پیارے طالبان بھائیو!
آپ کا خط ملا جس میں آپ نے ہم دِیر کی طالبات کو پیغام بھیجا ہے کہ اگر کالج جانا ہے تو برقعے کے ساتھ ہم اپنا کفن بھی لے کر گھر سے نکلیں۔
افسوس آپ کا بچپن اور لڑکپن جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام کے مدرسوں میں گزر گیا جبکہ جوانی فکری و عملی غاروں میں گزر رہی ہے اس لئے آپ کو معلوم ہی نہیں کہ ہم پاکستان کی خواتین، بالخصوص پشتون عورتوں کے لئے، ہمارا برقعہ ہی ہمارا کفن ہوتا ہے۔
آپ کا بچپن مدرسے کی بجائے گھر میں گزرا ہوتا، آپ نے بچپن میں اپنی بہنوں کی دبی گھٹی چیخیں اور احتجاج سنے ہوتے تو آپ کو معلوم ہوتا کہ مردوں کی نظر میں ہم وہ زندہ لاشیں ہی تو ہیں جنہیں عبوری طور پر برقعے میں کفنا دیا جاتا ہے۔
آپ لوگوں کی مصیبت یہ ہے کہ ہم لاشیں نہیں ہیں۔ ہم اپنے کفن نما برقعوں کو بھی ڈھال بنا لیتی ہیں۔ آپ کو شائد معلوم نہ ہو، اپنے امیر سے پوچھئے گا کہ کس طرح جمعیت انقلابی زنان افغانستان (راوا) کی بہادر خواتین نے ملا عمر کی عورت دشمن امارت کے دوران برقعوں میں چھپا چھپا کر کتابیں گھر گھر سمگل کیں تا کہ لڑکیاں انڈر گراؤنڈ سکولوں میں پڑھ سکیں۔ یقین کریں برقعوں نے کتابوں کی سمگلنگ آسان بنا دی تھی۔
لوئر اور اپر دِیر ہی نہیں، لاہور اور کراچی میں بھی میری جیسی کتنی نوجوان خواتین ہیں جن کو اس شرط پہ کالج یونیورسٹی جانے کی اجازت ملتی ہے کہ ہم اپنے برقعے والے کفن میں گھر سے نکلیں۔ کیمپس پہنچنے تک فقط برقعے ہی ہماری مصیبت نہیں ہوتے، بے پردہ نگاہیں اور ان گنت بے لگام ہاتھ بھی ہماری طرف لپکتے ہیں۔ ایسے میں بھی ہم نہ صرف پڑھ رہی ہیں بلکہ اکثر کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ہماری تعداد مرد وں سے زیادہ ہے۔ رہی تعلیمی نتائج کی بات تو اس میں بھی ہم مردوں سے کہیں بہتر ہیں۔
یقین کیجئے ہم نے صبح کالج جاتے ہوئے برقع پہنا ہو نہ پہنا ہو، دِیر سے لے کر کراچی تک ہم نے سر پر کفن ضرور پہنا ہوتا ہے۔ معلوم نہیں کب کسی بھائی، کزن، طالب یا مجاہد کی غیرت جاگ جائے اور نا مناسب لباس یا خاندان کو بد نام کرنے کے الزام میں ہم پر تیزاب پھینک دے، بندوق کی لبلبی دبا دے یا کسی خنجر کی پیاس ہمارے خون سے بجھا دے۔
اس لئے یقین کیجئے ہمیں کالج کی دیواروں پر چسپاں آپ کے پمفلٹ دیکھ کر، آپ کی طرف سے موصول ہونے والے دھمکی آمیز خطوط پڑھ کر زیادہ ڈر نہیں لگتا(سچ پوچھئے تو آپ کے دھمکیوں سے زیادہ ڈر تو اسلامیات والے سَرکے آفس میں جاتے ہوئے لگتا ہے)۔
ہم پاکستانی طالبات کالج جاتی رہیں گی۔ کالج لڑکیوں کا ہو یا کو ایڈ، ہم جائیں گی۔ ہمیں جینز پہنے کا موقع ملے یا برقع اوڑھ کر جانا پڑے، ہم کالج بھی جائیں گی اور یونیورسٹی بھی۔ دنیا صرف ایک ملالہ کو جانتی ہے۔ سچ تو یہ ہے پاکستان میں ہم سب ملالہ ہیں۔ جب ہمیں سکول بھی نہیں بھیجا جاتا،پھر بھی ہمارے اندر کی ملالہ زندہ رہتی ہے۔ افسوس مدرسوں اور غاروں میں زندگی گزارنے کے بعد یہ بات آپ سمجھ نہیں پائیں گے۔
اس لئے ممکن ہے کسی دن میرے موبائل پر بھی میرا ابا کا یہ ٹیکسٹ میسج موصول ہو: ’جان ِ پدر کجا ہستی‘ اور میں جوا ب نہ دے پاوں لیکن میں کل صبح پھر کالج جاؤں گی، چاہے مجھے برقعے میں جانا پڑے اور کفن میں آنا پڑے۔
ملالہ
لوئر دیر۔
۵ اگست ۰۲۰۲ء۔
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
"