بہت چھٹپن کی بات ہے ، شاید سن باسٹھ یا تریسٹھ کی۔
بروک بانڈ والوں نے اپنی چائے کو مقبول بنانے کا یہ طریقہ نکالا کہ چائے کے ہر ڈبے میں ایک کھلاڑی کی پاسپورٹ سائز تصویر شامل کرتے جس کی پشت پر اس کھلاڑی کی کارکردگی اور دیگر تفصیل ہوتی۔
وطن کو آزاد ہوئے بہت زیادہ سال نہیں ہوئے تھے لیکن لوگوں کا ذوق وشوق آج سے کہیں زیادہ بہتر تھا۔ آج مردو زن، جوان ہو یا بوڑھا، سوائے سیاست کے کسی کے پاس کوئی بات ہی نہیں کرنے کے لئے۔
ان دنوں ہم نہ صرف کھیل کود، شعرو ادب، فلم ، ڈرامے، مصوری ، مطالعہ ،شکار، سیر وتفریح ، غرض ہر طرح کے شوق رکھتے تھے۔ ہماری مجلسی گفتگو بھی انہی جیسے موضوعات پر ہوتی اور آج کی طرح ہیجان اور تناؤ والا ماحول نہیں تھا۔
بروک بانڈ والوں کا یہ طریقہ کامیاب تھا۔ چائے کے ان پیکٹوں میں ہر کھیل ، یہاں تک کہ پہلوانوں کی بھی تصویریں ہوتی تھیں۔ ساتھ ہی یہ پیشکش تھی کی جو ساری تصویریں جمع کرے گا اسے ایک البم انعام میں دیا جائے گا۔
چائے کا پیکٹ کھلتے ہی میں اپنی ماں یا دادی سے وہ تصویر لے لیتا۔ میرے پاس ساری تو نہیں لیکن بہت سی تصویریں جمع ہوگئی تھیں۔ ان تصویروں میں کرکٹ کے کھلاڑیوں کی تصویریں زیادہ تھیں کہ ان دنوں کرکٹ کا زیادہ شہرہ تھا۔
کنجی آنکھوں والے ایک خوبرو کھلاڑی جس کی پیشانی پر چمکدار سیاہ بالوں کی ایک لٹ اسے شہزادوں کا روپ دیتی تھی، تصویر کی پشت پر اس کے نام کے ساتھ پہلا جملہ یہ تھا
” اوول کے ہیرو”
جی ہاں یہ تھے۔ فضل محمود۔۔اوول کے ہیرو۔
اور ان دنوں ہمیں تصویریں بھی بہت کم دیکھنے ملتی تھیں۔ اخبارات میں کسی خاص موقع کے علاوہ فلمی اشتہارات کی تصویریں، یا پھر چائے خانوں یا ہوٹلوں پر لگے سنیما کے پوسٹر یا فلمی رسالے، یہی ہماری کل کائنات تھے۔
البتہ حجاموں اور قصائیوں کو اپنی دکانیں ان تصویروں سے سجانے کا شوق تھا۔ باربر شاپ میں فلمی ستاروں اور گوشت والوں کے ہاں پہلوانوں کی تصویریں ہوتیں۔
حجام کی دکان میں ایک فریم میں بالوں کے مختلف انداز کی تصویریں ہوتیں جو وہ گاہک کو دکھا کر پوچھتے ” ساب کون سا کٹ چلے گا؟ ، کروکٹ، موسیٰ کٹ یا ہیرو کٹ؟”
اور جو ہیرو کٹ والی تصویر ہوتی اس میں وہی بالوں کی ایک لہریاتی لٹ پیشانی پر ہوتی۔ اب لفظ ہیرو کے ساتھ جو تصور آنکھوں میں آتا وہ ” اوول کے ہیرو۔۔فضل محمود کے سوا کسی اور کا نہ ہوتا۔
اور یونانی دیوتاؤں سے زیادہ جاذب نظر یہ ہیرو صرف صورت شکل اور وجاہت کے سبب ہی ہیرو نہ تھا بلکہ کرکٹ کے میدان کا اصلی ہیرو، جس نے اپنی جانبازی، جفاکشی اور سخت کوشی سے پاکستان کرکٹ کو جب اس کے دودھ کے دانت بھی نہیں نکلے تھے، دنیا کی ایک بڑی کرکٹ کی طاقت بنا دیا۔
