میرا پسندیدہ ترین فلاسفر سپائی نوزا
سپائی نوزا 1632 میں پیدا ہوا۔ اس کا باپ کامیاب تاجرتھا، لیکن بیٹے کوباپ کے کاروبارسے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ وہ تو بس جاننا چاہتا تھا۔۔ مذہب کیا ہے، فلسفہ وفکرکیا ہیں۔چنانچہ اس نے انجیل اورتلمود کو کھنگال ڈالا۔ سپائی نوزا نے لاطینی زبان ایک استاد سے سیکھنی شروع کی، اس کی ایک حسین وجمیل لڑکی تھی۔ سپائی نوزا کے لئے مشکل ہوگیا، لاطینی زبان پرتوجہ دے یا اپنے استاد کی حسین لڑکی پر۔۔اس لڑکی کو فلسفہ وفکرکا دلدادہ نہیں چاہئے تھا۔ چنانچہ وہ کسی مالدارکے پاس چلی گئی۔ لاطینی سیکھنے کے بعد سپائی نوزا نے سقراط، افلاطون اورارسطو اوربرونو کی تالیف پڑھ ڈالی۔ آخرمیں سب سے زیادہ اس پراثرڈیکارٹ کا ہوا۔ 1656 میں اس پرپہلا تکفیری فتوی لگا۔ اس کوایک اچھے معاوٖٖضہ کی نوکری کی یہ کہہ کرپیش کش کی، کہ وہ مذہب سے باغیانہ خیالات کی ترویج کرنا چھوڑدے۔ اسے سپائی نوزا نے مسترد کردیا۔ چنانچہ یہودی مذہبی علمائے دین کی عدالت نے اسے مرتد قراردینے کی شرعی رسم ادا کی۔ اسے ملعون قراردے کراسرائیلی قوم کے سوشل مقاطعہ کی سزا دے دی۔اس کے ساتھ نہ کوئی بات کرسکتا تھا، کہ کوئی مراسلت، نہ کوئی خدمت لے سکتا تھا، نہ دے سکتا تھا۔ سپائی نوزا نے اپنی تکفیرمردانہ وارقبول کی۔ اب نوجوان سپائی نوزا کوپتا چلا، کہ معاشرے میں بالکل تنہا اوربے یارومددگار ہوگیا۔ والد نے گھرسے نکال دیا۔ ہمشیرہ نے یہ سوچ کربھائی سے منہ موڑلیا، کہ اب باپ کا ترکہ صرف اسے ملے گا۔ تنہائی کے خوفناک عفریت نے اس کو جکڑلیا۔ بات یہاں تک نہ ٹھہری، ایک مذہبی جوشیلے اپنی غیرت دینی کا ثبوت دینے کے لئے سپائی نوزا پرخنجرسے حملہ کردیا۔ جس وقت وہ بازارسے گزررہا تھا۔ اب وہ امسٹرڈم شہرسے باہرایک کمرے کے اندربندہوکررہا گیا۔ اپنا نام بھی مسیحی رکھ لیا اس نے وہاں عینک کے شیشوں کوپالش کرنے کا کام سیکھا، تاکہ زندہ رہنے کے لئے کچھ کما سکے۔ اس نے انتہائی سادہ زندگی گزارنی شروع کردی، آج بھی اس شاہراہ نام اسی فلسفی کے نام پرہے۔ خیالات عالیہ اس کے زہن رسا میں آتے رہے۔ لکھنے پڑھنے اورسوچنے کے کام میں مصروف رہا۔ علم کی طلب اورجستجواسے مصروف رکھتی تھی۔ اس کےایک دوست کو سپائی نوزا کا ہم خیال ہونے پر10 سال کی جیل ہوئی تھی۔ اوروہ 18 ماہ کے بعد ہی جیل میں مرگیا۔ یہ افواہ بھی پھیلائی گئی کہ سپائی نوزا ایک کتاب چھپوا رہا ہے، جس میں کہا گیا ہے، خدا کوکوئی وجود نہیں۔ ایک رائٹرنے لکھا، کہ سپائی نوزا ناپاک ترین ملحد ہے۔ لیکن اس کی پزیرائی کرنے والے بھی رفتہ رفتہ سامنے آنے شروع ہوگے۔ امسٹرڈم کے ایک امیرسوداگرنے اس کوایک ہزارڈالرعطیہ بھیجا۔ سپائی نوزا نے جسے لینے سے انکارکردیا۔ جس اس تاجرنے سپائی نوزا کواپنی مال ومتاع کے وارث ہونے کا ڈیکلئر کردیا۔ گواس کی زیادہ ترعمرگوشہ نشینی اورافلاس میں گزری۔ لیکن معاصراس کا اس قدراحترام کرتے تھے، کہ اسے تدریس کی دعوت دی گئی۔ اس نے اسے بھی شکرییے کے ساتھ لینے سے یہ کہہ کرانکارکردیا، کہ پتا نہیں تدریس کے دوران مجھ پرپھر توہین دین کا کب الزام لگا دیا جائے اورمیری آزادی کوقدغن لگا دیا جائے۔ مجھے سکون اورخامشی کی زندگی پسند ہے۔ 1677 میں صرف 44 سال کی عمرمیں اس کی کتاب زیست کا باب ختم ہوگیا۔ اسے دق کی بیماری ورثے میں ملی تھی۔ مفلسی نے جس کی تکیلف کودوچند کردیا۔ شیشوں کے پالش والے کام کی وجہ سے وہ گرد وغبارمیں کام کرتا رہا۔ اس کے پھیپڑے خراب سے خراب ترہوتے گے۔ اپنی قبل از وقت موت کے حوالے سے وہ راضی برضا تھا۔ بس اسے یہ خوف تھا، کہ مرنے کے بعد اس کی لکھی کتابیں کہیں ضائع نہ ہوجائیں۔ اس نے اپنے مسودے ایک بکس میں بند کرکے اس کی چابی اپنے میزبان (جس کےگھررہتا تھا) کے حوالے کی، کہ میرے مرنے کے بعد اس کو فلاں بندے تک پہنچا دینا۔ اتوارکا دن تھا۔ جن کے پاس رہتا تھا۔ وہ لوگ گرجے گے ہوئے تھے۔ ڈاکٹرمیئر (دوست) اس کے پاس تھا۔ جب گھروالے واپس آئے، ہمارا یہ فلسفی اپنے دوست کی گودمیں جان دے چکا تھا۔ بہت سے لوگوں نے اس کا سوگ منایا۔ لوگ اس فلسفی سے پیارکرتے تھے۔ کہ وہ نہائت شریف اورحلیم طبع انسان تھا۔ اس کے قبرکنارے مختلف عقیدہ لوگ جمع تھے، جن میں عدالتوں کا حاکم اورکئی معاصرفلسفی موجود تھے۔ (داستان فلسفہ۔۔ول ڈیورنٹ)
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“