پنڈت میلا رام وفا : ادیب، شاعر ماہر عروض ، ناول نویس، فلمی گیت نگار، صحافی، اور انھیں پنجاب کا "راج کوی" بھی کہا جاتا ھے۔
* ان کی پیدائش 30 جنوری 1895 میں سیالکوٹ( پنجاب، پاکستان ) کے ایک گاوں "دیپوکے" میں ہوئی۔
* میلا رام وفا کی کا انتقال انیس ستمبر 1980 میں جالندھر ، بھارت میں ھوا۔
۔بچپن میں گاؤں میں مویشی چرانےجایا کرتے تھے۔كئی اخباروں کےمدیرہوئے،نیشنل کالج لاہور میں اردو فارسی کےدرس و تدریس کافریضہ انجام دیا۔۔ شعری مجموعےسوزوطن اورسنگ میل کےعلاوہ چاندسفرکا(ناول)ان کی اہم کتابیں ہیں۔ بڑے بھائی سنت رام بھی شاعرتھےاورشوق تخلص کرتے تھے۔ ٹی آررینا کی کتاب پنڈت میلہ رام وفا حیات وخدمات،انجمن ترقی اردو(ہند) سے2011 میں چھپ چکی ہے۔فلم پگلی(1943)اورراگنی(1945)کے نغمے انہی کے لکھے ہوئے ہیں۔ بارہ سال کی عمرمیں شادی ہوئی۔17سال کی عمرمیں شعر کہنا شروع کیا،پنڈت راج نارائن ارمان دہلوی کے شاگرد ہوئے۔ارمان داغ دہلوی کے شاگررھے۔ اردوکےمشہورومعروف رسالہ مخزن کے مدیررہےاورلالہ لاجپت رائے کے اردواخباروندے ماترم کی ادارت بھی کی۔ مدن موہن مالوی کے اخبارات میں بھی کام کیا۔ ویربھارت میں جنگ کا رنگ کے عنوان سے کالم لکھتے تھے ۔ تقسیم ہند کے بعد میلہ صاحب مستقل جائے سکونت کی تلاش میں معہ اہل و عیال لکھنو چلے گئے، چار پانچ سال وہاں قیام کیا۔ وہاں ان کا دل نہ لگا اور واپس پنجاب چلے آئے۔
1944 میں اوپندر ناتھ اشک کے لاھور سے ممبئی جانے سے قبل انھوں نے اشک صاحب سے اردو ادب کی تربیت لی اور رموز سیکھے۔ میلہ رام وفا پیدائشی شاعر تھے وہ علم عروض کے ماہر ہی نہیں تھے بلکہ شعری مزاج اور اس کی لسانی جمالیات سے خوب تر واقف تھے۔ وہ غیر مترنم بحروں میں بے وزن نہیں لگتے تھے۔ ان کی شاعری عروض سے پیدا نہیں ہوئی بلکہ عروض ان کی شاعری سے جنم لیتا ہے۔ میلا رام وفا کا ناقدانہ ذہن بھی بہت زرخیز تھا۔ ان کی شعر فہمی بہت عمدہ تھی۔ پریم ضیائی نےروزنامہ پردیپ میں لکھا ہے" ان کی ادبی کسوٹی اتنی صحیح ہے کہ بڑے بڑے استاوں کی فورا نا کامیاں نمایا ں ہو جاتی ہیں"۔ وفا صاحب نے غالب، ذوق، مومن اور داغ جیسے اساتذہ کی غزلوں پر بھی دلکش و لطیف غزلیات لہیں جو کسی طور پر کم نہیں۔ مومن کی شعری فضا میں ان کا یہ شعر دیکھین۔:
*کہنے کو تو اپنے' ہے وفا آپ بھی قائل
کہنے کو تو یہ کہتا ہے کی میں کچھ نہیں کہتا
* میلا رام وفا نے1943 میں ایک فلم " پگلی' میں قمر جلال آبادی کے ساتھ گیت لکھے۔ ان کے لکھے ھوئے گانوں کو شمشاد بیگم نے گایا تھا اور اپنے زمانے کے مایہ ناز موسیقاروں جھنڈے خان، گووند رام، امیر علی اور رشید عطرے نے اس کی موسیقی ترتیب دی۔ اس فلم کی نمائش لاھور کے " رٹز" سینما میں ھوئی تھی۔ فلم " پگلی" کے تین گانوں کے مکھٹرے یہ تھے:
۔۔۔۔۔ پئے جا۔۔۔ پئے جا ۔۔۔۔۔۔۔ کہو روج (روز) لوٹ کر جوانی لے جا
۔۔۔۔۔ حسن کی یہ مہربانی بھر کہاں ۔۔۔۔۔ عشق کی یہ کامرانی بھر کہاں
۔۔۔۔ او میں آیا ۔۔۔۔ میں آیا میں آیا نہ جائیو ۔۔۔۔۔
* ان کے دوستوں میں حفیظ جالندھری، صوفی تبسم، دین محمد تاثیر، موہن سنگھ دیوانہ، عبد الحمید سالک، ظفر علی خان، امتیاز علی تاج، ہری چند اختر، یگانہ چنگیزی کنہیا لال کپور، فکر توسنوی اور گوپال متل شمل ہیں۔
* لاھور سے شائع ھونے والے اخبار " بھارت" کے مدیر رھے۔
* میلا رام وفا کے تصنیفی اور مولفی کارناموں کی ایک طویل فہرست ھے:
کِتابیات
== سُرورِ رفتہ، امیر چند بہار،پٹنہ، خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری، 1998ء، ص 256
رسائل
== اُردو مرکز لاہور اور علامہ اقبال کی ایک نایاب نثری تحریر، انور جمال سہ ماہی "ادبیات" اسلام آباد(1) ،4-، اپریل تا جون 1988ء، ص 137- 129
رُوحِ نظم حصہ دوم ،مولانا تاجور نجیب آبادی،پنڈت میلا رام وفا،مُرتبین،لاہور،انجمن تعمیر ادب،ت ن، 190 ص (شعری انتخاب)
• رُرحِ نظم حصہ اول ، مولانا تاجور نجیب آبادی،پنڈت میلا رام وفا،مُرتبین،لاہور،انجمن تعمیرِ ادب،ت ن،165 ص
۔ ہدیہ عقیدت، شاعر حریت راج کوئی پمڈت میلا رام صاحب وفا، پیچ کردہ، جشن وفا تقریبات کمیٹی، لکھنو،
(شعری انتخاب)
• تاریخی افسانے جلد اول ، ،لاہور،پجند پبلشنگ ہاؤس،بار دوم 1939ء، 156 ص (10 افسانے) مُرتبہ
• چاند کا سفر حصہ سوم ، ،لاھور،پنچ حذ پبلشنگ ہاؤس،1939ء، (ناول)
• چاند کا سفر حصہ دوم ، لاھور،پنچ خذ پبلشنگ ہاؤس،1939ء، (ناول)
چاند کا سفر حصہ اول ، لاھور،پنچ حذ پبلشنگ ہاؤس،1939ء، (ناول)
• سوزِ وطن ، لاھور،گیلانی پریس،1941ء، 100 ص (شاعری)مرتب پنڈت سورج پرکاش نقاد
• سری رام چندر جی
فہرست صدیق بُک ڈپو لکھنؤ صفحہ 298۔۔۔ ( بشکریہ: میاں محمد سعید، "بایو ببلو گرافی)۔
میلا رام وفا ایک سیکولر ، انسان دوست ادیب و شاعر تھے۔تمام مذاھب کا احترام کرتے تھے۔ وہ اردو کے سچے عاشق تھے۔ ان کی مولانا ظفر علی خان سے گہری دوستی تھی حالانکہ ظفر علی خان اور میلا رام وفا کے درمیان بہت گہرے سیاسی اور نظریاتی اختلافات بھی تھے۔ وفا صاحب کا تا حیات ظفر علی خان سے احترام اور محبت کارشتہ کم نہیں ھوا۔ ظفر علی خان ان کی شاعری کو پسند ھی نہیں کیا کرتے تھے بلکہ ان کی شاعری سے سے متاثر بھی رھے۔ وہ اردو کے آزمودہ شعرا کو وفا صاحب کا یہ شعر سنایا کر کرتے تھے۔
توڑتا ھے شاعری کی ٹانگ کیوں اے بے ہنر !