یہ فضل، حنیف، امتیاز، خان محمد ، نذر محمد، محمود حسین اور ان سب کے کپتان ، عبدالحفیظ کار دار کا وہ پرعزم لشکر تھا جس نے اپنے پہلے ہی میچ یا پہلی ہی سیریز میں دنیا کی ہر چھوٹی بڑی ٹیم کو پچھاڑا۔ ایک ایسا اعزاز دنیا کی کسی اور ٹیم کو اب تک نہیں حاصل ۔ اور اس میں سب سے نمایاں کردار اس ہیرو نما نوجوان فضل محمود کا تھا۔
میں نے اس ہیرو کو کبھی کھیلتے نہیں دیکھا لیکن ہوش سنبھالا تو کرکٹ میں دو نام تواتر سے سنائی دیتے۔ حنیف اور فضل۔ حنیف محمد کو تو میں نے سن انہتر تک کھیلتے دیکھا بلکہ کئی بار تو بہت قریب سے بھی دیکھا لیکن فضل نے بہت پہلے یعنی سن باسٹھ میں کرکٹ چھوڑ دی تھی کیونکہ وہ بہت پہلے سے کھیلتے چلے آرہے تھے۔
کرشماتی شخصیت والے فضل محمود، جن کے سامنے اس زمانے کے بڑے بڑے خوبرو فلمی ہیرو بھی احساس کمتری کا شکار ہوجاتے اور اپنے وقت کی حسینائیں جس پر دل وجاں لٹانے کو بے قرار رہتیں اور ہمارا یہ ہیرو ان سب سے بے پروا کرکٹ کے میدان میں اپنی فتوحات کے جھنڈے گاڑتا چلا جاتا۔
چھ فٹ دو انچ قد والے اس ہیرو نے جب اپنا پہلا فرسٹ کلاس میچ کھیلا تو اس کی عمر بمشکل سترہ سال تھی۔ ان دنوں ہندو، مسلم، پارسی اور گورو ں کے درمیان پینٹینگولر ٹورنامنٹ کھیلا جاتا جو تمام قوموں میں بڑا مقبول تھا۔ کھیل سے مذہبی عنصر ختم کرنے کے لئے ان ٹیموں کو نارتھ، ساؤتھ، ایسٹ اور ویسٹ زون کے نام دے دئے گئے اور فضل نے اپنا پہلا میچ ناردرن انڈیا کی جانب سے کھیلا اور اپنے پہلے میچ میں اپنی پہلی وکٹ لالہ امرناتھ کی لی۔ اور دوسرے ہی میچ میں آٹھ وکٹیں لے ڈالیں۔
لیکن یہاں تک پہنچنے سے پہلے اس کے والد نے جو اسلامیہ کالج کے معاشیات کے پروفیسر اور کرکٹ ٹیم کے صدر تھے، اسے سخت تربیت کی کٹھالیوں سے گذارا۔ روز صبح ساڑھے چار بجے پانچ میل پیدل چلنا اور پانچ میل دوڑنا۔ اور یہ عمل سات سال جاری رہا۔
اور باپ کی یہی تربیت تھی کہ فضل میدان میں ان تھک محنت کرتا۔ اس کا اسٹیمنا دنیا کو حیران کردیتا۔ ویسٹ انڈیز میں اس نے ایک میچ میں تنہا ۸۳ اوورز کرائے اور یاد رہے کہ وہ اسپنر نہیں، فاسٹ بالر تھا۔
پاکستان بننے سے پہلے وہ انگلستان جانے والی ہندوستانی ٹیم کے لئے منتخب ہوگیا لیکن اس دوران ملک تقسیم ہوگیا اور فضل نے جو ایک راسخ العقیدہ مسلمان تھے، پاکستان کے لئے کھیلنے کا فیصلہ کیا۔ ویسے بھی ان کی نال لاہور ہی میں گڑی ہوئی تھی۔ یہیں اسکول سے کالج اور پھر فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلی۔
لاہور جہاں پنجاب یونیورسٹی کے کالجز کے مقابلوں گورنمنٹ کالج اور اسلامیہ کالج ہمیشہ فائنل میں ٹکراتے اور یہ فائنل آج کے پاک وہند، یا انگلستان اور آسٹریلیا کے مقابلوں سے کم گھمسان کے نہیں ہوتے۔ پورا شہر یہ مقابلہ دیکھنے ڈھول تاشوں سمیت امڈ آتا۔
مقابلہ کرنے اور جان لڑانے کی اس روایت نے فضل میں ایک جنگجویانہ صفت پیدا کردی اور یہی سخت کوشی اور فائٹنگ اسپرٹ تھی جس نے پاکستان کرکٹ کو اس کےابتدائی دنوں میں ہی ایسی کامیابیوں سے ہمکنار کیا کہ دنیا نے حیرت سے دانتوں میں انگلیاں داب لیں۔
