میرا انتخاب
اکثر مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ والدین اپنے بچوں کو ڈانٹ ڈپٹ کرتے ہیں۔ آپ یہ سوچ رہے ہوں گے کہ میں والدین سے کہوں گا کہ وہ اپنے بچوں کو بالکل نہ ڈانٹا کریں مگر میں ایسا نہیں کہوں گا۔ میں صرف یہ کہوں گا کہ اپنے بچوں کو ڈانٹنے سے قبل امریکی صحافت کا ایک شاہکار Father forgets ’’ باپ بھول جاتا ہے۔‘‘ ضرور پڑھیں ہم اسے یہاں اس کے مصنف کی اجازت سے دوبارہ چھاپ رہے ہیں۔
’’ باپ بھول جاتا ہے۔‘‘ ایک ایسا افسانہ ہے جو ہر پڑھنے والے کے دل میں اتر جاتا ہے۔ اس میں بیان کئے گئے خلوص بھرے جذبات بڑے پر اثر ہیں۔ یہ شاہکار دنیا کی مختلف زبانوں میں ترجمہ کر کے چھاپا گیا۔
’’ باپ بھول جاتا ہے‘‘( ڈبلیو لیونگ سٹون)
پیارے بیٹے سنو۔ میں یہ تمہیں اس وقت کہہ رہا ہوں جب تم میٹھی نیند کا مزہ لے رہے ہو۔ تمہارا ایک ہاتھ تمہارے گال کے نیچے ہے اور تمہارے خوبصورت بال تمہارے ماتھے پر چپکے ہوئے ہیں۔ میں چوری چھپے تمہارے کمرے میں آیا ہوں صرف چند منٹ پہلے جب میں لائبریری میں بیٹھا اپنے کاغذات دیکھ رہا تھا تو اچانک ندامت کی ایک لہر میرے وجود کے اندر دوڑ گئی اورمیں خطا ورانہ انداز میں تمہارے بستر کے پاس آیا ہوں۔
میرے پیارے بیٹے میں سوچ رہا تھا کہ میرے اور تمہارے درمیان کچھ ایسی باتیں ہو گئی ہیں جو کہ نہیں ہونی چاہئے تھیں۔ جب تم سکول جاتے وقت نہانے کے بجائے تولیہ گیلا کر کے محض اپنے چہرے کو صاف کرتے تھے۔ تو میں تمہیں ڈانٹا کرتا تھا۔ پھر جب تم جوتوں کو پالش کیے بغیر سکول جانے لگتا تو بھی میں نے تمہیں ڈانٹا۔ پھر جب تم سکول سے واپسی پر اپنا بیگ لاپرواہی سے کمرے کے فرش پر پھینک دیتے تو میں تمہیں غصے ہوتا۔
جب تم ناشتہ کرنے کے لیے میز پر بیٹھتے تو بھی میں تمہاری غلطیاں نکالتا۔ مثلاً تم چیزوں کو بے ترتیبی سے استعمال کر رہے ہو۔ تم کھانا چبا کر کھانے کے بجائے جلدی جلدی ہڑپ کر رہے ہو۔ ناشتے کے دوران تم نے اپنی کہنیاں میز پر رکھی ہوئی ہیں۔ تم نے اپنے توس پر بہت زیادہ مکھن لگا لیا ہے اور پھر تم جب کھیلنے کے لئے جاتے وقت مجھے ’’ خدا حافظ ڈیڈی‘‘ کہتے ہو اور میں تمہیں ’’گڈلک ‘‘ کہنے کے بجائے غصے سے تمہیں کہتا ہوں کہ اپنے کندھے مت اچکاؤ۔
تب دوپہر ہوتی ہے تو میں سڑک پر آتا ہوں اور تمہاری جاسوسی کرتا ہوں میں دیکھتا ہوں کہ تم زمین پر بیٹھے گولیاں کھیل رہے ہو۔ تمہاری جرابیں پھٹی ہوئی ہیں۔ میں تمہارے دوستوں کے سامنے تمہیں سخت برا بھلا کہتا ہوں اور اپنے آگے آگے گھر چلنے کو کہتا ہوں۔ جرابیں بڑی مہنگی ہوتی ہیں۔ اگر انہیں تم اپنے جیب خرچ میں سے خریدو تو تمہیں احساس ہو گا اور پھرتم جرابیں استعمال کرنے میں احتیاط سے کام لو گے۔ پیارے بیٹے ایک باپ کی حیثیت سے ذرا سوچو کہ اگر تم میری جگہ ہوتے تو کیا کرتے؟