جا سلیقہ شاعری کا سیکھ میلا رام سے
پدم بھوشن نواب جعفر علی خان اثر مرحوم نے ۱۹۶۱ میں جشن وفا لدھیانہ کے عظیم الشان جلسے میں میلہ رام وفا پر یہ شعر بھجوایا تھا:
* فارسی میں جو رتبہ حافظ
وہی اردو میں ہے مقام وفا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
علامہ تاجور نجیب آبادی مرحوم نے ادبی ماہ نامے " مخزن" میں لکھا ہے " وفا صاحب صف اول کے شاعروں میں بہتوں سے آگے ہیں۔ وہ کسی کے پیچھے نہیں۔ اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ اقبال کے بعد پنجاب میں کونسا شاعر ہے تو میں کہوں گا،پنڈت میلہ رام وفا " ۔۔۔۔۔۔۔
ان کے دوست قمر جلال آبادی نے انکے لیے ایک نظم لکھی اس کا ایک شعر یہ ہے
* میں بھی مولانا ظفر کا ہم نواں ہوں اے قمر
شعر کینے کا سلیقہ سیکھ میلا رام سے
میلا رام وفا انگریز سامراج کے سخت خلاف تھے۔ بحیثیت صحافی انھوں نے برطانوی حکومت کے خلاف اخبارات میں شدید قسم کے مضامین لکھے۔ نثر کے علاوہ انھوں نے انگریز حکومت کے خلاف ایک سخت اور باغیانیہ نظم " اے فرنگی" لکھی۔ تو برطانوی سرکار نے ان کو گرفتار کرکے مقدمہ چلایا اور دو سال کی قید بامشقت کی سزا بھی سنائی گئی ۔ اس نظم کے چند اشعار سنیے:
اے فرنگی کبھی سوچا ھے یہ دل تو نے
اور یہ سوچ کے کچھ تجھ کو حیا بھی آئی
**
تیرے قدموں سے لگی آئی غلامی ظالم
ساتھ ھی اس کے غریبوں کی بلا بھی آئی
**
تیری سنگینین چمکنے لگیں سڑکوں پہ جوں ھی
لب پہ مظلوموں کی فریاد زرا بھی آئی
اسی سبب میلہ رام وفا کی کتاب " " سدا بہار پھول" کے دیباچے میں دیس راج سوہل منکر نے انھیں " شاعر حریت" کہا ہے
***
وفا کی شاعری میں انسانی منافقت کے بہت سے روپ بہروپ سامنے آتے ہں۔ انھیں انسان کے چہرے پر انسان کے نقوش نہیں ملتے وہ اپنے رقیب سے بھی شکوہ نہیں کرتے ہیں کی اسے میرے محبوب کا خیال رھتا ھے اور یہی خیال ان کو اندر سے مار دیتا ھے۔ اور ان کی عاشقانہ جدلیات عقلیت سے نبررآزما ہوکر رنجیدہ اور اداس ھوجاتی ہے۔ جو ایک رومانی فہم اور بے رنگ آسمان کے طرح ان پر مسلط ھے یہ ان کی رومانی واردات کو بکھیر دیتی ہے لہذا وہ واہموں کے مجسمے تراش کر اسے اپنے ہاتھوں سے پاش پاش بھی کردیتے ہیں اور یہ پسپایت کا عمل حقیقت کا عرفان تو نہیں بنتا لیکن ان کے یہاں انکے قریبی لوگوں نے ھی ان کو ریزہ ریزہ کیا کیونکہ ان کی واھماتی حقیقت باہر کی اجتماعی نفسیات اور عمرانیات اور اس کے میکانی مزاج سے انسلاک نہیں کرپاتی۔
