بہاولپور میں 1886 میں صادق ایجرٹن کالج ( ایس ای کالج ) قائم ہوا تو شاید اس خطے میں لاہور سے باہر کوئی اور کالج نہیں تھا۔ صدیق طاہر نے اسے انیسویں صدی کا سٹوپا قرار دیا۔ اس کالج سے وحید الدین سلیم پانی پتی، مشتاق احمد زاہدی، ایرک چارلس ڈکنسن، ڈاکٹر شجاع ناموس، احمد ندیم قاسمی، دلشاد کلانچوی، محمد خالد اختر، منیر نیازی، ڈاکٹر محمد باقر، سید محمد کاظم، مولانا عزیز الرحمٰن، رشیدالزماں ، سہیل اختر، خواجہ عبدالحمید عرفانی، خواجہ عبدالحمید یزدانی ،رفیق خاور جسکانی، حمید عسکری ، مشرف احمد، نورالزماں احمد اوج ، صدیق طاہر، اسلم انصاری، عابد صدیق، حاجی سیف اللہ، احمد عقیل روبی، اسد اریب، منور علی خاں، حسین سحر، سمیع الرحمٰن، شعیب سڈل، بشیر فرحت، طاہر تونسوی ، نجیب اللہ ملک، رفیع خاور ننھا، ضامن علی حسینی ، جنرل محمد اقبال، ائیر چیف مارشل شبیر حسن خاں ، جسٹس اللہ نواز، جسٹس شاہد صدیقی، جسٹس محمد حسین سندھڑ، احمد بلال محبوب جیسے لوگ معلم یا متعلم کے طور پر وابستہ رہے۔
کالج نے قومی ٹیموں کے 5 کپتان سمیع اللہ، ڈاکٹر عاطف بشیر(ہاکی)ایم این جہاں(فٹ بال)محمد انور اختر (کبڈی)اورزبیر احمد (بیڈمنٹن) بھی پیدا کئے۔
کالج کے میگزین ’’اوسس : نخلستانِ ادب ‘‘کا اجرأ 1912 میں ہوا۔ اس طرح یہ قدیم ترین سمجھے جانے والے کالج میگزین "راوی" کا ہم عمر ہے۔ راوی کا پہلا شمارہ سیشن 12۔ 1910 کا تھا۔ ظاہر ہے وہ بھی1912 میں شائع ہوا ہوگا۔ ایس ای کالج میگزین میں ہندی حصہ بھی ہوتا تھا۔ اس میگزین کوقائد اعظم کا پیغام اور علامہ اقبال کا خط شائع کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔
ایک بار کالج کے طلبأ کی شوریدہ سری سے نمٹنے کیلئے نواب بہاولپور کی حکومت نے پولیس کپتان(ایس پی) کو پرنسپل بنا دیا تھا۔
یہ بھی ہوا کہ ریاست کے وزیرِتعلیم کالج کے دورے پر آگئے۔ ایک کلاس روم میں چلے گئے۔ پروفیسر سے پوچھا’’
آپ کیا پڑھا رہے ہیں ؟‘‘
پروفیسر ڈاکٹرشجاع ناموس نے جواب دیا
’’ یہ فزکس ہے، میٹرک پاس کی سمجھ میں نہیں آئے گی، ویسے آپ کو بغیر اجازت کلاس روم میں نہیں آنا چاہئیے تھا‘‘
وزیر صاحب کی شرافت دیکھیں کہ خاموشی سے چلے گئے۔ پروفیسر سے کسی نے کچھہ نہیں پوچھا۔ یہی وزیر بعد میں ریاست کے وزیرِاعظم بھی بنے اور کالج کی نئی عمارت ، جامعہ عباسیہ( بعد میں اسلامیہ یونیورسٹی) کی بلڈنگ، ڈرنگ سٹیڈیم انہی کے ادوار میں بنے۔ کہا جاتا ہے یہ سٹیڈیم ٹوکیو اولمپکس تک ایشیا کا ایسا سب سے بڑا سٹیڈیم تھا جس میں تمام کھیلوں کی سہولیات موجود ہوں ۔
