میری پیدائش تو پشاور کی ہے، لیکن آبا و اجداد کا تعلق ضلع کرک سے ہے۔ ہمارے گاؤں کرک میں تقسیم سے قبل بہت سارے ہندو آباد تھے۔ آج بھی میرے دادا انہیں بڑے شوق سے یاد کرتے ہیں، جن کے ساتھ میرے دادا کا بچپن گزرا ہے۔ دادا جی فوج میں تھے 48 ء اور 65 ء کی لڑائی لڑ چکے ہیں۔ 65 ء کی جنگ کے بارے میں دادا جی بتاتے ہیں، جب جنگ میں کوئی ہندو فوجی پکڑا جاتا تھا، تو میں فوراً انھیں دیکھنے پہنچ جاتا تھا کہ شاید ان میں سے کوئی میرے بچپن کا دوست نکل آئے۔
پوری جنگ میں دادا جی، اس ایک حسرت میں قیدیوں سے ملتے رہے۔ سوچتا ہوں کہ ہمارے بڑوں نے کتنا اچھا دور گزارا ہے، اور آج یہ ہم کس دور میں آ گئے، جہاں ہم سے ایک مندر کا وجود تک برداشت نہیں ہو سکا۔ اور بالآخر آج اس تاریخی مندر کو بھی ڈھا دیا گیا جو کہ کرک میں مذہبی رواداری کی آخری نشانی تھی۔ یہ سب ایک دن میں نہیں ہوا۔ اس کے پیچھے کئی سال کی محنت ہے۔ حالاں کہ ایسا کچھ پہلے نہیں تھا۔ میں نے اپنے گاؤں کرک کے لوگوں کو بڑا لبرل پایا ہے۔
آج بھی گاؤں میں پردہ اتنا عام نہیں، جتنا کہ باقی پٹھانوں کے علاقوں میں ہوتا ہے۔ میں آج بھی جب گاؤں جاتا ہوں، تو رشتے دار خواتین، اس عمر میں بھی مجھے گال پر چوم لیتی ہیں۔ گاؤں میں رشتہ دار ہوں یا پھر پڑوسی، کسی بھی گھر جانا ہوا، بجائے وہاں گھر کی لڑکیاں پردہ کرنے کے، یا کمرے میں جانے کے بجائے، آگے بڑھ کر مصافحہ کر کے ہم کلام ہوئیں۔ پردے کے نام پر خواتین نے، زیادہ سے زیادہ دوپٹہ لیا ہوگا۔ کرک کی خواتین کھیتوں میں مردوں کے شانہ بشانہ کام کرتیں ہیں۔ یہاں عمر میں بڑی عورت کے سامنے مرد باقاعدہ سر جھکایا جاتا ہے اور وہ سر پر ہاتھ رکھ کر دعائیہ انداز میں کہتی ہے (سترے ماشے) یعنی کبھی نہ تھکو۔ میں نے مرد ہوتے ہوئے عورت کے سامنے سر جھکانا اسی کرک دھرتی سے سیکھا ہے۔
یہاں کے لوگ بہت مہمان نواز ہیں۔ اہل علاقہ پاس پڑوس میں کسی بھی گھر جا کر کھانا کھا سکتے ہیں۔ ایک دوسرے کے گھر کو بالکل اپنے گھر جیسا مانتے ہیں۔ اگر کسی کو کھانے میں کچھ پسند نہیں، تو پڑوس میں جا کر پوچھیں گے، ”کیا بنا ہے“ ۔ ایسا شان دار اور اپنائیت والا ماحول، میں نے کہیں اور نہیں دیکھا۔ گاؤں کے 97 % مرد پڑھے لکھے ہیں، اس طرح 90 % فی صد لڑکیوں نے میٹرک کیا ہو گا۔ گاؤں میں تعلیمی ادارے کم ہیں، بہرحال جتنے ہیں وہاں دور دراز اس پاس کے دیہات سے طلبا، پیدل یا سواری کا انتطام کر کے پہنچتے ہیں۔
جن کی مالی حالت اچھی ہو، تو وہ اپنے بچوں کو نزدیکی شہر بنوں، کوہاٹ یا پھر دور دراز شہروں پشاور، راولپنڈی/ اسلام آباد بھیج دیتے ہیں۔ کچھ والدین تو بچوں کی پڑھائی کی خاطر خود بھی بچوں کے ساتھ دوسرے شہر منتقل ہو جاتے ہیں۔ چوں کہ کرک میں خٹک قوم آباد ہے، اسی لیے آج پاکستان بھر میں خاص کر خیبر پختون خوا میں اپ کو ہر ادارے میں خٹک قوم کے افراد، اہم عہدوں پر مل جائیں گے۔ خٹک قوم میں یہ خوبی ہے کہ یہ ایک دوسرے کے بہت کام آتے ہیں۔ اگر گاؤں سے باہر کہیں بھی، خٹک قوم سے، کوئی دوسرے خٹک سے ملا، بھلے وہ گاؤں میں کسی کے کام نہ آتا ہو، مگر باہر وہ ضرور اپنائیت سے ملے گا۔
