میرا بابا رحمتا
ہمارے گاؤں میں بھی ایک بابا رحمتا ہوا کرتا تھا۔ بھری جوانی میں کسی عرب ملک کا ویزہ لگ گیا۔ ریالوں نے بابے رحمتے کے حالات بہتر کیے تو پوری برادری اس کے گرد آ اکٹھی ہوئی۔ بہنوں بھائیوں میں سب سے بڑے ہونے اور خلیجی ملک سے آئے پرفیوموں، سوٹوں، اور الیکٹرانک تحفوں نے بابے رحمتے کو ساری برادری کا غیر اعلانیہ مکھیا بنا ڈالا۔
بابا رحمتا جب بھی چھٹی پر آتا، برادری کے مقدموں کی بھرمار ہوتی۔ پچھلے سال دو سال کے جھگڑے برادری نے بابے رحمتے کے آنے پر اٹھا رکھے ہوتے۔ بابا رحمتا جو بھی فیصلہ کرتا ہر ایک کو طوعاً و کرہاً ماننا پڑتا۔ کچھ فیصلے انتہائی حیران کردینے والے بھی ہوتے مگر لوگ بابے رحمتے کی فراست سے زیادہ بابے رحمتے کے "بیرون ملک تعلقات" سے متاثر ہوجاتے۔
بابے رحمتے کے عتاب خصوصی کے حقدار برادری اور بہن بھائیوں کی لڑکے لڑکیاں ہوتے۔ اگر کسی کا لڑکا پڑھائی میں اچھا نہیں یا اسکی محلے میں کسی سے لڑائی ہو گئی تو بابا رحمتا کا نزلہ اس بیچارے کے ماں باپ پر گرتا، کہ کیسی نالائق اولاد پیدا کی ہے۔ گھنٹوں کے لیکچر برادری کی محفل میں بےچارے ماں باپ کو سننا پڑتے۔ اگر کسی کی لڑکی نے دوپٹہ ٹھیک سے نہ اوڑھا ہوتا تو بابے رحمتے کی شرم وحیا پر مثالیں گاؤں کی چوپال تک سنائی دیتیں۔ بابا کی اپنی دو بیٹیاں اور دو بیٹے تھے۔
ہوسکتا ہے وقت یونہی گذرتا رہتا، مگر وقت کی ایک مصیبت ہے، یہ سدا ایک سا نہیں رہتا۔ دوسروں کی اولاد کی طرح بابے رحمتے کی اولاد بھی جوان ہوگئی اور ہر جوان اولاد کی پرپرزے نکالنا شروع کردیے۔ اور پھر آسمان کی آنکھ نے دیکھا کہ وہی بابا رحمتا جو دوسروں کی اولاد کے لیے تارہ مسیح بنا ہوتا تھا، اپنی اولاد کی گھرکیاں گھر کی کھڑکیوں کے پیچھے برداشت کرنے لگا۔ ہمارے کلچر میں ماں ہمیشہ جوان اولاد کی طرف ہوا کرتی ہے (بھلا مامتا کا انصاف سے کیا کام؟)۔ بلکہ اکثر اولاد کی گھرکیوں میں شامل طعنوں میں بابے رحمتے کی بیوی کا برسوں سے گھٹا زہریلا پن بھی شامل ہوجاتا۔
برادری والوں نے حیرت سے یہ "منہ سے نکلی کوٹھوں چڑھی" سنی اور دانتوں میں انگلیاں داب لیں۔ وہی بابا رحمتا جو دوسروں کی اولاد کی برائیاں پوری برادری کے سامنے رکھ کر انکے ماں باپ پر تبریٰ کیا کرتا تھا، اپنی اولاد کی غلطیوں پر اس میں اتنی بھی جرات نہ ہوئی کہ برادری کے سامنے انکی برائی مان ہی سکتا۔ رفتہ رفتہ سیانے بھی اور احمق بھی، ایک ایک کرکے اپنے فیصلے خود کرنے لگے، بلکہ انکو اس برسوں پر بھی افسوس ہونے لگا جب وہ بابے رحمتے کہ کہنے پر اپنی ہی اولاد کو سزا دیا کرتے تھے۔ پچھلی بار جب میں گاؤں گیا تو سفید داڑھی، اور کمزور جھکے کاندھوں کے ساتھ بابے رحمتے کو حقہ پیتے دیکھ کر مجھے زرا ترس نہ آیا۔ منصفی اگر اسقدر ارزاں ہوتی تو ہر کوئی خدا ہوتا۔
ہمارے ملکی منظر نام کے بابے رحمتے نے بھی آج لاڑکانہ کا دورہ کیا اور ججوں کی سرزنش کی اور بقول انکے انکو عدلیہ کی کارکردگی پر شرم محسوس ہوتی ہے۔ مجھے کم از کم وہ گاؤں کے بابے رحمتے سے بہتر لگے کہ انہوں نے "اپنی اولاد" کی غلطیوں اور خامیوں کو تسلیم کرنے کی طرف قدم تو بڑھایا۔ مگر یہ کافی نہیں ہے بلکہ اسی "میٹھی میٹھی سرزنش" تو لاڈلے بچے کے گال پر پیار کی چپت ہے۔ بابے رحمتے کو اپنی چارپائی کے نیچے ڈانگ پھیرنے کی ابتدا ان ججوں اور وکلا کے خلاف انتہائی کارروائی سے کرنا چاہیے جو عوام کو انصاف دلانے کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ سخت فیصلے اور سخت محکمانہ کارروائی صرف دوسروں کی "اولاد" کے لیے نہیں ہونا چاہیے۔ ورنہ میرے گاؤں میں بابے رحمتے کے ساتھ والی کرسی خالی ہے، حقہ میں بھر دونگا۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“