یار لوگ کہتے ہیں کہ یہ نعرہ غلط ہے ۔ کیوں بھئی کیسے ؟ کیا یہ جسم مرد کا ہو یا عورت کا کیا وُہ اپنے ہی جسم پر بھی اپنی مرضی نہیں لاگو کرسکتی یا کرسکتا تو کیا آپ اُس کے جسم پر اپنی مرضی لاگو کریں گے ؟ اِسلام کی بات کرلیں یا کِسی اور سزا جزا کا ایمان رکھنے والے مذہب کی بات کرلیں سب نے یہی کہا ہے کہ انسان اپنی مرضی میں آزاد ہے غلط کرے یا صحیح اُس کا جواب اُس نے ہی دینا ہے آپ نے نہیں دینا ورنہ بعض پیغمبروں سے اُن کی اولاد اور بیویوں کا سوال کیا جاتا کہ آپ کی اولاد اور بیوی کیوں گُمراہوں میں ہیں ؟ اُنھوں نے اُن کو ہدایت کی اور سیدھی راہ دِکھا دی آگے اُن کی مرضی ۔ اللہ پاک نے آپ کو دونوں راستے دِکھا دیے ہیں باقی آپ اپنے افعال میں آزاد ہیں ۔
یہ تو ہوگیا ایک عُمومی بیانیہ اب آپ یہ بتائیں کہ “ میرا جسم میری مرضی “ میں کوئی عورت کہاں یہ کہہ رہی ہے کہ اُس کو وہاں سیکس کرنا ہے جہاں اُس کا دِل چاہے ؟ ہمارا معاشرہ کیوں اِس بات کو محض سیکس تک محدود کرنا چاہ رہا ہے ؟ شادی شُدہ عورت ہو یا مرد دُنیا کے کِسی بھی معاشرے میں شادی شُدہ ہونے کے بعد کہیں اور سیکس تعلقات کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا پسندیدگی تو بڑی دُور کی بات ہے ۔ اِس موضوع یا نعرے کو ایک خاص سوچ تک پابند رکھنا اور اِس کو ایک ہی رنگ کی عینک سے دیکھنا بذاتِ خُود ایک بیمار سوچ ہے ۔
سوشل میڈیا پر اور معاشرے میں ایک عُمومی افسوسناک سوچ یہ ہے کہ شادی کے بعد مرد جب چاہے عورت سے سیکس کرسکتا ہے ۔ پہلے کئی بار عرض کی ہے کہ آپ محض مُہذب دُنیا کے یا پاکستانی قوانین سے ہی نہیں بلکہ مذہبی احکامات سے بھی نابلد ہیں جہاں عورت کو اِس بات پر بالکل پابند نہیں کِیا گیا کہ وُہ شادی کے بعد کوئی جنسی غُلام ہے کہ اُس کا آقا یعنی شوہر جب چاہے اُس کو اُس کی مرضی ہو یا نہ ہو اُس سے جنسی فعل کر گُزرے ۔ ارے بابا اِس کو میریٹل ریپ کہتے ہیں ۔ یہاں آتا ہے یہ نعرہ میرا جسم میری مرضی ۔ بات بڑی تلخ ہے لیکن کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ شادی یا نکاح کے نام پر آپ کو سیکس کرنے کا لائسینس مِل گیا ہے ؟ نہیں جناب نہیں ۔ آپ کا معاشرہ اِس نکاح کی صُورت میں آپ کی شادی ، سیکس اور اِس کے نتیجے میں ممکنہ طور پر ہونے والے بچوں کو قبولیت دیتا ہے ۔ اِس بات کو سمجھیں حُضور ۔ خُدا کا نام ہے آنکھیں کھولیں ۔ کیا آپ یہ چاہیں گے کہ آپ کی بہن یا بیٹی کی شادی کے بعد اُس کا شوہر یعنی آپ کا بہنوئی یا داماد اُس کو ایک جنسی غُلام کے طور پر ٹریٹ کرے ؟ میں تو یہ نہیں چاہوں گا آپ کا معلوم نہیں لیکن اگر آپ یہ نہیں چاہتے تو خُود نہ سہی اپنی بیویوں اور ماؤں کے ذریعے اپنی بیٹیوں اور بہنوں کو اپنے حقوق سے آگاہ کریں ۔
کل والا واقعہ سمجھیں ؛ میں اُس عورت ( نام نہیں لکھوں گا کہ اس میں فیس بُک رُولز کی خِلاف ورزی آتی ہے ) کو ذاتی طور پر شدید ناپسند کرتا ہُوں کیونکہ وُہ ایک انتہائی حد تک بدتمیز اور اپنے ہی موقف کو نُقصان پُہنچانے والی شخصیت ہے لیکن یہاں بات میری پسندیدگی یا ناپسندیدگی کی نہیں ہے بلکہ اُصول کی ہے ۔ اُس کے بدتمیز ہونے کا یہ مطلب ہرگِز نہیں کہ میں ، آپ یا کوئی بھی سو کالڈ مشہور شخصیت اُس سے بازاری زبان میں بات کرے ، گالیاں دے یا اُس کو بھدا کہے ۔ سرکار یہ بوڈی شیمنگ body shaming ہے جو نہایت ناپسندیدہ اور بعض حالات میں derogatory and offensive ہے لیکن آپ میں سے بعض نہیں سمجھیں گے کیونکہ آپ کا ماحول ، تعلیم یا شعور آپ کو یہ باور کروانے میں ناکام رہا ہے ۔
