ایک زمانہ تھا جب لوگ کہتے تھے کہ پاکستان میں دو طرح کا ووٹر ہے، ایک وہ جو بھٹو کو ووٹ دیتا ہے، دوسرا وہ جو بھٹو کو ووٹ نہیں دیتا اور اس مفروضے پر ملکی سیاست تیس برس چلی۔ وقت گزرا تو معلوم پڑا ہمارے ملک میں دو طرح کے لوگ ہیں، ایک وہ جو ایسٹیبلشمنٹ کے ہر طرح سے حامی ہیں اور دوسرے وہ جو اسکے سیاسی چہرے کے مخالف ہیں لیکن پچھلے کچھ دنوں میں پاکستانیوں کی ایک مزید تفریق سامنے آئی ہے، ایک وہ جو عورتوں کے حقوق کیلئے آواز اٹھاتے ہیں اور دوسرے وہ جو آواز اٹھانے والوں کو گالیاں دیتے ہیں۔ پہلی دونوں مثالیں ملکی سیاسی مزاج کی عکاس ہیں جبکہ حالیہ تضاد ہماری اجتماعی اخلاقیات کی دراڑ سے نکلا ہے۔
'میرا جسم میری مرضی' کا نعرہ کچھ برس پہلے عورتوں کے عالمی دن کے موقع پر ایک پلے کارڈ سے مستعار ہے جسے پچھلے دنوں ایک ٹاک شو میں دوہرانے پر ایک خاتون بلاگر کو ایک نام نہاد ادیب سے گندی گالیاں پڑیں۔ یہ وہی ادیب صاحب ہیں جنہوں نے کچھ سال پہلے اپنے دورِ جوانی کی محبت پر ایک ڈرامہ بنایا تھا جو لوگوں کی نظر میں انکے عشق کی داستان جبکہ اصل میں یکطرفہ محبت اور رشتہ مانگنے پر پیش آنے والی ذلت کا جواب تھا۔ شناختی کارڈ پر موصوف کے کاغذی والد اور والدہ جب 'رخسانہ' کے گھر رشتہ مانگنے گئے تو اسکے والد ٹھیکیدار امین نے برملا پوچھ لیا تھا کہ 'رشتہ داری تو اگلی بات ہے، پہلے یہ تو بتاو کہ یہ لڑکا عبدالرحمٰن میں سے ہے یا صادق میں سے؟' اور رشتہ دینے سے انکار کر دیا۔
واقعہ کچھ یوں ہے کہ عنائیت بی بی صادق کی بیوی تھی جس میں سے اسکے تین بیٹے اور ایک بیٹی تاج پیدا ہوئے۔ اس دوران صادق کا بھتیجا عبدالرحمٰن اپنی چاچی کو بھگا لے گیا جس میں سے ایک بچہ پیدا ہوا۔ ٹھیکیدار امین سمیت کوئی قریبی رشتہ دار نہ عنائیتی لاہور والی اور عبدالرحمٰن کے نکاح میں بیٹھا نہ ہی انھیں 'کھِیلے' کی اصل ولدیت بارے علم تھا اور یہی وہ بے عزتی تھی جسکا بدلہ لینے کیلئے اس نے وہ ڈرامہ بنایا جس میں لوگوں کے نام سے لیکر گاوں کے نام تک ہر شئے سچی تھی، بس جس معاشقے پر ساری کہانی کھڑی کی گئی اسکا اصل کہانی میں کہیں کوئی وجود نہیں تھا۔
اب ایسا شخص جو اپنی ماں بارے طعنے سن سن کر جوان ہوا ہو اگر اسکے ڈرامے میں "عورت دو ٹکے کی" نظر آئے یا پھر خود نیشنل ٹی وی پر بیٹھ کر وہ کسی عورت کے جسم پر تھُوکنے کی بات کرے یا اسے کُتیا، حرامزادی کہے اور اوپر سے لوگ حیران ہوں یا شور مچائیں تو یہ بیچارے کیساتھ سخت زیادتی ہوگی۔ میرے خیال میں پوری قوم کو اسے Get Well Soon کے کارڈز بھیجنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ بیچارا ذہن کی سطح پر شدید بیمار ہے۔ گالیاں کھا کر خاتون بلاگر نے بھی کوئی لگی لپٹی نہیں رکھی اور آج پوری دنیا میں ادیب صاحب کو جو گالیاں پڑ رہی ہیں اس میں وہ بھی کُھلے دل حصہ ڈال رہی ہیں۔
افسوس کہ اس سارے قضیئے میں اصل مدعا یعنی عورت مارچ متنازعہ ہو گیا۔ ایک تو وہ سارے عوامل جو 2020 میں بھی عورت کو پیروں کی جوتی سمجھتے ہیں.