یہی صاحب مخدوم زادہ حسن محمود بعد میں پنجاب کے وزیرِاعلیٰ بنتے بنتے رہ گئے، بن جاتے تو پنجاب کی ترقی ایسی un-even نہ ہوتی۔
ایس ای کالج کے کانووکیشنز میں سید سلیمان ندوی، ڈاکٹر ذاکر حسین، سر عبدالقادر، ڈاکٹر خلیفہ شجاع الدین، جی ڈی سوندھی، ڈاکٹر ای ڈی لوکاس،اور پروفیسر تاج محمد خیال جیسے اکابرین نے صدارتی خطبے دئیے۔ 2وائسرائے لارڈ ڈفرن اور لارڈ ریڈنگ بھی کالج آئے۔
احمد ندیم قاسمی نے ’’ایک ریاستی کالج‘‘کے عنوان سے اپنے زمانۂ طالب علمی کی دلچسپ یادیں تحریر کی تھیں، نخلستانِ ادب کے60 سالہ نمبر میں یہ مضمون شامل کیا تھا لیکن نمعلوم کیوں قاسمی صاحب پر شائع ہونے والے خاص نمبروں میں ان کی زندگی کےایک اہم حصے کے بارے میں ان کی اس تحریر کو نظر انداز کیا گیا۔ ’’افکار‘‘ کے ندیم نمبر کیلئے یہ مضمون میں نے صہبا لکھنوی صاحب کو فراہم کیا تو وہ بہت خوش ہوئے اور نمبر میں شامل کیا، شائد میرا حوالہ بھی دیا۔
1962میں ایوب حکومت نے تین سالہ ڈگری کورس کا اعلان کیا تو سخت احتجاج ہوا۔ کراچی کے بائیں بازو کے طلبأ نے زبردست حتجاجی تحریک چلائے۔ حسین نقی، معراج محمد خان، سید سعید حسن ،جوہر حسین، علی مختار رضوی،نفیس صدیقی،فتح یاب علی خاں سمیت 12 طلبأ کو شہر بدر کر دیا گیا۔ علی مختار رضوی بہاولپور آگئے۔ کالج انتظامیہ نے نئی پالیسی کے مطابق کالج کو انٹر اور ڈگری 2 حصوں میں تقسیم کرنے کیلئے اونچی دیوار تعمیر کرادی تھی۔ علی مختار رضوی کی قیادت میں طلبأ نےایک ہی ہلے میں وہ دیوار گرادی۔
پھر وہ بھی عجیب منظر تھا جب مغربی پاکستان کی وزیر تعلیم بیگم محمودہ سلیم کالج کی تقریب میں مہمانِ خصوصی تھیں اور عبدالہادی نامی طالب علم نےتلاوت کے بعد پردے کا حکم بیان کرتے ہوئے ان پر تنقید شروع کردی۔ یہ صاحب بعد میں لیکچرر اور پرنسپل بنے۔
مجھے یہ اعزاز حاصل ہوا کہ فرسٹ ایر میں ہی کالج میگزین ’’نخلستانِ ادب‘‘ کا ایڈیٹر چنا گیا ۔ کالج میں ایم اے تک کلاسیں تھیں۔ فورتھہ ایر کے ایک طالب علم نائب مدیر تھے۔ میں کالج میں چاروں سال ایڈیٹر بنا (شاید واحد مثال )۔ کالج رول آف آنر میں بھی نام درج کیا گیا۔ نخلستانِ ادب کے60 سال مکمل ہونے پر ایک نمبر نکالاجس میں شامل مواد کا خاصا حصہ کالج کے100 اور125 سال مکمل ہونے پر شائع ہونیوالے نخلستان ادب کے نمبروں میں بھی استعمال کیا جاتا رہا لیکن مجھے حیرت ہوئی کہ 125 سالہ نمبر میں سابق طالب علموں کی طویل فہرست میں صحافیوں کے زمرے میں 2 سرکاری ملازمین کے نام تو درج تھے، میرا نہیں، حالانکہ صحافت کے سوا کچھ بھی نہیں کیا۔ اور یہ اس نمبر کے مدیر اعلیٰ اچھی طرح جانتے ہیں ۔ وہ میرے ساتھ نائب مدیر بھی رہے تھے.
“