کہاں کی بات کرتے ہو صاحب کہ میں نے اپنے معاشرے میں سگی ماؤں کو سالن میں سے اچھی بوٹیاں الگ کر کے بیٹوں کے لئے رکھتے دیکھا ہے اور بیٹیوں کو شوربے سے روٹی کھاتے دیکھا ہے ، میں نے بیٹوں کو اچھے سُکول جاتے دیکھا ہے اور بیٹیوں کو اپنے ہی بھائیوں سے کم تر سُکولز میں جاتے دیکھا ہے ۔ میں نے دیکھا کہ میرے اپنے نانا جان مرحوم نے اپنی زِندگی میں میرے دو ماموؤں کو اپنے زرعی مربے جِن کی مالیت کم از کم ستر کروڑ ہوگی اُن کے نام پر لگایا اور میری ماں سمیت دو خالاؤں کو ایک انچ جگہ نہ دی ۔ میں نے یہ بھی دیکھا کہ میری نانی جان مرحوم مرتے مرتے اپنے حِصے کے چند ایکڑ اور بینک میں موجود آخری کوڑی بھی اپنے بیٹوں یعنی میرے ماموؤں میں تقسیم کر گئیں اور بیٹیوں کو دھیلا تک نہ دِیا ۔
میں نے دیکھا کہ معاشرے میں اِسلام کی باتیں تو سب کرتے ہیں لیکن جب اپنی ہی بیٹی یا بہن پسند سے شادی کرنا چاہے تو وُہ ماری جاتی ہے ، کاری کی جاتی ہے اور میں نے یہ بھی دیکھا کہ جدّی پُشتی جائداد بہنوں کو یا بیٹیوں کو نہ دینی پڑ جائے تو اُن کی قُرآنِ کریم سے شادی ( اللہ پاک معاف کرے ) ہوتے دیکھی ہے ۔ بات کرتے ہیں مذہب کی ۔
کہتے ہیں اِسلام سے پہلے عرب بیٹیوں کو گاڑ دیتے تھے ( اِس پر بُہت لکھا ہے کہ یہ محض ایک پاپولر بیانیہ ہے لیکن ابھی اِس بحث کو جانے دیں ) اور پھر میں نے یہ بھی دیکھا کہ حمل میں بیٹی ہے جان کر ابارشن کروائے جاتے ہیں ، کیا یہ بیٹیوں کو دفنانا نہیں ہے ؟
میں نے دیکھا کہ گول روٹی نہ بنانے پر بیٹی کو جان سے مار دیا گیا تو کہیں ہانڈی میں نمک کم یا زیادہ ہونے کی بِنا پر بیوی جان سے گئی ، میں نے دیکھا کہ جِس بھائی کے دس دس لڑکیوں سے تعلقات تھے اُس نے اپنی بہن کو شک کی بُنیاد پر جان سے مار دِیا ، میں نے دیکھا کہ بھائی کِسی لڑکی سے مُنہ کالا کر کے آیا تو اُس کا بدلہ اُس کی بے گُناہ اور بدنصیب بہن نے چُکایا تو کہیں دوستی سے انکار پر اُس کا چہرہ تیزاب سے جلا دِیا گیا ۔۔۔۔
میں نے تو بُہت کُچھ دیکھا لیکن سوال یہ ہے کہ آپ نے کیا دیکھا ؟ کیا آپ صُمٗٗ بُکمٗٗ ہیں ، گُونگے ، بہرے یا اندھے ہیں جو آپ کو نظر نہیں آتا یا آپ معتصب ہیں ؟ کون ہیں آپ جو اگر ، مگر اور لیکن جیسے لایعنی اور مُبہم الفاظ کے ساتھ دیکھیں جی بات یہ ہے دیکھیں جی بات وُہ ہے کرتے ہیں ؟ ارے جاؤ یار اپنا موقف تو سیدھے الفاظ میں کہہ دو کیا معاشرے اور مذہب کا ڈھونگ رچائے بیٹھے ہو ؟
لوگ فیمینسٹ ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن سچ بتاؤں تو میں فیمینسٹ نہیں ہُوں ، ابھی مُجھے اپنے بُہت سارے تعصبات دُور کرنے ہیں ، کُچھ دُور کر لئے ہیں تو کُچھ باقی ہیں ۔ کہیں کوئی کہتا ہے ارے یہ فیمینسٹ لڑکیوں کو یا عورتوں کو متاثر کرنا چاہتے ہیں تو اِس لئے ایسا لکھتے ہیں ، ہوگا کہیں ایسا بھی لیکن ناچیز نے اپنی زِندگی میں اِتنی لڑکیاں دیکھ رکھی ہیں ( آگے آپ سمجھدار ہیں ) کہ آپ تصور بھی نہیں کرسکتے ، ہر رنگ اور ہر نسل کی ، تو یہ رُول اِدھر لاگو نہ کیجئیے گا ۔ آگے چلتے ہیں ۔
