ایک محتاط اندازے کے مطابق ہر چھ میں ایک پاکستانی کسی نہ کسی ذہنی مرض میں مبتلا ہے ۔گمان غالب ہے کہ صورت حال اس سے کہیں زیادہ سنگین ہے ۔مغربی دنیا میں ایسا تناسب ہوتا تو بات کچھ سمجھ میں بھی آتی ۔ایک اسلامی ملک میں ذہنی امراض کی یہ کثرت بہت بڑا المیہ ہے ۔ایک ایسا سانحہ کہ جس پر گہرے غور و خوض کی ضرورت ہے ۔ آخر پتہ تو چلے کہ وہ کون سے عوامل ہیں جو اس تباہی کی وجہ بنے ہیں؟
دنیا نے ذہنی صحت کی کثرت کے پیش نظر اس کا عالمی دن منانا شروع کر دیا ہے ۔ تو اس سنگین ترین مسئلے کی اہمیت کا تقاضا یہ ہے کہ ہم سر جوڑ کر بیٹھیں اور وجوہات و انسداد کی راہیں ہموار کریں ۔ ہم سب کو اپنے حصے کا کردار اس لیے بھی ادا کرنا ہے کہ یہ ہمارا مشترکہ مسئلہ ہے ۔ ہر گھر کے ہر فرد کا ایک ذاتی مسئلہ اور مشترکہ دکھ۔
آج کوئی گھر کوئی خاندان ایسا نہیں بچا جس میں کوئی نہ کوئی ذہنی مریض موجود نہ ہو۔ ہم ایسے مریضوں کو اپنے اردگرد دیکھتے ہیں اور سوائے کڑھنے کے کچھ نہیں کر پاتے ۔سوال یہ ہے کہ کیا ہمارا کام بس یہی رہ گیا ہے کہ ہم
" چچ چچ اللہ میری توبہ "
کہہ کر خاموش ہو جائیں اور یہ سوچ کر مطمئن کہ شکر ہے ہمارے گھر کا کوئی فرد اس بیماری کا شکار نہیں ہے ۔
ایک تو ہم لا پرواہ قوم ہیں دوسرا مفلسی نے بھی ہماری حس لطافت کو دبا رکھا ہے ۔
سو بیماری کو پالتے رہنا اور ذہنی مرض کو سرے سے بیماری ہی نہ سمجھنا بہتوں کے مزاج میں داخل ہے ۔ اوپر سے یہ خوف الگ دامن گیر رہتا ہے کہ لوگ ہمیں پاگل کہہ کہہ کر ہماری جیون اجیرن کر دیں گے ۔ تو اچھا خاصا ذہنی مریض بھی یہ سن کر کہ اسے کسی نفسیاتی معالج کے پاس جانا چاہیے ' کاٹ کھانے کو دوڑتے ہیں ۔ کبھی یہ تسلیم تک نہیں کیا جاتا کہ انہیں کوئی دماغی مرض لاحق ہے ۔
کیسی عجیب بات ہے کہ ایسے مریض کے لواحقین بہت جلد عاجز آ جاتے ہیں ۔ وجہ یہ ہے کہ بظاہر ایسے مریض صحت مند ہوتے ہیں ۔انہیں بظاہر کوئی بھی تو مرض لاحق نہیں ہوتا ان کا ہارڈ وئیر ٹھیک ٹھاک ہوتا ہے۔باقی رہا سافٹ ویئر تو وہ کب نظر آتا ہے کہ انسان اسے دیکھ کر اس کی صحت یا بیماری کے بارے میں کوئی فیصلہ صادر کریں ۔
مجھے اس مرض کا ذاتی تجربہ حاصل ہے ۔ کوئی مسلسل چار سال اس کا شکار رہا ہوں ۔ میری سوچی سمجھی رائے یہی ہے کہ ایسے لوگ جس بیرونی امداد کے منتظر رہتے ہیں انہیں کبھی میسر نہیں آتی ۔ انہیں اگر کوئی امداد مل سکتی ہے تو خود ان کے اندر سے ۔ انہیں اپنا دارو خود ڈھونڈنا پڑتا ہے ۔ خود کو خود اٹھانا پڑتا ہے ۔ اپنا حوصلہ خود بڑھانا پڑتا ہے ۔ باوضو رہ کر منفی خیال کا توڑ کرنا پڑے گا ۔ نماز اور صبر سے مدد حاصل کرنا ہوگی ۔ اس پر یقین کرنا ہوگا کہ وہ اکیلے نہیں ہیں ان کا رب ان کے ہر دم ساتھ ہیں ۔ آخر میں ایسے افراد کے لیے ایک شعر
میں جہاں کہیں بھی پھسل گیا وہیں گرتے گرتے سنبھل گیا
مجھے ٹھوکروں سے پتہ چلا میرا ہاتھ ہے کسی ہاتھ میں