میرا ادبی مرشد!!
آج میں کچھ نہیں بولوں گا!
آج میرا ادبی مرشد بولے گا!!
میرا ادبی مرشد جس نے وصیعت کی تھی کہ’’ میری قبر کے کتبہ پر صرف یہ الفاظ لکھوائے جائیں: مجھے کوئی امید نہیں۔ مجھے کوئی ڈر نہیں۔ میں آزاد ہوں‘‘
میرا ادبی مرشد جس نے لکھا ہے ’’وہ کچھ کرو۔ جو تم نہیں کرسکتے‘‘
میرا ادبی مرشد جو کہتا تھا ’’دوست نہیں ساتھی کی تلاش کرو‘‘
میرا ادبی مرشد جس نے بتایا تھا کہ ’’مجھے صرف اتنا معلوم ہے کہ میں زخموں سے چور ہوں مگر پھر بھی اپنے پیروں پر کھڑا ہوں‘‘
میرا ادبی مرشد جس نے کہا تھا کہ ’’منظر سے پہلے نظر کو تبدیل کرو‘‘
میرا ادبی مرشد جس کا اصرار تھا کہ ’’بہرے شخص کا در کھٹ کھٹاتے رہو‘‘
میرا ادبی مرشد جس نے بتایا تھا کہ ’’میں نے بادام کے درخت سے کہا : دوست !مجھے خدا کے بارے میں کچھ بتاؤ۔ اور بادام کا درخت پھولوں سے بھر گیا‘‘
میرے ادبی مرشد کو باپ سے زیادہ اپنے دادا سے محبت تھی۔
اس کا وہ دادا جس کے بارے میں اس نے اپنے دادی سے پوچھا تھا کہ ’’میرا دادا کیا کرتے تھے؟‘‘
اس کی دادی نے اسے بتایا تھا کہ ’’تمہارے دادا دو کام کیا کرتے تھے۔ ایک جنگ اور دوسرا جنگ کا انتظار‘‘
اس نے اپنے دادی سے پوچھا تھا کہ ’’میرے دادا کے پاس کیا تھا؟‘‘
اس کی دادی نے اسے بتایا تھا کہ ’’تمہارے دادا کے پاس دو چیزیں تھیں۔ ایک بندوق اور ایک صندوق‘‘
میرے ادبی مرشد سے اپنے دادی سے پوچھا تھا کہ ’’ صندوق میں کیا تھا؟‘‘
اس کی دادی نے اسے بتایا تھا کہ ’’اس صندوق میں کچھ کتابیں اور ایک ریشمی بالوں کی لٹ تھی‘‘
اس نے اپنی دادی سے پوچھا تھا کہ ’’جب جنگ نہیں ہوتی تھی۔ تب میرے دادا کیا کرتے تھے؟‘‘
اس کی دادی نے اسے بتایا تھا کہ ’’وہ صحن میں کرسی ڈال کر بیٹھے رہتے۔ پائپ پیتے رہتے۔ اور دور پہاڑوں کو دیکھتے رہتے‘‘
’’اور جب جنگ شروع ہوجاتی تب کیا کرتے‘‘
اس کی دادی نے اسے بتایا ’’کسی سے بات نہیں کرتے۔ بندوق اٹھاتے اور گھوڑے پر بیٹھتے اور چلے جاتے‘‘
میرے ادبی مرشد کو پاگل پن سے بہت محبت تھی ۔ وہ اکثر کہتے رہتے تھے کہ ’’صرف ایک دیوانہ ہی دنیا کو تبدیل کرسکتا ہے‘‘
میرے ادبی مرشد نے اپنے نقادوں لیے صرف یہ نوٹ چھوڑا تھا کہ ’’میری روح ایک چیخ ہے اور میری تحریر اس چیخ پر تبصرہ!!‘‘
میرا ادبی مرشد ایک ناول نگار تھا ۔ اس نے بہت سارے ناول لکھے۔ اس کے ایک ناول کا نام تھا ’’آزادی اور موت‘‘
اس کے دوسرے ناول کا نام تھا ’’یسوع پھر صلیب پر‘‘
اس کے تیسرے ناول کا نام تھا ’’رپورٹ ٹو گریکو‘‘
گریکو اس کا دیس تھا۔ اس کا آشیانہ۔ ایک ایسا آشیانہ جس کے بارے میں اس نے لکھا ہے ’’عقاب آشیانے نہیں بناتے۔ مگر میں نے تمہیں دیکھا اور میں اس طرح چیخا جس طرح ایک عقاب اپنے پرانے نشیمن کو دیکھ کر چیختا ہے‘‘
میرا ادبی مرشد بہت اداس رہتا تھا۔ اس کو اس یونان کی تلاش تھی جس میں ہومر نے ہیلن کو دیکھا تھا۔
میرا ادبی مرشد ایک عورت سے ملا اور اس سے کہا ’’کیا تم میری ہیلن بن سکتی ہو؟‘‘
میرا ادبی مرشد صرف قلمکار تھا۔ مگر اس کو بندوق سے بہت محبت تھی۔ اس نے اپنے ایک ناول میں اپنے ایک کردار کے بارے میں لکھا ہے کہ ’’وہ گولی سے فاصلہ ناپتا تھا۔ بارود اس کے لیے نئی چیز نہیں تھا‘‘
میں اپنے ادبی مرشد کے بارے میں ابھی تک یہ نہیں طعہ کرپایا کہ ’’اس کے دماغ میں ایک دل تھا یا اس کے دل میں ایک دماغ!!؟؟‘‘
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