کب تک ظلم کی داستان لکھتے رہیں گے کب تک جبر و تشدد کے مناظر آنکھوں سے دیکھتے رہیں گے، کب تک انسانیت سوزی کے چرچے دیکھتے سنتے رہیں گے، کب تک انصاف کے قتل کا مشاہدہ کرتے رہیں گے؟ کب تک جرائم کو یوں پنپتا ہوا چھوڑتے رہیں گے؟ کب تک یوں بے حس بنے بیٹھیں رہیں گے اور خون چکاں مناظر کا تماشا دیکھتے رہیں گے ؟ کب تک زبان خاموش رکھیں گے؟ کب تک ہماری ہونٹوں پر خاموشی رہے گی؟ کب تک ہم اپنے ہی میں دست و گریباں رہیں گے؟ کب تک مسلکی جھگڑوں میں پڑ کر غلامی کی زندگی بسر کرتے رہیں گے؟ کب تک حکومت کی ہر ہر ظلم پر چپی سادھے رہیں گے؟ کب تک خون کے آنسوں بہاتے رہیں گے؟ کب تک یوں جانوں کا ضیاع دیکھتے رہیں گے؟ کب تک ہم انسانی بھیڑیوں کا شکار ہوتے رہیں گے؟ کب تک ڈر اور خوف سے تھر تھر کانپتے رہیں گے؟ کب تک جواں سال بیٹیو کی بیوگی دیکھتے رہیں گے؟ کب تک گھر اور خاندان کا اجڑنا دیکھتے رہیں گے؟ کب تک مظلوموں کی آہ و فغاں سنتے رہیں گے اور بے حس بنے رہیں گے؟ کب تک خوش فہمی کا شکار ہوتے رہیں گے؟ کب تک چند ٹکوں کی خاطر دوسروں کے غلام بنے رہیں گے؟ کب تک ناز و نعم اور عیش کدوں سے ہمیں فرصت ملے گی تو کچھ کرنے کا سوچیں گے؟ کب تک ذاتی مفاد کیلئے دوسروں کو دھوکہ دیتے رہیں گے؟ کب تک ہماری عزتیں پامال ہوتی رہیں گی؟ کب تک ہم پر جھوٹے الزامات لگائے جاتے رہیں گے؟ کب تک ذرا سی تلخ کلامی پر ہم پر مقدمات چلائے جاتے رہیں گے؟ اور کب تک یوں زنجیروں میں جکڑے ہوئے رہیں گے؟ آخر ہم بھی اسی دھرتی کے رہنے والے ہیں اور ہمارا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا دوسروں کا ہم بھی یہاں ایک مدت تک جینے کیلئے آئے ہیں اور آزادی کے ساتھ جینا ہمارا حق ہے تو پھر ہم ذہنی طور پر دوسرے کی غلامی کیوں قبول کر رہے ہیں، آج دنیا ہمارے مخالف ہی اور ہمارے خلاف طرح طرح کی سازشیں رچی جارہی ہیں ہمارے وجود کو مٹانے کے لئے طرح طرح کے حربے استعمال کیے جارہے ہیں اور ہر چھوٹے بڑے معاملات میں ہمیں بلی کا بکرا بنا کر ہمارے وجود کو تہس نہس کردیا جاتا ہے ، ہماری خوش فہمی یاپھر بے حسی کا یہ عالم کہ اپنے ہی میں مست و مگن ہیں بلکہ یہاں بھی سکون نہیں طرح طرح کے مسلکی اختلافات کو پال کر اور اس کو ہوا دیکر آپسی جھگڑے کا شکار ہیں، ایک فرد چیختا چلاتا ہے اور ہمارے خلاف کئے جانے والے منصوبوں سے آگاہ کرتا ہے لیکن ہمارے کان تو سنتے ہیں لیکن دل بے حسی کا شکار ہے، نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس شخص کو بھی جیل میں ڈال دیا جاتا ہے، آئے دن ہمارے اپنے ملک میں ہمارے جوانوں کا شکار کیا جاتا ہے اسے اس کی زندگی چھین لی جاتی ہے اور سرعام پیٹ پیٹ کر ہمیشہ کیلئے دنیا سے چھٹی کرادی جاتی ہے جب اس طرح کے واردات ہمارے سامنے آتے ہیں تو ہمارے پاس سوائے اس کے عام کرنے کے اور خبروں کے سلسلہ میں اپنی قابلیت دکھانے کے اور کچھ نہیں رہ جاتا ہے ، ابھی دو دن پہلے کا واقعہ ہے کہ اتر پردیش کے بریلی میں ایک عبد الباسط نام کا جوان مابلنچنگ کا شکار ہو جاتا ہے غنڈے اس پر جھوٹے چوری کا شکار میں پھنسا کر پیٹ پیٹ کر اس کو نیم جان کردیا جاتا ہے اور پھر ستم بالاے ستم یہ کہ پولیس موقع پر پہنچتی ہے تو اس عبد الباسط نامی شخص کو بجائے اسپتال بھیجنے کے رکشہ پر بٹھا کر اس کے گھر روزانہ کردیتی ہے اور مجرموں کو گرفتار کرنے کے بجائے معاملہ کو رفع دفع کردیتی ہے ادھر عبد الباسط کی سانس اکھڑنے لگتی ہے اور راستہ ہی میں دم توڑ دیتا ہے، یہ کوئی نیا واقعہ نہیں اس طرح کے واردات سیکنڑوں ہو چکے ہیں اور اس پر حکومت کی خاموشی بڑا فکر انگیز مرحلہ ہے۔ میں بار بار لکھ چکا ہوں کہ ہم اتنے بے حسی کا شکار ہیں کہ ہمیں اپنا حق مانگنا نہیں آتا ہمیں اپنے حقوق کے مطالبے سے ڈر لگتا ہے تو کہاں ہم دوسروں کی زندگی کیلئے کچھ کرسکیں گے،
خدا را بے حسی کو توڑئے کچھ کرگزرنے کی کوشش کریں ہر بار ہم ناانصافی کا شکار ہوتے ہیں اس کی سب سے بڑی وجہ ہماری خاموشی ہے ہم بولنا کیوں نہیں سیکھتے ، ہم آواز اٹھانا کیوں نہیں جانتے ہم ظلم کے آگے گھنٹے کیوں ٹیکتے ہیں اگر ظلم کے خلاف لکھ نہیں سکتے کم از کم بولنا تو سیکھنا ہوگا اگر ہماری زبان خاموش رہی تو کچھ بعید نہیں ہم اپنا بچا کچھا حقوق بھی کھو دیں گے یاد رکھئے دنیا اسی قوم کو یاد رکھتی ہے جو بولنا جانتی ہے،
میں زندہ ہوں اس لئے کہ میں بول رہا ہوں
دنیا کسی گونگے کی کہانی نہیں لکھتی،