تمہیں یاد ہے کہ جب میں لائبریری میں بیٹھا مطالعہ کر رہا تھا تو تم بہت ڈرے ڈرے وہاں آئے تو تمہاری آنکھوں پر بڑی شرمندگی تھی اور جب میں نے تمہارے قدموں کی آہٹ سن کر تمہاری طرف غصے کے انداز میں دیکھا اور پوچھا کہ کیا کرنے آئے ہو تو تم کمرے کی دہلیز پر ہی رک گئے تم نے فوراً کہا کہ کچھ نہیں۔ فوراً ایک جست لگا کر میرے قریب آئے اور میرے پیچھے کھڑے ہو کر میری گردن میں اپنی بانہیں ڈال دیں اور مجھے پیار کیا اور تمہارے چھوٹے چھوٹے بازوؤں نے جب محبت کے ساتھ مجھے جکڑ لیا۔ اس محبت کے ساتھ جو خدا نے تمہارے ننھے سے دل میں پیدا کر رکھی ہے اور جو کبھی ختم نہیں ہو سکتی پھر اچانک تم تیزی سے واپس چلے گئے اور تمہاری سیڑھیاں چڑھنے کی ٹپ ٹپ سنائی دی۔
بیٹے تمہارے جانے کے تھوڑی ہی دیر بعد میرے کاغذات جن کا میں مطالعہ کر رہا تھا۔ میرے ہاتھ سے گر گئے اور ایک شدید قسم کا خوف مجھ پر طاری ہو گیا۔ یہ مجھے کیا ہوتا جا رہا ہے؟ میری عادتیں کیوں بدلتی جا رہی ہیں۔ مثلاً دوسروں میں عیب نکالنا، ڈانٹ ڈپٹ کرنا وغیرہ۔ میں اپنے آپ سے سوال کرنے لگا بیٹے ایسا نہیں کہ مجھے تم سے محبت نہیں ہے بلکہ اس لیے کہ میں تم سے بہت زیادہ توقعات رکھے ہوئے ہوں۔ میں ہمیشہ تمہیں اس زاویے سے دیکھتا ہوں کہ میں تمہاری عمر میں کیا تھا۔
تمہاری شخصیت اور کردار میں بہت ہی عمدہ باتیں ہیں۔ تمہارے جسم کے اندر دھڑکتا ہوا دل اتنا وسیع ہے جتنا کہ پہاڑوں پر پھیلتا ہوا صبح کا اجالا۔ اس کا اندازہ مجھے اس وقت ہوا جب تم آئے اور مجھے پیار کر کے چلے گئے۔ میرے بیٹے میں آج رات تمہارے کمرے میں آیا ہوں تو تمہارے بستر کے پاس گھٹنے ٹیک کر شرمندگی کے عالم میں بیٹھا ہوں۔
میرے بیٹے مجھے معلوم ہے کہ اگر تم سوئے ہوئے نہ ہوتے اور میں تمہیں یہ سب باتیں کہتا تو اس کا تم پر زیادہ اثر نہ ہوتا او رتم میری باتوں کو اچھی طرح سمجھ نہیں سکتے۔ لیکن اب میں ایک ا چھا ڈیڈی ہوں۔ صبح جب تم نیند سے بیدار ہو گے تو تم اپنے باپ کو ایک نئے روپ میں دیکھو گے۔ جو تمہارا دوست ہو گا جو تمہاری ہر مشکل میں تمہارے ساتھ ہو گا جو تمہاری کسی غلطی پر تم سے خفا نہیں ہو گا کیونکہ تم میرے بیٹے ہو اور تم خواہ کتنے ہی بڑے کیوں نہ ہو جاؤ میرے لیے تم چھوٹے ہی ہو۔ اتنے چھوٹے کہ جیسے میں تمہیں بچپن میں اپنی گود میں کھلایا کرتا تھا۔ مجھے افسوس ہے کہ میں اب تک تمہیں ایک بڑے شخص کی طرح سمجھتا رہا لیکن اپنے بستر پر لیٹے ہوئے تم مجھے ایک ننھے منے ایک پیارے سے بیٹے مگر مجھے لگا کہ جیسے تم ابھی بھی ایک چھوٹے سے بچے ہو۔
زیادہ پیار کے ساتھ
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“