ادیب موصوف کے پچھواڑے خیمہ زن ہو گئے ہیں دوسرا موجودہ حکومت جو پچھلے ڈیڑھ برس میں اپنی ایک سے بڑھ کر ایک نالائقیوں کیوجہ سے سخت ترین تنقید کا شکار تھی، وہ بھی کھُل کر ادیب موصوف کی حمائیت میں نکل آئی ہے کہ کسی طرح ہی سہی لوگوں کی گالیوں سے انکا نام تو ہٹے۔ اس مدعے میں ہزاروں عورتوں، خواجہ سراوں یہاں تک کہ گھروں میں کام کرنے والے لاکھوں مزدوروں تک کیلئے یونین کا حق مانگنے کیلئے کیا جارہا ہے۔
سب کیلئے باوقار روزگار کے مواقع، مناسب اجرت، کمزور اصناف کیخلاف ہراسیت کا خاتمہ، لیبر قوانین کا اطلاق، کام کرنے والی عورتوں کے بچوں کی مناسب نگہداشت کیلئے سرکاری ڈے کیئر سینٹرز کا قیام، زچہ کیلئے تنخواہ کیساتھ چھ ماہ کی جبکہ اسکے شوھر کیلئے تین ماہ کی چھٹی، غیر مساوی وراثت کا خاتمہ، کچی آبادیوں کی ریگولرائزیشن، فوسل فیول کے بے دریغ استعمال کی روک تھام، قابلِ تجدید ذرائع توانائی کیطرف منتقلی، پبلک ٹرانسپورٹ کی بہتری اور جنگلات کی بحالی تک اسکے ایجنڈے میں شامل ہیں۔
یہ مارچ جہاں گھریلو تشدد کیخلاف ہے وہیں یہ شہری حقوق اور قانونِ شہادت کی کمیوں، جیون ساتھی چُننے کی آزادی، عورتوں کی فوجداری نفاذ کے اداروں میں %33 نمائیندگی، تھانے کچہری میں عورتوں کیلئے الگ ڈیسک اور جنسی و گھریلو تشدد کا شکار افراد کیلئے مراکز قائم کرنے کیلئے بھی کوشاں ہے۔ انکی نظر بچوں کیساتھ بدسلوکی سے لیکر جنسی بداعمالیوں کیخلاف کڑی سے کڑی قانون سازی پر ہے اور یہ تھانوں میں خواجہ سراوں کیساتھ بدسلوکی اور تنازعات کی صورت میں تحفظ و تصفیہ مراکز کے قیام کیلئے بھی سرگرم ہیں۔
میرا جسم میری مرضی سے طبعاً گندے گندے مطلب نکالنے والے کیا یہ جانتے ہیں کہ مارچ کے مقاصد میں میرے آپکے بچے کیلئے معیاری تعلیم بھی عورت مارچ کا ایجنڈہ ہے۔ یہی نہیں بلکہ یہ تو ملکی پیداوار کا %6 تعلیمی بجٹ کیلئے مختص کرنے کیلئے آواز اٹھا رہا ہے۔ انکا مطالبہ ہے کہ طلباء یونینز بحال کی جائیں اور عورتوں کی بھرپور نمائندگی کو یقینی بنایا جائے۔
یہی نہیں تعلیمی اداروں سے فوج سمیت تمام قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کے انخلاء کا پہلی بار مطالبہ اسی عورت مارچ نے کیا ہے۔ اب اگر وہ یہ کہیں کہ زنانہ ہوسٹلوں سے اوقاتِ کار کا امتیازی مارشل لاء اٹھایا جائے یا ہھر انہیں اظہارِ رائے یا سیاسی وابستگی، اجتماع و احتجاج کے آئینی حقوق دیئے جائیں تو کیا یہ غلط ہے؟ اگر عورت مارچ کا مطالبہ ہے کہ عورتوں کو منتخب ایوانوں میں %33 نشستیں دی جائیں یا پھر سیاسی جماعتوں کی فیصلہ ساز کمیٹیوں میں عورتوں یہاں تک کہ خواجہ سراوں کی یکساں نمائیندگی مانگتا ہے تو اس میں غلط کیا ہے؟
8 مارچ کو یہ خواتین جبری گمشدگی کیخلاف آواز اٹھانے جا رہی ہیں تو یہ کتنا بڑا جرم ہے جو ساری سرکاری مشینری اس مارچ کو متنازع بنانے پر تُل گئی ہے۔ اللہ جانے کس نے انہیں بتایا ہے کہ جسم کیساتھ مرضی لکھنے کا مطلب ننگا پھرنا یا پھر جنسی بے راہ روی ہوتا ہے۔ دراصل یہ ساری ہائپ عوام کی توجہ حکومتی کارکردگی سے ہٹانے کیلئے کیلئے کھڑی کی گئی ہے اور پہلی بار خان صاحب اس کام میں سو فیصد کامیاب ہوئے ہیں اور ایسا کامیاب کہ ن لیگ کا بیانیہ حکومتی بیانیئے سے باہم شیر و شکر دیکھا جا سکتا ہے۔
ماسوائے بلاول بھٹو زرداری کے کوئی قابلِ ذکر لیڈر عورت مارچ کی حمائیت میں منہ کھولنے پر تیار نہیں یہاں تک کہ پشتون تحفظ موومنٹ جو درحقیقت انسانی حقوق اور جبری گمشدگی پر عورت مارچ والوں سے کہیں پہلے سے کام کر رہی ہے، نے شکر ادا کیا ہے کہ ماروی سرمد نے تنقید کا منہ علی وزیر کی متنازعہ تقریر سے عورت مارچ کیطرف پھیر دیا ہے۔
اب یہاں یہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم ایک صحتمند معاشرہ ہیں؟ کیا ہماری اولاد اس معاشرت میں محفوظ ہے جہاں شوھر تو صرف اس لیئے اپنی بیوی کا بچہ گرانے ہسپتال لیجا سکتا ہے کہ دو مہینے بعد اسکے بھائی کی شادی ہے جسکے واسطے بغیر تنخواہ کے ملازمہ کا فُل ٹائم ایکٹیو ہونا ضروری ہے لیکن عورت اپنی صحت طبیعت کو درپیش مسائل کیوجہ سے اسقاطِ حمل مراکز بارے بات بھی نہیں کر سکتی ورنہ کوئی خلیل الرحمٰن قمر برسرِ عام اسکے جسم پر تھُوک دے گا۔