میرا عین الیقیں، حق الیقیں ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فہم کی تین اقسام ہیں۔
۱۔ فہم ِ غیر شعوری
۲۔ فہم ِ شعوری
۳۔ فہمِ حقیقی
فہم ِ غیرشعوری، جیسا کہ ترکیب سے ظاہر ہے دراصل جبلت کے تحت سرزد ہونے والے اعمال و افعال کا دوسرا نام ہے۔ یہ فہم جانوروں کو بھی حاصل ہوتاہے۔ وہ غیر شعوری طور پر بہت سی باتیں جانتے ہیں۔ بطخ کا بچہ پہلے دِن جانتاہے کہ اُسے پانی کے تالاب میں کُود جاناہے۔ چُوزہ جانتاہے کہ چیل کی آواز سنتےہی ماں کے پروں تلے چھپ جاناہے۔ چوپائیوں کے بچے گھنٹے کے اندر اندر ماں کے تھنوں کو خود ہی ڈھونڈ کر دودھ پینا شروع کردیتے ہیں۔ انسانوں میں بھی فہم ِ غیر شعوری ہم انہی جبلی اعمال کو ہی کہینگے۔ اگرچہ انسان کا بچہ سانپ کو پکڑکرمنہ میں ڈال سکتاہے۔ انگاروں سے ہاتھ جلاسکتاہے۔ چیل، کوّے، کتے بلی سے خوف اُس کی جبلت کا حصہ نہیں۔ دوسرے جانوروں کے بچوں کے مقابلے میں انسان کا بچہ رونا جانتاہے۔ اُس کی مہارتیں عام جانوروں سے مختلف ہونا ضروری ہیں کیونکہ اسے دو پاؤں پر چلناہے۔ من دو من کے وزنی وجود کو دو ستونوں پر سہارنا اور پھر مشکل سے مشکل حرکات و سکنات سرانجام دینا خاصی سرکس کا کام ہے جو انسانی ہے۔ اسی مہارت کو سیکھتے سیکھتے انسانی بچہ دوتین سال لگادیتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسانی بچے کی ایسی عادات جنہیں جبلت کہاجائے یا میری ترکیب کی رُو سے فہم غیر شعوری کہا جائے بظاہر بہت کم ہیں، لیکن پھر بھی ہیں۔ رونا، ہنسنا، مسکرانا، نقلیں اُتارنا اور طرح طرح کے مبہم الفاظ بولنا جبلی اعمال ہی ہیں۔ اسے جسمانی سےکہیں زیادہ نفسیاتی زندگی گزارناہوتی ہے سو فطرت نے اس کےلیے ایسی جبلتوں کا انتظام کیا ہے جو اس کی نفسیاتی زندگی کے لیے زیادہ کارآمد ثابت ہوں۔ رونا، ہنسنا، مسکرانا، نقلیں اتارنا اور مبہم الفاظ بولنا یہ سب نفسیاتی کیفیات کا جسمانی اظہار ہیں۔
فہم ِ غیر شعوری پیدائش کے ساتھ ہی کسی نوع کے افراد میں موجود ہوتاہے۔ پرندوں کی بعض نسلیں ایک برّ ِ اعظم سے دوسرے برّ ِ اعظم تک چلی جاتی ہیں۔ وہ ایک براعظم پر پیدا ہوتی ہیں اور دوسرے پر جاکر انڈے دیتی ہیں لیکن انہیں وہاں تک جانے کا راستہ معلوم ہوتاہے۔ وہ پیدائش کے وقت سے ہی جانتےہیں کہ انہیں بہت دور دراز کا سفرکرناہے۔ اسے معروف ناول نگار رحیم گُل نے ’’پرندے کا عرفان‘‘ اور علامہ اقبال نے ’’وجدان‘‘ لکھا ہے۔ میں اپنے اِس مضمون میں اسے فہم غیر شعوری کانام دے رہاہوں۔
فہم ِ شعوری، بھی نام سے ہی ظاہر ہے۔ یہ صرف انسانوں کے ساتھ مخصوص ہے۔ یہ دراصل مقام ِ ادراک ہے۔ فہم شعوری تمام کا تمام، ’’معلومات‘‘ بھی کہلاتاہے، یعنی جاننا۔ جب ہم کسی اور سے کچھ سنتے ہیں یا معاشرے سے سیکھتے ہیں تو ہمیں شعوری طور پر اشیأ کا ادراک ہوتاہے۔ ہماری معلومات میں اضافہ ہوتاہے۔ مثال کے طور پر ہمیں معلوم ہے کہ سگریٹ نوشی صحت کے لیے مضر ہے، سو یہ ہے وہ فہم جو شعوری طور پر ہمیں حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فقط شعوری فہم سے انسان اِس قابل نہیں ہوجاتا کہ اس کے اعمال ِ جسمانی میں تبدیلی آجائے۔ مثلاً ایک چھوٹے بچے کو آپ زبانی طور پر سمجھانے میں کامیاب ہوجائیں کہ ’’یہ آگ ہے، آگ پر ہاتھ جل جاتاہے‘‘۔ آپ اُسے مختلف طریقوں سے ڈرا دیں اور وہ آگ کے نزدیک نہ جائے تو ہم کہینگے کہ اس نے فقط فہم شعوری کی بدولت اپنا عمل بدل دیا۔ فہم ِ شعوری صرف تھیوری ہوتاہے۔ یہ پریکٹس میں آتے ہی فہم ِ حقیقی بننا شروع ہوجاتاہے۔
