میرا اصل بیانیہ یہ ہے
تحفظ پختون تحریک ، پشتین اور اس سے جڑے معاملات پر بات چلتی رہے گی۔ بعض دوستوں نے پوچھا ہے کہ آپ کا بیانیہ کچھ اور ہے ، ہمارا کچھ اور، اس لئے شروع ہی میں گڑ بڑ ہوجاتی ہے، وغیرہ وغیرہ۔
بھائی میرا یعنی عامر خاکوانی کا بیانیہ تو بڑا سادا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ عام آدمی کے مسائل، دکھ درد ختم ہونے چاہئیں، انہیں ختم کرنے کی کوشش ہونی چاہیے، یہی ریاست اور حکومت کی بنیادی ترجیح ہونی چاہیے۔ اگر نہیں تو غلط ہو رہا ہے۔
اس لئے میرا بیانیہ پی ٹی ایم اور اس کے مطالبات کے حوالے سے صاف، واضح اور غیر مبہم ہے۔ تین بنیادی نکات مطالبات بیان کئے جار ہے ہیں۔
نمبر ایک: قبائل اور دیگر علاقوں میں پختون مسنگ پرسنز کا مسئلہ حل کیا جائے۔
نمبر دو؛ وزیرستان اور دیگر قبائلی علاقوں میں بچھائی بارودی سرنگیں صاف کی جائیں۔
نمبر تین : چیک پوسٹوں پر عام آدمی کے ساتھ ہونے والی بدسلوکی، بدتمیزی وغیرہ کا سلسلہ بند کیا جائے۔
میرے خیال میں تو یہ تینوں مطالبات جائز، مناسب اور حقیقت پر مبنی ہیں، انہیں فوری طور پر حل ہونا چاہیے۔ مثلاً اس طرف کام شروع تو ہوجائے۔ بارودی سرنگیں صاف کی جائیں، اس عمل کو تیز، تیز تر کیا جائے۔
مسنگ پرسنز میں جو لڑکے اداروں کی تحویل میں ہیں، ان میں سے جو کلیئر ہیں، انہیں چھوڑ دیا جائے، جن پرالزام ہے ان کے لئے تفتیش درکار ہے تو عدالت کے سامنے پیش کر کے جوڈیشل ریمانڈ لیا جائے یا پھر ثبوت اکھٹے ہوگئے تو مقدمات چلائے جائیں۔ قانون کے مطابق ہر کام کیا جائے ، تاکہ ورثا کو علم ہو کہ ان کا پیارا کس حال میں ہے، اگر جیل ہے تو کم از کم ملاقات کی جا سکے، امید کی شمع تو روشن ہو۔ ہر درد دل رکھنے والا یہ سمجھتا ہے کہ اس طرح گھر کا کوئی پیارا اچانک غائب ہوجائے توگھر والوں پر کیا گزرے گی۔ یہ بڑی آزمائش ہے، اس پریکٹس کو ختم کیا جائے ۔
اسی طرح چیک پوسٹوں پر سخت، ترش رویے کا تو کوئی جواز نہیں۔ اس میں نرمی لائے جائے ۔ بہترین حل تو یہی ہے کہ فوج کی جگہ چیک پوسٹوں پر مقامی پولیس، ایف سی وغیرہ کے جوان تعینات کئے جائیں۔ جہاں لمبی قطاروں کا مسئلہ ہے، تلاشی لینے میں وقت زیادہ لگ رہا ہے، وہاں سٹاف بڑھایا جائے ، لوگوں کے ساتھ نرمی، شائستگی کا رویہ اپنایا جائے، غیر ضروری چیک پوسٹیں ختم کی جائیں۔ یہ کوئی ایسا ایشو نہیں، جو اب تک حل نہیں ہوسکا۔
ان تین مطالبات کے علاوہ میرے خیال میں فاٹا کے خیبر پختون خوا کے ساتھ انضمام کو یقینی بنایا جائے۔ اس کے لئے اگر ایگزیکٹو آرڈر جاری کر کے کام چلا یا جا سکتا ہے تو ایسا کر لینا چاہیے۔ فاٹا پر ملکی قوانین کا اطلاق ہوگا، تب ہی لوگ اعلیٰ عدالتوں کا رخ کر سکیں گے۔ فاٹا کے انضمام کی مخالفت کرنے والوں نے بڑی زیادتی کی اور نواز شریف حکومت نے ان کے دبائو میں آ کر انضمام کے فیصلے سے پیچھے ہٹ کر ظلم کیا۔