میں جب اسلام آباد میں سول ڈیفنس سے پڑھ رہا تھا ایک دن کسی کام سے مجھے سول ڈیفنس کے ڈائریکٹر حنیف خٹک صاحب سے ملنے جانا ہوا۔ کام ہونے پر میں نے ان کا شکریہ ادا کیا، تو انھوں نے کہا، کوئی بات نہیں، ہم بھی جب نوجوان تھے تو کسی بھی ڈیپارٹ منٹ کا رخ کرتے ہوئے پوچھتے کہ خٹک صاحب کا دفتر کدھر ہے۔ بتایا جاتا کہ اس طرف۔ جب وہاں پہنچتے تو تعارف پوچھا جاتا۔ ہم کہتے نہ آپ کو جانتے ہیں، نا آپ مجھے جانتے ہیں، لیکن میں بھی خٹک ہوں، اور آپ بھی خٹک ہیں۔ اب جب میرے علاقے کا خٹک یہاں موجود ہے، تو پھر اور کسی شناسائی کی ضرورت نہیں۔ میں کہتا، کہ یہ میرا کام ہے اور وہ کام ہو بھی جاتا۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہر ادارے میں کوئی نہ کوئی خٹک، اس لیے نکل آتا ہے کہ وہ با قاعدہ تعلیم سے محبت کی بدولت اس مقام تک پہنچ چکا ہوتا ہے۔ کرک کو خدا نے معدنیات سے نوازا ہے۔ تیل، یورینیم، گیس جیسی قیمتی معدنیات یہاں سے نکل رہی ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ آج بھی برائے نام چند دیہاتوں تک گیس فراہم کی گئی ہے۔ باقی کرک کو محروم کر کے گیس لائن، پنجاب تک پہنچ چکی ہے۔ یہاں بھی بلوچستان جیسا معاملہ ہے۔
بہرحال کرک کے عوام خوش حال ہیں، اس لیے کبھی مزاحمت یا احتجاج نہیں کر سکے۔ پورے کرک میں پانی کی بہت کمی ہے۔ کوئی مرد گھر کی عورت کو کنویں یا پمپ سے پانی لانے کے لئے، گھر سے باہر جانے کے لئے منع نہیں کرتا۔ ہاں! کسی کو بہت غیرتی بننا ہو، تو وہ گیلن ہاتھ گاڑی رکھ کر لے آتا ہے۔ جب کہ خواتین سر پر گھڑا رکھ کر لاتیں ہیں۔ بجلی تو پورے چوبیس گھنٹے میں فقط دو گھنٹے کے لئے آتی ہے۔ ایک بار میں گھر سے ناراض ہو کر گاؤں گیا تھا، بجلی ہوتی نہیں تھی۔ میرا موبائل اف رہتا تھا۔ وہ نہایت بوریت کا دور تھا، جسے میں کتابوں کے سہارے کاٹتا رہا۔
یہ تو ہو گئیں کچھ خوبیاں اور کچھ مسائل۔ اب آتے ہیں بیماری کی اصل جڑ کی طرف۔ کرک کے لوگ گزشتہ چار نسلوں سے فوج میں ہیں۔ میرے ابو کے نانا، جنگ عظیم اول کے دوران میں، برٹش فوج میں صوبیدار میجر تھے۔ انھیں آرڈر آف برٹش گولڈ میڈل سے نوازا گیا۔ میرے دادا خود فوج میں رہے ہیں۔ میرے ابو، فضائیہ میں رہے۔ چچا اور کزن سب ریاستی اداروں میں ہیں۔ ایک میں ہی اس طرف نہیں گیا ورنہ اج میں بھی فوج سے پالیسیوں پر اختلاف کے بجائے باقاعدہ فوج کے خلاف لکھنے والوں کو لتاڑتا رہتا۔ بہرحال مشرف دور حکومت میں ملک میں بے امنی کے عروج پر بھی شر پسند عناصر کرک میں ایک ٹھکانا تک بنانے میں نا کام رہے۔ اس نا کامی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہوئی کہ یہاں ہر گھر کے کسی نا کسی فرد کا ریاستی اداروں میں ہونا ہے۔ وزیرستان، کرک کے بارڈر پر ہے، لیکن کرک اپنے پنجابی پڑوسی میانوالی کی طرح محفوظ رہا، جب کہ اس کے پاس بنوں، وزیرستان، لکی مروت اور کوہاٹ تک بے امنی کے نشانے پر رہے ہیں۔ کرک کی تاریخ میں فقط ایک خود کش دھماکا ہوا، وہ بھی ناکے پر روکے جانے پر، ورنہ اس کا ہدف کرک سے باہر کا تھا۔
