آپ جب اہنی جنم بھومی،اپنے آبائی گاؤں کا چکر لگانے جائیں،اس گھر کو دیکھنے جائیں جہاں آپ پیدا ہوۓ تھے،یا جہاں آپ کا بچپن اور جوانی گزری ہو، آپ کے جذبات کیا ہوں گے؟میں نہیں جانتا۔البتہ اس بار جب میں اپنے گاؤں گھومنے گیا تو خوشی اور اضطراب کی ملی جلی کیفیت سے دوچار تھا۔
میرا گاؤں میری جنم بھومی،جہاں میں پیدا ہوا،پلا بڑھا،کھیلا کودا تھا،یوں لگا جیسے مجھ سے بغل گیر ہونے کو چلا آیا تھا۔یہ احساس بھی پہلی بار ہوا کہ گاؤں کی فضاؤں میں پہنچنے کے بعد آدمی بیک وقت مسرور اور مغموم بھی ہو سکتا ہے۔میں نے جتنا وقت وہاں گزارا،میرے ساتھ ایسا ہی کچھ معاملہ رہا۔
کل اتوار تھا۔فروری کی سات تاریخ؛ دو ہزار اکیس کا یاد گار دن؛ میں پہلے سے طۓ شدہ شیڈول کے مطابق صبح سویرے گاؤں کے لیے روانہ ہوا تھا۔اوستہ محمد شہر سے کوسوں دور،ناڑی کے دور افتادہ علاقے ضلع جھل مگسی میں واقع اپنے من موہے گاؤں چھتہ پلال جا پہنچا تھا۔
جیسا کہ ابتدا میں ہی بتا آیا ہوں کہ اس بار گاؤں جا کر میں بیک وقت بے پناہ راحت اور اضطراب کی کیفیت سے دوچار رہا۔راحت اپنے گاؤں جانے اور وہاں کی ہر شے سے انسیت کے سبب تھی،جبکہ مضطرب ماضی میں جھانکنے کی وجہ سے ہوا تھا۔
وہاں جاتے ہوۓ،مِیلوں دور تلک پھیلا راستہ بھی کم دلچسپ نہ تھا۔کہیں میدانی علاقہ تو کہیں گہرا گھنیرا جنگل اگا ہوا۔کہیں سڑک کی جانب جھکی ہوئی بیری کی کانٹے دار شاخوں سے اپنا آپ بچانا خاصا دشوار کہ یہ شاخیں جیسے چھونے کو لپکی آتی تھیں۔زمینوں کے بیچ سے گزرتے ٹیڑھے میڑھے راستے کی جانب بڑھی ہوئی بیری کی ٹہنیاں جہاں چھو جائیں،لباس کا کچھ حصہ وہیں اٹکا رہ جاۓ اور آدمی خراشیں آنے کے بعد تلملا ہی اٹھے۔
میں بائیک پر ناڑی جا رہا تھا۔چھوٹے سے پر پیچ اور دشوار گزار راستے پر بائک چلانا اگرچہ مشکل کام تھا مگر دلچسپ اور دل فریب بھی تھا۔گًم کی لمبی اور کہیں خشک،کہیں ہری بھری گھاس جب جسم سے ٹکراتی،عجب سرسراہٹ پیدا ہوتی تھی،اور میں اس دھیمی سی نغمگی کے سحر میں جکڑ سا جاتا تھا۔
سر راہ آک کے پودے اور چاروں اور لانڑے کے آدم قد پیڑ بھی اگے تھے۔ببول، لئی، کنڈی اور کرڑ کے دیو قامت درختوں کے جھنڈ راہ راستوں اور کھیتوں کے بیج ہلکی پھلکی ہوا میں یوں لہلہاتے تھے جیسے ہماری آمد کی خوشی میں رقص کیے جاتے ہوں۔ہر سو گھاس پھوس اور بیل بوٹوں پر نئی کونپلیں پھوٹ پڑی تھیں۔ہر جا ہریالی ہی ہریالی تھی۔سرسوں کے زرد پھولوں اور دھنیے کے کھیتوں سے آتی بھینی بھینی خوشبو سے میرے وجود کا ذرہ ذرہ مہک اٹھا تھا۔میں سرشار تھا کہ برسوں بعد میرا وطن ایک بار پھر گل و گلزار ہوا تھا۔
مجھے یاد پڑتا ہے،یہ دو ہزار دس سے ذرا پہلے کا زمانہ تھا،آخری بار جب گاؤں آباد ہوا تھا۔پھر خشک سالی کا طویل دور بیت گیا۔آج دو ہزار اکیس ہے اور اب وطن میں ایک بار پھر وہی رونقیں ہیں۔وہی موج میلے ہیں۔زندگی پھر سے جی اٹھی ہے۔