ملک آزاد ہوا۔ اور اگلے ہی مہینے فضل پاکستان پولیس سروس میں شامل ہوگئے۔ انسپکٹر بھرتی ہونے والے اس نوجوان نے پاکستان کرکٹ کے ساتھ ہی پاکستان کی پولیس کی خدمات آئی جی کے عہدے تک انجام دیں۔
اور یہ ستمبر 1948 کی بات ہے ۔ لاہور کے نیڈوز ہوٹل میں فضل اور اس کے دوست اسلم کھوکھر اور محمد امین امرتسر ہندوستان میں ہونےوالے بھارت اور ویسٹ انڈیز کے میچ کے بارے میں گپ شپ کررہے تھے۔ تینوں نے سوچا کیوں نہ ویسٹ انڈیز کو کم از کم ایک میچ کے لئے پاکستان بلوایا جائے۔ یہ تینوں وزیراعلی مغربی پنجاب، نواب افتخار ممدوٹ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنی تجویز ان کے سامنے رکھی۔ نواب صاحب کرکٹ بورڈ جو اس وقت بی سی سی پی کہلاتا تھا، کے بھی صدر تھے۔
بھارتی کرکٹ بورڈ کی وساطت سے ویسٹ انڈیز کو دعوت دی گئی اور وہ نومبر میں لاہور میں ایک میچ کھیلنے پر راضی ہوگئے۔ اور یہ وہ وقت تھا کہ ملک بے سروسامانی کی حالت میں تھا اور بقول شخصے سرکاری دفتروں میں کاغذ کے پنوں کی جگہ کانٹے استعمال کئے جاتے تھے۔ مہمان کھلاڑیوں کی آمدورفت، رہائش، یومیہ الاؤنس، طعام وقیام۔ ان سب کے لئے زرمبادلہ درکار تھا۔ وزیراعظم لیاقت علی خان نے مطلوبہ زرمبادلہ فراہم کردیا اور باغ جناح میں میچ کھیلنے کی تیاری شروع ہوگئی۔ پنجاب حکومت نے پانچ ہزار کا عطیہ مہمان کھلاڑیوں کی خاطر مدارت کے لئے دیا۔ُایک شوقین کلب کرکٹر ظہور عرف جھورا نے شامیانے اور قناتیں مفت دیں اس میچ نے بی سی سی پی کو اٹھارہ ہزار روپے کا خالص منافع دیا۔
یہ ایک سخت مقابلہ تھا جس میں پاکستان کا پلہ بھاری رہا۔اسی سال سیلون کی ٹیم دو ٹسٹ کھیلنے پاکستان آئی۔یہ سب غیرسرکاری ٹسٹ تھے کیونکہ سیلون اور پاکستان دونوں کو ٹسٹ کھیلنے والے ملکوں کا درجہ حاصل نہیں تھا۔
فضل کے قصے طویل ہی نہیں دلچسپ بھی ہیں لیکن اتنی لمبی کہانی سننے کے لئے نہ آپ کے پاس وقت ہے نہ میرے پاس۔ بس اس کی موٹی موٹی کامیابیوں کی بات کرتے ہیں لیکن وہ بھی تو کچھ کم نہیں۔
1951 میں ایم سی سی نے پاکستان کا دورہ کیا۔ یہ دراصل انگلستان کی ٹیم تھی لیکن غیرسرکاری ٹسٹ میچ ایم سی سی کی نام سے کھیلتی۔ پاکستان کو اس وقت تک ٹسٹ کھیلنے والے ملک کا درجہ نہیں ملا تھا۔
باغ جناح لاہور میں کھیلا جانے والا پہلا غیرسرکاری ٹسٹ ہار جیت کے فیصلے کے بغیر ختم ہوا لیکن جہانگیر پارک کراچی میں کھیلے جانے والے میچ میں کرکٹ کی ماں ، انگلستان کو چار وکٹوں سے مات ہوئی۔ میٹنگ پر کھیلے جانے والے اس میچ میں فضل نے پہلی اننگز میں صرف چالیس رنز پر چھ وکٹیں حاصل کیں۔
فضل وننگ اسٹروک کھیل کر پویلئین لوٹے جہاں وزیراعظم خواجہ ناظم الدین نے فرطِ جذبات میں ہاتھ فضا میں بلند کرکے نعرہ لگایا ” پاکستان زندہ باد” ۔