ان تمام تر خوبیوں کے باوجود، ایسا بھی نہیں کہ کرک اندر سے محفوظ رہا، مگر باہر کی گڑ بڑ میں کرک کا حصہ نہ رہا ہو۔ دھیرے دھیرے کرک اندر سے کم زور ہوتا جا رہا تھا۔ ریاستی اداروں کی طرف سے کشمیر جہاد کی کھلی جھوٹ تھی۔ اس لیے گاؤں سے شرکت کے خواہوں کو، گاؤں کے کسی ریاستی اہل کار کہ طرف سے مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں بچپن میں جب گاؤں جاتا تھا، تو دیوار پر ”البدر مجاہدین“ کی وال چاکنگ نظر آتی، جس پر کشمیر جہاد کے لئے نعرے درج ہوتے۔ جیسا کہ ”جہاد میری امت کی فقیری ہے“ ۔ ”جہاد تا قیامت جاری رہے گا“ ۔ ”کشمیر ہماری شہ رگ ہے“ ۔ وغیرہ۔
آج بھی پہلے کے لکھے یہ نعرے کہیں نہ کہیں نظر آ جاتے ہیں۔ بہرحال جنرل مشرف کے ابتدائی دور میں گاؤں میں دینی مدارس میں کچھ ایسے عناصر جگہ بنانے میں کام یاب ہو گئے، جو گاؤں کو قدامت پرستی میں دھکیلنے کے مشن پر تھے۔ یہ عناصر مقامی نہیں تھے۔ ان میں سے ایک مفتی صاحب، جو مجھے یاد پڑتے ہیں، وہ بھی باہر سے آئے تھے۔ انھوں نے ایف ایم ریڈیو بھی شروع کیا تھا۔ وہ کرک میں، ہمارے گاؤں نری پنوس اور ڈگر نری کے آس پاس علاقوں پر اپنے بیانات سے غلبہ پانے لگے۔ انھیں شہرت ملنے لگی تو انھوں نے گاؤں میں پردہ عام کرنے کی کوشش کی، جس کے نتیجے میں، جلد ہی گاؤں میں برقعہ نظر آنے لگا۔ اسکول کی لڑکیاں برقعہ اوڑھنے لگیں۔ شادی بیاہ پر مہندی اور ناچ گانے جیسے رسومات میں کمی آنے لگی۔ قبروں کو نہایت سادہ بنایا جانے لگا۔ عورت اگر مر گئی تو قبر پر کتبہ تو دور کتبے پر عورت کا نام تک برداشت نہیں ہوتا۔ خود جب میں نانی کی قبر پکی کراتے وقت، کتبہ لگانے لگا تو ایک رشتے دار آئے کہ کتبہ نہ لگاتے، اس میں نام درج ہے۔ یہاں عورت کا نام قبر پر درج کرنے کا رواج نہیں۔ میں نے اسے شٹ اپ کال کے طور پر کہا کہ میری نانی ممتاز بیگم مرنے کے بعد دوسری عورتوں کی طرح بے نام نہیں رہے گی۔
مشرف کے اختتامی دور کے قریب یہ پیش رفت جاری تھی۔ ان عناصر نے مسلح ہو کر کرک میں داخلے کی کوشش کی۔ اس دوران میں جہاد کے نام پر ایک خفیہ نیٹ ورک سر گرم ہو گیا، جو کرک سے لڑکوں کو ورغلا کر وزیرستان لے جا کر، وہاں سے افغانستان پہنچا دیتے تھے۔ میرے ایک رشتہ دار کو بھی اس نیٹ ورک نے ورغلایا۔ اس کے گھر والوں نے راتوں رات اس کا پیچھا کرتے ہوئے ان سے چھڑایا۔ اسے آگے لے جانے والے گاؤں ہی سے بھرتی کیے لوگ تھے۔