۳۔ فہم ِ حقیقی بھی فقط انسانی خاصہ ہے۔یہ فہم شعوری کے مرحلے سے گزرنے کے بعد حاصل ہوتاہے۔ یہ گویا تھیوری (فہم ِ شعوری) کا پریکٹکل ہے۔ فرض کریں ہم نے ایک بچے کو اچھی طرح سمجھا دیا کہ، ’’یہ آگ ہے، اس پر ہاتھ جل جاتاہے‘‘۔ لیکن اس بچے نے ہماری بات نہیں مانی۔ پھر یوں ہوا کہ اس کا ہاتھ آگ پر جل گیا۔ اب گویا اسے فہم ِ حقیقی حاصل ہوگیا۔ اب وہ دوبارہ کبھی آگ میں ہاتھ نہ ڈالے گا۔چنانچہ ہم کہہ سکتےہیں کہ فہمِ حقیقی مقام ِ انکشاف ہے۔ فہم ِ حقیقی کی سب سے بڑی نشانی یہ ہے کہ اس کے حصول سے عمل میں لازمی طور پر تبدیلی آجاتی ہے۔ مثال کے طور پر ہم ڈرائیونگ کی کلاس میں وائیٹ بورڈ یا اینیمیشنز اور انسٹرکٹر کے لیکچرر کی مدد سے ڈرائیونگ سیکھ سکتے ہیں۔ اِس سیکھنے کو ہم سیکھنا نہیں کہینگے۔ یہ معلومات کا مل جاناہے۔ اس لیے یہ کسی شئے کا فہم تو ہے لیکن فقط شعوری ہے۔ لیکن اگر ہم ڈرائیونگ کی کلاس میں پریکٹکل بھی کرتے ہیں تو کچھ عرصہ کی مشق یعنی سعی و خطأ کے عمل سے ہم ڈرائیونگ کا فہم ِ حقیقی بھی حاصل کرلیتے ہیں۔ جب ہم کسی شئے کا فہم ِ حقیقی حاصل کرلیتے ہیں تو عمل میں پیدا ہوجانے والی تبدیلی ایسی خودکار ہوتی ہے جیسے وہ جبلت یا فہمِ غیر شعوری کا حصہ ہو۔ گاڑی چلاتے ہوئے ہم کبھی نہیں سوچتے کہ کس وقت بریک دبانی ہے۔ ہمارا جسم جانتاہے کہ کس وقت بریک دبانی ہے۔ یہ بالکل وہی طرز ِ عمل ہے جو فہم غیر شعوری کے وقت کسی بھی فردِ نوع کو حاصل ہوتاہے۔
فہم کی ابتدائی قسم ، ’’فہم ِ غیر شعوری‘‘ اور تیسری قسم، ’’فہم حقیقی‘‘ اس حوالے سے بالکل ایک جیسی ہیں کہ دونوں میں عمل خودکار طریقے سے ہوتاہے۔ یعنی جب ہم نے ایک شخص کو بتایا کہ سگریٹ نوشی سے پھیپھڑوں کا کینسر ہوسکتاہے تو یہ فہم ِ شعوری تھا،لیکن جب اُس شخص کو پھیپھڑوں کا کینسر ہوگیا تو ہم کہینگے کہ اسے سگریٹ نوشی کے نقصانات کا کسی حدتک فہم ِ حقیقی مل گیا۔ جیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں کہ مشق اور سعی و خطا سے بھی فہم ِ حقیقی حاصل کیا جاسکتاہے سو ایسے لوگ جو بعض اخلاقی یا غیر اخلاقی عادات کو مستقل طور پر اختیار کیے رکھتے ہیں انہیں بھی اُن اعمال کا فہم ِ حقیقی ہوتاہے۔ بعض لوگ مجبوری کے عالم میں بھی بُرے کام نہیں کرپاتے۔ بعض لوگ توبہ کے بعد بھی اچھے کام نہیں کرپاتے۔
سو فہم ِ غیر شعوری اور فہم حقیقی خودکار ہیں جبکہ فہم شعوری فقط کسی شئے کا ادراک ہے۔
