی و پس ماندگی کے کیا مسائل ہیں، ان کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔۔
ابتدا" منزل صرف لیہ کا شہر تھا۔۔ یہ اسلام آباد سے تقریبا چھ، سات سو کلومیٹر دور ہے، سرائیکی ریجن ہے۔ ہم سنٹرل پنجاب کے لوگوں کے لئے بہت ہی دور دراز کا علاقہ۔۔ نواز شریف کے وژن کو دعائیں دیں، جس نے ملک بھر میں موٹرویز کا جال بچھا دیا ہے اور یوں ملک کے طول و عرض کے سفر کو ترقی یافتہ دنیا کے ہم پلہ بنا دیا ہے۔ ورنہ ان پیسوں سے ہمارے جنرل ابھی تک کچھ اور ایٹم بم، آبدوزیں، مزائل، ٹینکوں توپوں کا زخیرہ اور بڑا لیتے۔۔ انہیں نواز شریف سے تکلیف بھی اسی بات کی ہے۔
لیہ شہر کی چند خصوصیات جنہیں پہلے سنا، پھر جا کردیکھا ہے۔ لیہ شہرکی طرف ہم جس لمبی سڑک سے گزرکرپہنچے، وہ خستہ حال تھی، لیکن لیہ شہر کی انٹری بڑی ڈیشنگ قسم کی ہے۔ داخل ہوتے ہی دل خوش ہو جاتا ہے۔۔ اس سارے علاقے کو تھل (ریگستان) کا علاقہ کہتے ہیں، لیہ شہر ریت کے ٹیلوں پر ہی آباد کیا ہوا ہے۔ جابجا ریتلی مٹی پاوں کو چھوتی نظرآتی ہے۔ اس شہر کے بارے بتایا گیا یہاں پرائیویٹ حکومتی تعلیمی اداروں کا جال بچھا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہاں 90٪ خواندگی پائی جاتی ہے۔۔ جس لمبے خراب راستے سے ہم گزرکرپہنچے تھے، بتایا گیا، کہ یہ علاقے جنوبی پنجاب کے معروف بڑے سیاسی خانوادوں کے کنٹرول میں ہیں۔ لیکن علاقے کو پس ماندہ رکھنا ظاہر ہے ان زمیندار اور قبائلی سرداروں کے مفاد میں تھا۔
حیرانی کی بات ہے لیہ روائتی طور پر ترقی پسند اور جمہوریت پسند رحجان رکھتا ہے۔ یہاں ابھی تک پی پی کی پرانی ترقی پسند سیاست سے وابستہ لوگ موجود ہیں۔ کوئی بھی سن کر یہ حیران ہوسکتا ہے کہ جنرل ایوب کے انتخابات میں پورے مغربی پاکستان میں کراچی کے بعد صرف لیہ سے فاطمہ جناح الیکشن جیتی تھی۔ اس شہر پر ایک پرانے مارکسی دانشور ڈاکٹر خیال امروہی کا بڑا اثر رہا ہے۔ میں نے ڈاکٹر خیال امروہی کی کتابیں اپنی کمیونسٹ جوانی میں پڑھی تھی۔ سمجھ نہیں آتی تھی، کہ لیہ جیسے سرائیکی/پنجابی علاقے میں یہ 'امروہی' کہاں سے آگیا۔۔۔ ابھی ان کے بارے زیادہ معلومات ملی، یہ بھی جون ایلیا خاندان سے ہی تھے، ہجرتوں کے زمانے میں لیہ میں جا بسے، انہوں نے لیہ کو اور لیہ نے ان کو اپنا لیا۔ بھٹو کے زمانے میں 5 مرلہ کا پلاٹ ملا ریت کے ٹیلوں پر۔۔ اسی میں دو کمروں کا گھر بنا کر سائکل پرزندگی گزار دی، لیکن لیہ والوں سے بہت محبت اور احترام پایا۔
لیہ میں ابھی تک ادیب، شاعر، سیاسی ورکر، حالات حاضرہ پر گبیں مارنے والے۔۔۔ کھوکھا نما چائے خانوں میں ہر شام بیٹھتے ہیں۔ علمی فکری موضوعات کے ساتھ حالات حاضرہ پر تبصرہ۔ یہ اپنے حلئے سے بظاہر عام سے لوگ لگتے ہیں۔ لیکن ان میں کافی زیادہ پڑھے لکھے لوگ (اساتذہ، وکلا، سیاسی خاندانوں سے وابستہ) شریک ہوتے ہیں۔ میری اس طرح کے دو بڑے گروپوں شرکت ہوئی، جن میں کوئی بیس تیس لوگ شریک ہوئے۔ جن کے ساتھ علمی فکری تبادلہ خیال ہوا۔ کافی لوگ مجھے اور میری کتابوں سے واقف تھے۔ سبھی بڑی محبت سے پیش آئے۔ جی سی فیصل آباد یونیورسٹی کا لیہ میں ایک کیمپس ہے، جو کافی خوبصورت بنا ہوا ہے۔ ان کے ہاں بھی شعر و ادب ، لیہ کے ممتاز شہریوں اور صحافیوں سے متعلقہ فورم میں تعارف اور بات چیت کا موقع ملا۔ لیہ کے شاعروں کی اردو، سرائکی میں شاعری سنی۔
لیہ میں دیکھا کہ جو لوگ تعلیم یافتہ اور پروفیشنل ہیں۔ وہ زراعت سے بھی وابستہ ہیں۔ ان کا رہن سہن بھی ویسا ہی ہے۔ یعنی یہاں ابھی 'خالص اربن کلاس' نہیں بنی۔۔ حلئے، لباس اور رہن سہن سے امیر/ غریب اور ان پڑھ اور تعلیم یافتہ کا پتا نہیں چلتا، یعنی ماڈرن تمدن نے ابھی وہاں پاوں نہیں رکھے۔۔ لوگ خلوص اورمحبت والے ہیں۔ دوستوں نے اپنے حویلی نما گھر، گاوں دہہات دکھائے، کھیت اور پھلوں کے باغات دیکھے۔
ایک بات طے ہے۔۔ جدید سیکولر، لبرل، ترقی پسند خیالات دور دراز کے علاقوں میں پہنچ کراپنا اثر دکھا رہےہیں۔ ایک تنگ اورہجوم والے بازار جہاں خواتین کے سامان اور کپڑوں کی دکانیں ہوتی ہیں۔ وہاں زنانہ کپڑوں کے دو تین دکاندار میری کتابوں کو
برسوں پہلے پڑھ چکے ہوں، اور کیا چاہئے۔۔
“