میرا پچیس سال پرانا خط
اور
حامد برگی صاحب کا ایک نایاب تبصرہ
ایبٹ آباد میں مقیم اور وفاقی اردو یونیورسٹی اسلام آباد کی ریسرچ اسکالر(ایم فل) نازیہ خلیل عباسی اپنے تحقیقی کام کے سلسلہ میں اسلام آباد گئی ہوئی تھیں۔وہیں کہیں انہوں نے سستی اور سیکنڈ ہینڈ کتابوں کی کسی دکان سے چند کتابیں خریدیں۔اتفاق سے ان میں میرا پہلا شعری مجموعہ’’سلگتے خواب‘‘ بھی شامل تھا۔مزید اتفاق یہ ہوا کہ اس کتاب کے اندر سے تین اوراق برآمد ہوئے۔ایک میرا خط بنام حامد برگی مورخہ ۸؍نومبر۱۹۹۱ء۔اورباقی کے دو اوراق پر حامد برگی صاحب کا میری کتاب پر انگریزی میں لکھا ہوا تبصرہ ہے۔
میری خواہش پر حامد برگی نے یہ تبصرہ لکھ تو لیا لیکن لگتا ہے کہ ’’بوجوہ‘‘انہوں نے یہ تبصرہ شائع نہیں کرایا۔میں ان کی ہچکچاہٹ کی وجہ کو بخوبی سمجھ سکتا ہوں۔بلکہ میرے خط میں بین السطور اس کی طرف اشارا بھی موجود تھا۔ انہوں نے تبصرہ بڑے خلوص کے ساتھ لکھا تھاسو اللہ تعالیٰ نے کرم کیا اورپچیس سال کے بعد اسے مجھ تک پہنچا دیا۔یہ تبصرہ حامد برگی صاحب کے ہاتھ سے لکھا ہوا ہے اور اتنا صاف ہے کہ آسانی سے پڑھا جا سکتا ہے۔نازیہ خلیل عباسی کے مطابق ’’سلگتے خواب‘‘کے بعض اشعار کے ساتھ حامد برگی صاحب نے کچی پنسل سے چٹکلے نما کمنٹ بھی لکھے ہوئے ہیں۔مجھے امید ہے کہ نازیہ خلیل عباسی اپنی اس دریافت کو ایک تحقیقی مضمون کی صورت میں پیش کرسکیں گی اوراس میں ان چٹکلے نما کمنٹس کو بھی شامل کریں گی۔
حامد برگی کا اصل نام حامد المحامد تھا۔آپ اسلام آباد میں پاک نیوی کے ہیڈ آفس میں سول ملازمت کرتے تھے۔آپ مشرقی پاکستان کے ان معدودے چند بنگالیوں میں سے تھے جنہوں نے بنگلہ دیش میں جانے کی بجائے پاکستان میں رہنے کو ترجیح دی۔
ایک ہلکی سی وضاحت:
سلگتے خواب کا ترجمہ Burning Dreams کیا گیا ہے،
میرے خیال میں اسے Smouldering Dreams ہونا چاہیے تھا۔
بہرحال دلچسپی رکھنے والے احباب کی خدمت میں پچیس سال پرانااپنا خط اورحامد برگی صاحب کانایاب تبصرہ پیش کر رہا ہوں۔
حیدرقریشی
(جرمنی سے)