اور یہی کارکردگی تھی جس نے گوروں کو پاکستان کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنے پر مجبور کیا اور اگلے ہی سال یعنی 28 جولائی 1952 پاکستان کو ٹسٹ کھیلنے والے ملکوں میں شامل کرلیا گیا۔
اور پھر اکتوبر 1952 میں پاکستانی ٹیم ہندوستان جا پہنچی۔دہلی کا پہلا ٹسٹ فضل کا بھی پہلا ٹسٹ تھا اور ٹسٹ میں پہلی وکٹ پھر اسی لالہ امرناتھ کی تھی جسے اپنے پہلے فرسٹ کلاس میچ میں بھی پہلا شکار کیا تھا۔
ٹسٹ کرکٹ میں نوزائیدہ ٹیم اپنا پہلا میچ ہار گئی لیکن لکھنو کے اگلے ہی ٹسٹ میں پاکستان نے ہندوستان کو اننگز کی شکست سے ہمکنار کیا۔فضل نے پہلی باری میں 5/52 اور دوسری اننگز میں 7/42 وکٹیں لے کر دنیا کو بتادیا کہ پاکستان کو ٹسٹ کا درجہ دینا کس قدر درست فیصلہ تھا۔ پاکستان شاید پہلی ٹیم ہے جس نے اپنے دوسرے ہی ٹسٹ میں کامیابی حاصل کی۔ ہندوستان کو اہنی پہلی ٹسٹ کامیابی گیارہ سال بعد اور وہ بھی اپنی سرزمین پر ملی۔
فضل کے میچ کے 12/92 اگلے اٹھائیس سال تک بھارت میں کسی بھی بالر کی بہترین کارکردگی کا ریکارڈ تھا۔
بمبئی میچ پاکستان ہار گیا۔ بقیہ دو میچ ہار جیت کے فیصلے کے بغیر ختم ہوئے۔ لیکن پاکستان نے دنیائے کرکٹ میں اپنی آمد کا اعلان باآواز بلند کردیا۔
پھر اگلے سال ہم کرکٹ کے گھر ، انگلستان جا پہنچے۔ کار دار اس ٹیم کے کپتان تھے اور فضل نائب کپتان۔ ٹسٹ کرکٹ میں نو آموز اس ٹیم میں یا تو کار دار ، ابو غزالی جیسے عمر رسیدہ کھلاڑی تھے یا خالد وزیر اور حنیف محمد جیسے طفل مکتب جن کی ابھی مسیں بھیگنا شروع ہوئی تھیں۔
کرکٹ کے ہیڈکوارٹر ” لارڈز” میں پہلا میچ بارش کی نذر ہوگیا۔ ٹرینٹ برج کے دوسرے میں میں پاکستان کو اننگز کی شکست ہوئی۔
اس سے اگلا میچ بھی ڈرا ہوا۔ لیکن اوول کے چوتھے اور آخری میچ میں اس نوخیز ٹیم نے تاریخ رقم کردی۔ انگلستان کو نہ صرف شکست ہوئی بلکہ پاکستان پہلی اور اب تک کی واحد ٹیم ہے جس نے اپنے پہلی دورہ انگلستان میں کسی ٹسٹ میچ میں کامیابی حاصل کی۔
انگلستان جس میں فرینک ٹائسن جیسا طوفانی بالر بھی شامل تھا اس نوارد ٹیم کے سامنے گٹھنے ٹیکنے پر مجبور ہوگیا اور یہ کارنامہ صرف ایک کھلاڑی کا تھا جس کا نام تھا ” فضل محمود” جس کی 94 رنز پر 12 وکٹوں نے گوروں کو کہنے پر مجبور کردیا
“England Fazzaled”
یہ دوسرے دن کے اخبار کی سرخی تھی۔
پاکستان نے اپنی پہلی ہوم سیریز بھارت کے خلاف 1954-55 میں کھیلی لیکن دونوں ٹیموں کی دفاعی حکمت عملی کی سبب پانچوں میچ نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئے۔ 1955 میں نیوزی لینڈ میں پاکستان نے اپنی پہلی سیریز دو – صفر سے جیتی۔
اگلے سال یعنی 1956 میں انگلستان جانے والی آسٹریلوی ٹیم نے کراچی میں ایک ٹسٹ کھیلا جس میں رچی بینو کی قیادت میں کھیلنے والی مہمان ٹیم کو شکست ہوئی۔ فضل کی وکٹیں تھیں 13/114 اور پاکستان نے دنیا کی مضبوط ترین ٹیم آسٹریلیا کے خلاف اپنا پہلا ہی میچ جیت کر دکھا دیا کہ پاکستانی ہونے کے کیا معنی ہوتے ہیں۔