میں وُہ نہیں جو آپ کی واہ واہ کے لئے لکھوں گا ، میں کوئی نامور یا مشہور بندہ بھی نہیں جو اپنے آپ کو پارسا بنا کر پیش کرے گا ، مُجھے پرواہ نہیں کہ آپ کون ہیں ، کیا ہیں لیکن مُجھے میرے لکھے پر آ کر تبلیغ کریں گے تو میں آپ کو اگلا موقع نہیں دُوں گا ۔ آپ مُجھ سے زیادہ اِسلام نہیں جانتے کہ میرے پردادا نے راجپوت ہندو سے اِسلام قبول کِیا تھا اور میرے دادا نے اِسلامی تعلیم سیکھنے کی خاطر اپنے آبائی علاقے سری نگر سے موجودہ پاکستان میں اُنّیس سو بارہ میں ہجرت کی اور اپنے والد صاحب کی وصیت کے عین مُطابق دوبارہ کبھی اپنے نام کے ساتھ راجپُوت لگانا پسند نہ کِیا کہ اِس سے اُن کو اپنی پُرانی زِندگی یاد نہ آئے ۔ یہیں ایک مذہبی اعوان گھرانے میں شادی کی اور کبھی دوبارہ واپس نہیں گئے ۔ آپ مذہب کو مُجھ سے زیادہ نہیں جانتے کہ آپ کا کلچر آپ کے مذہب سے بڑا ہے اور یہ بات آپ مُنہ سے بھلے نہ تسلیم کریں لیکن آپ کے افعال یہی باور کراتے ہیں ۔
پڑوسی مُلک میں ایک مذہب کی ظالمانہ رسم سَتی کو انگریزوں نے جب حُکماً ختم کِیا تو وُہ بھی یہی دُہائی دیتے تھے کہ یہ ہمارا مذہبی حق ہے ۔ کیا وُہ دُرست سوچتے تھے ؟ آپ کا جواب ہوگا نہیں وُہ غلط تھے تو حُضور آپ اُوپر لِکھے گئے معاملات میں کہاں سے ٹھیک ہوگئے ؟ خُدارا مذہب کو اپنی مَن چاہی تاویلات اور تشریحات سے خراب نہ کریں ۔ مذاہب میں بُہت سارے احکامات بسا حالات میں سمجھ نہیں آتے تو کہیں موجودہ دُنیا میں اُن کو دوبارہ سمجھنے کی ضرورت ہے ، اِسی لئے مذہب میں اجتہاد کا راستہ رکھا گیا تھا جِس کو کمال ڈھٹائی سے ہم نے تقریباً بند کر رکھا ہے ۔ آخر کیوں ؟
بات مکمل نہیں ہُوئی نہ ہوسکتی ہے لیکن سمیٹتے ہُوئے ہاتھ جوڑ کر یہی عرض ہے اور یہی گُزارش ہے کہ آپ کی سوچ اور آپ کا معاشرہ ایک مردانہ مائینڈ سیٹ کا ہے جہاں عورت کو برابری تو دُور کی بات ہے آپ اُن کو اُن کا جائز حق بھی نہیں دینا چاہتے البتہ باتیں آپ بُہت آئیڈیل کرتے ہیں ۔ جہاں تک رہی بات آزادی اظہارِ رائے کی تو سرکار سادہ ترین الفاظ میں آپ کی آزادی اظہارِ رائے وہاں تک ہے جہاں تک آپ کی ناک ہے یا با الفاظ دیگر جہاں سے آپ نے میری ذات پر یا میں نے آپ کی ذات پر بات شُروع کردی اور ہم عُمومی بات سے ذات پر آگئے تو یہ پرسنل ہوگیا ۔ اِس پر بھی کبھی بات کرتے ہیں ابھی کے لئے اجازت دیں اور ایک بار پھر عرض ہے کہ بُرائی کو روکنا اور نیکی کا حُکم دینا ، طاقت ہو تو بُرائی کو ہاتھ سے روکنا یا زبان سے بُرا کہنے کا زمانہ لَد گیا اب یہ ریاست کا کام ہے کِسی شخص کا نہیں ؛ آپ چلیں دِل میں بُرا کہہ لیں کہ اِس کی بھی اہمیت ہے باقی آپ کوئی خُدائی خدمتگار نہیں ہیں نہ کوئی قانُون آپ کو اِس کی اجازت دیتا ہے ۔ یہ سمجھ لیں کہ اچھائی یا بُرائی کا موضوع بُہت وسیع ہے اور آپ کے پاس اِس کو طے کرنے کی ڈومین نہیں ہے ۔
سلامت رہیں ۔