ان دنوں میں گاؤں میں تھا۔ ایک رات فوج کا مسلح قافلہ آیا اور آپریشن کرتے ہوئے، مختلف گھروں سے، اس نیٹ ورک کے لوگوں کو پکڑ کر لے گئے۔ یہ کارروائی گاؤں کے اندر، ریاستی اداروں میں کام کرنے والوں کی وجہ سے ممکن ہوئی، جنھوں نے گاؤں کو ان لوگوں کے چنگل سے آزاد کرایا۔ اس کے بعد گاؤں کے لوگوں نے کچھ سکھ کا سانس لیا۔ لیکن اس دوران میں گاؤں کو بد نام کرنے کے لئے ایک پرانی کوشش جاری تھی اور وہ کوشش مندر کو توڑنے کی تھی۔ گاؤں میں جو گند آیا تھا، وہ تو نکل کر جا چکا تھا یا اٹھا لیا گیا تھا، مگر اس گند نے آگے جن لوگوں کو متاثر کیا، وہ برابر اپنا کام کرتے رہے۔ گاہے بگاہے مسجد مدرسوں میں مندر کے خلاف بولتے رہے۔ پہلے اس مندر کا پس منظر جان لیتے ہیں۔ کرک میں ٹیری ایک بڑا گاؤں ہے جو کہ ایک وقت میں باقاعدہ الگ ریاست تھی۔ نواب اف ٹیری کو گوگل پر سرچ کر لیں، آپ کو ان کے متعلق بہت کچھ مل جائے گا۔ ٹیری میں واقع یہ مندر، پاکستان میں ہندووں کے سب سے بڑے گرو مہا راج پریم ہنس کا مندر ہے۔ پاکستان بننے سے پہلے ٹیری میں مہا راج کا 46 کنال پر مشتمل بہت بڑا مندر، آشرم تھا اور وہ ٹیری ہی میں فوت ہوئے۔ تقسیم ہند کے بعد، جب ہندو یہاں سے چلے گئے، تو یہاں مقامی لوگ مندر کے احاطے پر قابض ہو گئے۔ پھر 1997 ء میں ایک مقامی مفتی نے مشتعل ہجوم کی قیادت میں بچے کچھے مندر اور گرو کی سمادھی کو توڑ دیا، جہاں ان کی راکھ دفن تھی۔ تب سوشل میڈیا نہیں تھا، سو کوئی یہ خبر نہیں جان سکا۔ بہرحال چند سال پہلے، سندھ کے ہندو ایم این اے رمیش نے سپریم کورٹ جا کر دوبارہ رقبے کی حوالگی اور مندر کی تعمیر کا کیس دائر کیا۔ اس کیس کا فیصلہ، ان کے حق میں آ گیا۔ اس کے بعد مندر اور سمادھی کی دوبارہ تعمیر کی گئی۔ گو کہ ٹیری میں ایک ہندو بھی آباد نہیں، مگر اس مندر کے بننے کے بعد، پاکستان ہندو کونسل نے کہا تھا کہ پورے پاکستان، سندھ اور انڈیا تک سے یہاں ہندوؤں کی آمد و رفت شروع ہو جائے گی۔ لیکن ایسا نہیں ہوسکا۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے، جن دنوں اس مندر کا افتتاح ہوا، ان دنوں میں گاؤں میں تھا۔ مساجد میں مولویوں کے رد عمل کی وجہ سے، ہر چہرہ اضطراب کا شکار تھا۔ خود میرے پڑھے لکھے رشتے دار، مندر کے کھلنے پر حیران اور اداس نظر آئے۔ تب میں نے انھیں کہا کہ پہلے گھر سے (ہندو) ڈش انٹینا پھینک دیں، جس پر ہر وقت انڈین فلمیں چلتی ہیں۔ اس وقت ہمارے گاؤں نری پنوس سے تعلق رکھنے والے بائیس گریڈ کے ایک ریٹائر افسر بھی، فیس بک پر مندر کھلنے کے خلاف بول رہے تھے (یہ حالت ہے ہمارے یہاں اعلا عہدوں پر پہنچنے والوں کی) ۔ چوں کہ انھوں نے آئندہ الیکشن لڑنا تھا، اس لیے ان کا یہ رویہ سمجھ میں بھی آیا۔ ویسے تو پورا کرک صد فی صد سنی آبادی پر مشتمل ہے، لیکن ٹیری کی بات اور ہے۔ وہاں قادیانی بھی رہتے ہیں اور تاریخی پرانے مندر کی وجہ سے، ان کی اہمیت اور زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ ٹیری کئی سالوں سے کرک کے انتہا پسند طبقے کے نشانے پر تھا، لیکن انھیں کوئی قیادت میسر نہیں تھی اور اکیلے یا ٹولے کی شکل میں مندر کو توڑنا کسی کے بس کی بات نہیں تھی۔
