(Last Updated On: )
مرا ہمزاد کہتا ہے یہ مجھ سے
کہ آخر کب تلک
تم سوچتے اور کہتے ہی رہتے ہو
ہمارا گانوں کس قدر اچھا تھا
جہاں پر
ندی نالے اور جھرنے تھے
پہاڑوں کی وہ فصیلیں
بڑے پر کیف نظارے پیش کرتے تھے
جہاں سبزہ کھل کھلاتا تھا
قدرتی پھول بھی مسکراتے تھے
سبھی کے دل کو بھاتے تھے
پہاڑوں میں وہ سیتا پھل جو پکتے تھے
تو چپکے سے چراکر مل کے کھاتے تھے
نظر پڑتی جو مالی کی
تو اس کی گالیاں ہم سب کو
شریفے سے زیادہ میٹھی لگتی تھی
وہ بچپن بھی عجب تھا
جہاں صرف اور صرف
قدرتی خزانوں کے مزے لوٹا ہی کرتے تھے
بزرگوں سے ڈرا کرتے تھے
ان کی عزت و توقیر
گویا فرض تھی ہم پر
ہماری بے رخی پر ڈانٹ بھی پڑتی تھی
مگر اس ڈانٹ میں
ان کی نصیحت پوشیدہ رہتی تھی
وہ سارے بزرگ
جو ہمیں کھری کھوٹی سناتے تھے
تو اس میں ان کا پیار اور درد رہتا تھا
وہ ہمارے کل کو درخشاں دیکھنے کی چاہت میں
امیدیں لگائے بیٹھے تھے
کہ ہمارے گانوں کے یہ لڑکے
ہر سو ہمارے نام کو روشن کریں گے
وہ امیدیں بھی کیسی تھیں
ان کا علم بھی کیسا علم تھا
کہ انہوں نے چہروں کو پڑھا تھا
کہ مثبت سوچ تھی ان کی
ہمارے کل کی فکر میں
وہ گھل گھل سے جاتے تھے
جواں امیدوں کے سہارے جی رہے تھے
بے کسی اور بے بسی میں بھی
تخیل کی چھلانگیں وہ لگائے تھے
عجب پرکیف تھے وہ نظارے
جنہیں آج ہم ترستے ہیں
مرا ہم زاد مجھ سے پوچھتا ہے
کہاں ہیں وہ بزرگ؟
کہاں ہیں وہ الفتیں؟
کہاں ہیں وہ نصائح؟
کہاں ہیں وہ نظارے؟
میں حیرت اور حسرت سے
اپنے حال کو اور اپنے آج کو
بس تکتا ہی رہتا ہوں!
اور سوچتا ہی رہتا ہوں
کہ بزرگوں نے جو سوچا تھا
وہ غلط ہرگز کہیں سے بھی نہیں تھا
انہوں نے تو بس
اپنی بستی کو ہی اونچا دیکھنا چاہا
کہ ان کا ظرف کس قدر بلند و بالا تھا
ان کی چاہت اکہری نہیں تھی
سبھی کو اپنا جانتے تھے
مگر اب دو کتابیں
ہم نے کیا پڑھ لیں
کہ خود کو بہت اعلیٰ و ارفع اور اونچا جان کر
حسب مراتب ہی کو دھوڈالا
خدا را کیا ہوگیا
کہ ہم نے انساں کو
انساں ہی نہیں جانا
فقط نام اور منصب کی خاطر
سبھی کچھ داو پر لگا چھوڑا
مرا ہم زاد کہتا ہے
بچالو ان کو
اب بھی وقت ہے
کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارے بزرگوں کا
نام ہی مٹی میں مل جائے
مرا ہمز اد کہتا ہے مرا ہمزاد کہتا ہے۔۔۔۔
“