فضل کی لیگ کٹر گیندوں نے آسٹریلوی ٹیم کو پہلی اننگز میں 80 رنز پر گھر کا راستہ دکھا دیا اور رچی بینو کو اقرار کرنا پڑا کہ ہم نے یہ اسی رنز بھی نجانے کیسے بنا لیے۔ فضل کی گیند تو ہمارے کھلاڑی سمجھ ہی نہیں پاتے تھے۔ فضل نے پہلی باری میں 6/52 اور دوسری میں 7/80 لے کر اپنی دھاک بٹھادی۔ کیتھ ملر جیسے عظیم بلے باز کو ایک پورے اوور میں ان کی ایک بھی گیند سمجھ نہیں آئی۔
اگلا دورہ 1958 ویسٹ انڈیز کا تھا جہاں سو برز، ہنٹ، ایور ٹن ویکس اور والکوٹ جیسے بلے باز اور ویزلی ہال اور گلکرسٹ جیسے خطرناک بالرز سے سامنا تھا۔ یہ سیریز پاکستان ہار گیا۔ اس میں بہت بڑے بڑے اسکور بنے۔ اسی سیریز میں سو برز نے 365 کا عالمی ریکارڈ بنایا تو نوجوان حنیف محمد نے بھی 337کی یادگار باری کھیلی اور ساڑھے سولہ گھنٹے کالی آندھی کا تن تنہا مقابلہ کیا۔ ایک ایسا ریکارڈ جو آج تک قائم ہے۔
فضل نے اس سیریز میں ایک ان تھک مزدور کی طرح بالنگ کی۔ اس میں ان کے ساتھی محمود حسین اور خان محمد اور اسپنر نسیم الغنی زخمی تھے۔ فضل نے اس سیریز میں 20 وکٹیں حاصل کیں لیکن یہ فضل تھے جنہوں نے اس سیریز میں تنہا 320 اوورز کرائے جن میں کنگسٹن ٹسٹ کے ایک ہی اننگز کے 85.2 اوورز بھی شامل ہیں۔
فضل اور خان محمد کی جوڑی نے پاکستان کے لئے بے تحاشا کامیابیاں سمیٹیں، مجھے یاد ہے کہ بچپن میں جب آپس میں چار اور آٹھ آنے چندہ کرکے ساڑھے تین روپے کی گیند میچ کھیلنے کے لئے لاتے تھے تو ان پر فضل محمود یا خان محمد کے نام ہوتے تھے۔
فضل پاکستان کے کپتان بھی بنے لیکن بطور کپتان کچھ زیادہ کامیاب نہیں رہے۔ آخرکار1962 میں کرکٹ کو خیرباد کہہ دیا۔،
پولیس سروس میں انسپکٹر بھرتی ہونے والے اس خوب صورت جوان نے 1976 تک خدمات انجام دیں اور ڈی آئی جی کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔ُ
اپنی نوجوانی میں سینکڑوں نہیں ہزاروں حسیناؤں کے دلوں کو گھائل کرنے والے فضل اپنے آخری دنوں میں دین اور تصوف کی طرف مائل ہوگئے تھے۔ انہوں نے تصوف پر کتابیں بھی لکھی ہیں۔
فضل کے ہم عصرفرینک ٹائسن، کولن کاؤڈرے، رچی بینو، ۔کیتھ ملر، اور دوسرے انہیں اپنے وقت کا سب سے بہترین گیند باز قرار دیتے ہیں۔
ایک چھوٹا سا مضمون اور وہ بھی مجھ جیسے نوآموز قلمکار کے زریعے، فضل کی شخصیت کا احاطہ نہیں کرسکتا، فضل کے دور کی دلچسپ باتیں اور یادیں لکھنے کے لئے تو پوری کتاب درکار ہے۔
فضل جس کے لئے اپنے دور کے مشہور فلمی پیرو سنتوش نے کبھی کہا تھا کہ پاکستان میں دو ہی خوبصورت مرد ہیں، ایک میں دوسرا فضل محمود۔۔لیکن جاننے والے جانتے ہیں کہ اصل خوبصورت مرد صرف ایک ہی تھا، میرا ہیرو۔۔فضل محمود