ہماری زمینیں چونکہ بارانی پانی سے سیراب ہوتی ہیں۔جل تھل بارش ہو تو وطن کا کونا کونا سر سبز ہو جاتا ہے۔خشک سالی کے سبب نکل مکانی کرنے والے مارونڑے پھر سے لوٹ آتے ہیں۔برسوں بچھڑے ہوؤں کا وطن پھر سے آباد ہوجاتا ہے۔محبتوں کے میلے سج دھج جاتے ہیں۔اب کے بھی ایسا ہی ہوا ہے۔اب بھی وہاں وہی خوشیاں ہیں،وہی شادمانی کے گیت گلوں میں رنگ بھرنے لگے ہیں۔وہی بادِ نو بہار چل پڑی ہے کہ پرندے بھی اپنی اپنی بولیوں میں چہک اٹھے ہیں۔
میں تمام تر مصروفیات سے ایک دن کے لیے جند چھڑا کر اپنے بیٹے حسنین اور منجھلے بھائی کے ساتھ ناڑی پہنچا تھا۔اب کے بھی وطن میں وہی پہلا سا بانکپن تھا۔وہ مکان جہاں میں پیدا ہوا تھا،اگرچہ کب کا ڈھے چکا،مگر اس کے نشان تو اب بھی محسوس کیے جا سکتے تھے۔نیا گھر جس کی دیواریں اٹھاتے وقت کم سنی میں میں نے بھی والدین کے ساتھ مل کر مٹی ڈھوئی تھی۔جس کی بنیادوں میں میرا بھی پسینہ شامل تھا،اب وہ بھی منہدم ہونے کو تھا۔اسے دیکھ کر دل دکھی ہوا۔میں نے ایک بار پھر گھر کی تعمیر نو کا عزم کیا اور آگے بڑھ گیا تھا۔
میں محسوس کر سکتا تھا،جس زمین پر میں نے اپنے بچپن کے کئ پل،کئی شب و روز گھٹنوں کے بل چل کر یا بھاگ دوڑ کر گزارے تھے،وہ مٹی میرے پیروں سے جیسے لپٹ سی جاتی تھی۔وہ گھر جن کے کونوں میں چھپ کر میں نے اپنے ہمجولیوں کے ساتھ چھپن چھپائی کھیلی تھی،وہ کونے مجھے بلاتے تھے۔تب بکریاں چرانا،اونچے درختوں کی ٹہنیوں پر جھول کر گنگناتے جانا اور مال مویشی دور چراگاہوں میں لے جانا،مجھے سب یاد آیا تھا۔وہ اسکول جاتے ہوۓ کبھی کبھار راستے میں گھاس اور لانڑیں کی گھنی جھاڑیوں میں چھپ جانا اور چھٹی کے وقت گھر کی راہ لینا۔کبھی یوں ہوتا کہ واپسی پر ہم میرپور سے گُلر(کتورے کا بچہ) بستوں میں چھپا کر گھر لاتے تھے۔ان کے کان کاٹ کر لڑاکو پِلا بناتے،انہیں خوب روٹی،دودھ اور لسی کھلاتے پلاتے تھے۔گدھوں پر کجاوے رکھ کر دور پار سے پانی بھر کر لانا بھی ہمارا معمول ہوا کرتا تھا۔آہ! اس وقت عجب جذباتی کیفیت سے دو چار تھا میں۔
کوئی گیارہ سال بعد ناڑی آباد ہوئی ہے۔اگرچہ اس دورانیے میں،میں متعدد بار وہاں جا چکا ہوں۔مگر غیر آباد زمینوں میں اضطراب اور افسردگی کے سوا کیا رکھا تھا۔اب معاملہ اس کے برعکس تھا۔اب کے وطن آباد ہوا تو میں شاداں و فرحاں تھا۔مضطرب بھی کہ میرا بچپن وہاں لوٹ آیا تھا۔لڑکپن اور جوانی کے کئی ماہ و سال یاد آۓ تھے۔یادوں کا ایک سیلابِ رواں تھا جو بل کھاتا ہوا ڈبونے کو آتا تھا۔اپنا ماضی طوفان کی مانند امڈا چلا آتا تھا۔
تب میں نے فوراً ان خیالوں سے نکلنے کی کوشس کی تھی۔جبکہ اپنی توجہ تا حد نظر پھیلے سرسوں کے کھیت پر مرکوز کر دی تھی۔میں بے حد خوش تھا اور رنجیدہ خاطر بھی۔میں نے اپنے من کو سمجھانے کی ہر ممکن کوشس کی،جب بات نہ بنی تو فوراً شہر پلٹنے کا سوچا اور بوجھل سی طبیعت لیے واپسی کی راہ لی۔اس دعا کے ساتھ کہ خدا وطن کو یوں ہی سدا شاد و آباد رکھے۔