ترا ھی خیال ان کو آٹھوں پہر ھے
مجھے میرے ہی ھم خیالوں نے مارا
ان کے یہاں موت کی اپنی لذت ہے۔ میلا رام فا کے یہاں اس لذت میں کوئی گھٹن نہیں ھے ۔اور موت کو زندگی کی آگاہی تصور کرتے ہیں۔ وہ فنا اس طور پر چاہتے ہیں کہ انکا غم و الم ار اداسی سے نجات کے لیے وہ موت کے خواہا ں ہیں۔ یہی ان کی شاعرانہ فکر ھے۔ اس میں جمالیات بھی پوشیدہ ہے۔موت ان کے لیے غم کا علاج ہے مگر موت اتنی آسانی سے نہیں آتی اور اس عمل میں ان کے ساتھ بڑے تکلیف دے حادثات کا سلسلہ جڑا ھوا ھے۔ جو اصل میں ان کی زندگی اور موت کے درمیاں ایک ایسا مکالمہ ہے۔ جس مین زخم بھی ہیں، انبساط شوخیاں بھی ہیں۔ ان کی موت میں شفاعت نہیں ہے اسی سبب ان کے سسکتے شاعرانہ لہجے میں جو احساس ملتا ھے جو قاری کو خوف زدہ کردیتا ھے۔ فانی بدایونی کی طرح وہ موت کو نہیں بلاتے میلہ رام وفا کی یاسیت میں وہ موت کے تصور کے ساتھ زندگی کی مسکراتی اٹکھیلیاں کرتے ہیں۔
موت علاج غم تو ہے موت کا آنا سہل نہیں
جان سے جان سہل سہی جان کا جانا سہل نہیں
میلا رام وفا کی شاعری میں تہنائی کا عنصر گہرا ہے جو زندگی کی معروضیت کا پھسپھسا پن اور اس کے رائج مفاہیم میں پیچیدگی کے سبب الجھ کر انھیں تذبذب کا شکار کردیتے ہیں۔ اور یہی کیفیت ان کے تخیل میں نئے قیاسی تجربے سر اٹھاتے ہیں۔ یوں ہر جامد چیز بھی مصنوعی اور میکانی طور پر حرکت میں لائی جاتی ھے۔ ان کی شعری جمالیات میں عمرانیاتی نوعیت کی نقش و نگاری اور علامتی سطح پر انسان کی خوش گوار زندگی کا التباس بھی پوشیدہ ھے۔
میلا رام وفا کی ایک غزل ملاخطہ کریں:
*** آنکھیں بھی دیکھتی ہیں زمانہ کے رنگ ڈھنگ
دل بھی سمجھ رہا ہے زمانہ بدل گیا
بدلا نہ تھا زمانہ اگر تم نہ بدلے تھے
جب تم بدل گئے تو زمانہ بدل گیا
ان کو دلائیں یاد جب اگلی عنایتیں
وہ بھی یہ کہہ اٹھے کہ زمانہ بدل گیا
بس ایک اے وفاؔ مرے مٹنے کی دیر تھی
مجھ کو مٹا چکا تو زمانہ بدل گیا ***
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پنڈت میلہ رام وفاؔ
بیگانہ وار ہم سے یگانہ بدل گیا
کیسی چلی ہوا کہ زمانہ بدل گیا
آنکھیں بھی دیکھتی ہیں زمانہ کے رنگ ڈھنگ
دل بھی سمجھ رہا ہے زمانہ بدل گیا
بدلا نہ تھا زمانہ اگر تم نہ بدلے تھے
جب تم بدل گئے تو زمانہ بدل گیا
ان کو دلائیں یاد جب اگلی عنایتیں
وہ بھی یہ کہہ اٹھے کہ زمانہ بدل گیا
بس ایک اے وفاؔ مرے مٹنے کی دیر تھی
مجھ کو مٹا چکا تو زمانہ بدل گیا