اس مضمون کی اہمیت اس لیے ہے کہ ہم اب یہ جان سکتے ہیں کہ فہم غیر شعوری کے ساتھ بڑا ہوجانے والا انسان جسے ماہرین ِ نفسیات کی زبان میں غبی کہا جاتاہے اور تصوف کے بعض مسالک میں ’’مجذوب‘‘ کہا جاتاہے، فہم شعوری کے تلخ ترین مرحلے سے گزرے ہوئے لوگ نہیں ہوتے۔ ان کے برعکس فہم ِ حقیقی کے مالک لوگ شعور کے جاں گسل مراحل کو عبور کرکے وجدان تک پہنچتے ہیں۔ اُن کا وجدان بھی بے شک اُس پرندے کی طرح خودکار ہے جو ایک براعظم سے دوسرے براعظم تک بے منت ِ عقل چلا جاتاہے لیکن اُن کے وجدان کی سطح مقامِ خیال کی حد تک بلند ہے۔ اور اس لیے جن مغربی فلاسفہ نے وجدان کو محض یہ کہہ کر عقل سے پست درجے پر رکھا کہ وجدان بنیادی طور پر حیوانی سطح کا فہم ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ اس غلطی کا ارتکاب کرتے رہے کہ وہ جستجوئے محض یا تجسس محض کو اُس وجدان کے ہم پلہ شمار کرتے ہیں جو یا تو طویل سعی و خطا اور یا حادثاتی طور پر مگر حتمی اثرات کے ساتھ کسی صاحب شعور ہستی پر وارد ہوتاہے۔
اب چونکہ نفسیات میں آموزش بہ سعی و خطا کی بڑی اہمیت ہے اس لیے ہمیں اُس پہلو کو بھی سامنے لانا چاہیے جو خصوصاً اِس باب میں اب تک (کم ازکم) میرے مطالعہ کا حصہ نہیں بن سکا۔ میرے مطالعہ کے مطابق فرائیڈ اور جے بھی واٹسن نے بھی سعی و خطا کو جسمانی حرکات و سکنات تک محدود رکھا۔ سعی و خطا کیا ہے؟ جیسا کہ ہم نےاُوپر گاڑی کی مثال میں دیکھا کہ ایک وقت تک ’’کوشش اور غلطی‘‘ کے ذریعے ڈرائیونگ سیکھنا پڑتی ہے جو بعد میں ایک خودکار وجدانی عمل بن جاتاہے۔ سو ہم فقط جسمانی جسمانی اعمال و افعال پر ہی ہمیشہ اس کا اطلاق کیوں کرتے ہیں؟ ہمیں’’فکر‘‘ پر اس کے استعمال کا کیوں حق نہیں؟ فرض کریں ایک شخص کی قوتِ متخیلہ بڑی فعال ہے۔ وہ بچپن سے ہی سپنے دیکھتاآرہا ہے۔ وہ کسی بھی شئے پر غور کرتاہے تو اس میں غرق ہوجاتاہے۔ وہ کسی بھی منصوبے کے تانے بانے بناتاہے تو بہت باریکی میں ان کا جائزہ لینے کی اہلیت رکھتاہے۔ وہ بار بار سوچتاہے۔ بار بار رد کرتا اور پھر اپنی سوچوں کو ریفائن کرتارہتاہے۔ اب فرض کریں کہ گاڑی سیکھنے والے شخص کی طرح ایک طویل مدت تک ایسا کرنے کے بعد اُس کے تھاٹ پراسیس میں خودکاریت کیوں نہ آجائے گی؟ سوچوں میں آجانے والی یہ خودکاریت کسی بہت پرانے اور ماہر ڈرائیور کی طرح اس حد تک مضبوط اور ہمہ وقت فعّال ہوسکتی ہے کہ ہم بعض اوقات اس خودکار فکر عمل کو اس کے الہام، کشف یا وحی پر محمول کرلیتے ہیں کیونکہ اس کی متفکرہ اور متخیلہ کی بے پناہ مشق نے اسے اب کار کے ڈرائیور کی طرح آٹومیٹک بنادیا ہے۔ یہاں یہ بتادینا ضروری ہے کہ ایسی وحی جو فہمِ حقیقی کے اس مقام پر وحی سمجھی جارہی ہے ۔۔۔۔ قطعاً وہ وحی نہیں ہوسکتی جس کا تعلق شعورِ نبوت کے ساتھ ہے۔ اور جس پر میں کسی اور مضمون میں اقبال کے ریفرنس سے لکھنا چاہتاہوں۔
اُوپر جو مراحل میں نے بیان کیے انہیں ہم چاہیں تو علم الیقیں، عین الیقیں اور حق القیں کی اصطلاحات کی روشنی میں بھی سمجھ سکتے ہیں۔ سو مذکورہ پیرے میں متخیلہ کی بے پناہ مشق سے حاصل ہونے والا حق الیقیں اس لیے بھی وحی نہیں ہے کہ یہ عین الیقیں کے بعد حاصل ہوتاہے جبکہ رسول کی وحی اکستاب کا نتیجہ نہ ہونے کی وجہ سے اپنی ماہیت میں مختلف ہے۔
نظر کا میرے دِل سے رابطہ ہے
مرا عین الیقیں، حق الیقیں ہے
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“