میرے خیال میں فاٹا میں آئینی اصلاحات لازمی کی جائیں، انہیں کے پی کے کا حصہ بنایا جائے اور وہاں تعمیر نو، روزگار وغیرہ کے لئے خصوصی پیکج دئیے جائیں۔ عام آدمی کے مسائل حل ہوں تو وہ کبھی کسی احتجاجی تحریک کی طرف نہیں دیکھتا۔ اگر لوگ اکٹھے ہو رہے ہیں تو یقینی طور پر گراس روڈ لیول پر عام آدمی مضطرب، دکھی، اور پریشان ہے۔
فوجی آپریشن جس علاقہ میں بھی ہو، وہاں کچھ مسائل بھی پیدا ہوتے ہیں ، پہلے سوات اور پھر قبائل نے آپریشن سے بہت تکلیف سہی ہے، ان کے زخموں پر ہمیں مرہم رکھنا ہوگا۔ رکھنا چاہیے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ ہے پی ٹی ایم ، منظور پشتین وغیرہ کے مطالبات، بیانیہ کے بارے میں اس خاکسار کا بیانیہ، یعنی موقف ۔
ہاں اس کے ساتھ میں یہ ضرور کہتا ہوں، کہتا رہوں گا کہ اس تحریک کو اپنی توجہ اور فوکس مسائل کے حل کی جانب رکھنی چاہیے۔ غیر ضروری باتوں، متنازع نعروں سے گریز کیا جائے۔ یہ آپریشن کے متاثرین کا ایشو ہے، پوری پختون قوم کا ایشو نہیں ہے۔ اسے زیادہ بہتر نتایج لانے کے پختون قوم کا ایشو بنایا گیا، چلیں ٹھیک ہے مسائل کے حل کے لئے مختلف حکمت عملیاں بنائی جاتی ہیں، ہم بھی اس پر خاموش تھے، کہ اصل بات تو مسائل کا حل ہے۔ لیکن جب پی ٹی ایم کے پلیٹ فارم سے پاکستان ، فوج، پنجاب، پاکستانی عوام اور ریاستی وجود کے خلاف نعرے لگائیں جائیں، تقاریر کی جائیں تو وہ بہت خطرناک اور نقصان دہ ہوگا۔ ایسا براہ کرم نہ کیا جائے، اس سے قبائل کو نقصان ہی پہنچے گا، ان کی اچھی بھلی تحریک متنازع ہوجائے گی۔ نقیب محسود کے معاملے پر پورے پاکستان نے حمایت کی، رائو انوار کے خلاف بات کی، پریشر ڈالا، سپریم کورٹ نے مداخلت کی اور سرکش رائو انوار کو بھی پیش ہونے پر مجبور کر دیا۔ کوشش کرنی چاہیے کہ اسے اپنے کئے کی سزا بھی ملے ۔ پی ٹی ایم کے مطالبات کے حوالے سے بھی قومی سطح پر دبائو ڈالا جائے تو زیادہ اثر ہوگا۔ پنجاب میں ان کے مطالبات کے لئے نرم گوشہ موجود ہے، لوگ اعلانیہ حمایت کر رہے ہیں، حمایت کو تیار ہیں، لیکن انہیں اس وقت حیرت ہوتی ہے جب اس تحریک کے پلیٹ فارم سے پنجاب کو ، پنجابی قوم کو ، فوج کو ، ہر غیر پختون قوم کو گالیاں دی جا رہی ہیں۔ اس پر یہ سب شش وپنج میں پڑ جاتے ہیں کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟ پختون حقوق کے نام پر کوئی اور کھیل تو نہیں کھیلا جا رہا ہے؟
تو میرا بیانیہ صرف یہی ہے کہ مسائل کے حل پر فوکس رکھیں، پہلے مسائل حل کرا لیں، پھر اینٹی اسٹیبلشمنٹ لڑائیاں بھی لڑ لینا۔ اینٹی اسٹیبلشمنٹ موقف ہماری سیاست میں موجود ہے، سیاسی جماعتیں اس موقف کے ساتھ موجود ہیں۔ ملک کے آئین، جمہوری فریم ورک میں رہ کر یہ سب کچھ کہنے کا موقعہ ہے، آئیں اور حصہ لیں، جمہوری کلچر کو بدلنے کی کوشش کریں، سول بالادستی کی جنگ لڑیں ، بسم اللہ، جو درست سمجھتے ہیں اس کا حصہ بنیں اور پرامن دستوری جدوجد کریں، لیکن خدارا عام قبائلیوں کے حقوق کی خاطر اٹھی اچھی بھلی تحریک کو متنازع اور ڈی ٹریک نہ کریں۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