ہندو عبادت کے لئے سیکورٹی کے ساتھ کبھی کبھی آ جاتے۔ مندر میں عبادت کر کے واپس چلے جاتے۔ لیکن مندر کے چھوٹا ہونے کی وجہ سے مندر انتظامیہ نے مقامی شخص سے زمین کی خریداری کی بات کی۔ اس کی خبر بم کی طرح انتہا پسند طبقے پر آ گری۔ جس کے بعد مندر کا قصہ تمام کرنے کے لئے میٹنگیں شروع ہوئیں۔ اس سے کرک انتظامیہ اور پولیس پوری طرح با خبر تھی۔ کرک میں زیادہ تر مدرسوں پر جمعیت علمائے اسلام کا کنٹرول ہے۔ سو انتہا پسند طبقے کو لیڈ کرنے کے لئے ایک مضبوط چھت بھی مل گئی، جس کے بعد مندر توڑنے کی تحریک کو جمیعت علمائے اسلام کرک لیڈ کرنے لگی۔
کچھ عرصہ پہلے مولانا فضل الرحمان نے اسلام آباد میں مندر کی تعمیر کے حوالے سے اپنا موقف کچھ یوں بیان کیا تھا: ”پاکستان کسی اسلامی جنگ کے نتیجے میں مفتوحہ ریاست کی حیثیت سے قائم نہیں ہوا، بلکہ یہ پہلے سے موجود اس خطے میں ایک معاہدے کے تحت وجود میں آیا، جہاں اقلیتیں اور مسلم آبادی پہلے سے سکونت پذیر تھیں۔ چناں چہ پاکستان میں اقلیتوں کو برابر کے حقوق حاصل ہیں اور اس حوالے سے انھیں ان کے مذہبی رسومات کی بھی آزادی حاصل ہے“ ۔
ایک طرف مفتی تقی عثمانی اسلام آباد مندر کے خلاف بیان دے رہے تھے کہ سرکاری خرچ پر مندر نہ بنایا جائے، جب کہ کرتار پور گوردوارہ سرکاری خرچ پر تعمیر ہوا، مگر طاقت ور ادارے کی وجہ سے مفتی تقی عثمانی مکمل خاموش رہے (ان کا زور کم زوروں پر چلتا ہے ) ۔ دوسری طرف مولانا فضل الرحمان نے یہ جرات مندانہ موقف اپنایا، جس کے لئے وہ تعریف کے مستحق ہیں، مگر مولانا صاحب کرک سے بے خبر رہے، کہ وہاں ان کی پارٹی کے پرچم تلے مندر کو ڈھانے کا منصوبہ تیار ہو چکا ہے۔ بالآخر کئی برسوں کی محنت کے بعد، آج 30 دسمبر 2020 ء کو کرک کے انتہا پسندوں کی محنت رنگ لائی۔
پہلے جمیعت علماء اسلام کی قیادت کے زیر انتظام ایک جلسہ ہوا۔ جس میں مولانا سمیع الحق پارٹی کرک کے رہنما اور کارکن بھی شامل تھے۔ اس میں دونوں پارٹیوں کی طرف سے شرکاء کو اشتعال دلایا گیا۔ گو کہ پہلے سے طے شدہ تھا کہ مندر توڑنے جانا ہے، تو ہر حال میں جانا ہے۔ جب شرکا کو جوش آیا، تو ہر ایک نے کدال اٹھا کر مندر کا رخ کیا۔ مندر کو دن دیہاڑے توڑ کر نذر آتش کرنے کے بعد، مندر کی چھت پر جمیعت کا پرچم لہرایا گیا، اور نیچے شرکاء، ”الجہاد الجہاد“ کے نعروں سے جواب دیتے رہے۔ میرے گاؤں کرک کی نیک نامی کا سفر یہیں تمام ہوا۔۔۔
میں نے اپنے گاؤں کو بڑا لبرل پایا تھا اور میں اکثر سوچا کرتا تھا کہ میں کسی دن اپنے گاؤں کو یہ کریڈیٹ ضرور دوں گا کہ کچھ روشن خیالی کی چیزیں مجھ میں گاؤں سے منتقل ہوئیں ہیں، لیکن مجھے یہ اندازہ نہ تھا کہ میں اپنے گاؤں کی تعریف، اس سیاہ دن کروں گا۔ میرے خوب صورت گاؤں، میں تمھاری نیک نامی ہمیشہ محسوس کروں گا، مگر اس کا تعلق میرے ماضی سے رہے گا۔ اے آج کے کرک میں تجھ پر پر شرم سار ہوں۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...