'میں وہاں شادی نہیں کرنا چاہتی۔۔۔'
'ہیں؟۔۔ کیوں؟۔۔ متمول گھرانا ہے، تو پھر کیوں نہیں؟'
'تو کیا کہیں شادی کرنے کے لیے، یہی بہت ہے، کہ وہ وہاں روپے پیسے کی ریل پیل ہے؟'
'جی؟۔۔ ہاں!۔۔ نہیں۔۔ ایسا تو نہیں کہا میں نے۔۔۔ اچھا یہ بتاو، لڑکے میں کیا خرابی ہے؟'
'کوئی خرابی نہیں۔'
'تو پھر؟'
'تو پھر کیا؟۔۔ خرابی اور خوبیاں تلاش کر کے کسی کو پسند ناپسند کیا جاتا ہے؟'
'تم کسی اور کو پسند کرتی ہو؟'
'جھنجھلا جاتی ہوں، ایسے سوالوں سے۔۔۔ اس کا یہ مطلب کیسے ہوا، کہ مجھے وہ پسند نہیں، تو کوئی اور اچھا لگتا ہے؟!'
'یہ بھی ٹھیک کہا تم نے۔۔ اچھا یہ کہو، جب تم وہاں شادی نہیں کرنا چاہتیں، تو منگنی کیوں ہونے دی۔۔ انکار کیوں نہ کیا؟'
'کیا تھا، انکار۔۔۔ آپ ہی کی طرح سوال کیا گیا، کہ کیا میں کسی اور کو پسند کرتی ہوں؟۔'
'ہوں۔۔۔ اور کچھ؟'
'کہا گیا، کہ جب کسی اور کو پسند نہیں کرتی، تو انکار کی مضبوط وجہ لاو۔'
'مضبوط وجہ؟۔۔ پھر؟'
'سب نے کہا، لڑکیاں ایسے ہی کرتی ہیں۔ لڑکیوں کے انکار کو بھی اقرار ہی تسلیم کیا جاتا ہے۔'
'ہوں۔۔۔ تو اب؟۔۔ اب کیا کرو گی؟'
وہی۔۔ جو میرے ماں باپ چاہتے ہیں۔۔ وہیں شادی کروں گی۔'
'تم انکار کر دو۔'
'کر چکی نا۔۔ اور کیسے کرتے ہیں، انکار؟۔۔ چھوڑئیے۔۔ کوئی فائدہ نہیں ان باتوں کا۔'
'میں تمھارا ساتھ دوں گا۔۔ میں بات کروں گا، تمھارے ماں باپ سے۔۔'
'کیوں؟۔۔ نہیں آپ ایسا نہیں کریں گے۔۔۔ سبھی اس بات کا کچھ اور مطلب لیں گے۔'
'لینے دو، جو چاہے اپنا مطلب نکالے۔۔۔ میں آواز اٹھاوں گا، تمھارے لیے۔'
'کچھ جھیلیں ایسی کثیف ہوتی ہیں، کہ جن میں آوازوں کے کنکر ایک بھی لہر پیدا کیے بنا ڈوب جاتے ہیں۔' پردہ گرتا ہے۔
پردہ ہٹتا ہے؛ یہ شاہ عالمی بازار لاہور کی گلیاں ہیں؛ وقت کے پردے کے پیچھے سے نمودار ہوتے، ایک مغل شہزادہ پکارتا چلا جاتا ہے۔
'صاحب عالم۔۔ کب تک شیخو جلال الدین اکبر کی نا انصافیاں برداشت کرتا رہے گا؟۔۔ کب تک انارکلی کو دیوار میں چنوایا جاتا رہے گا؟۔۔ میں کہتا ہوں، بس کرو۔۔ بس کرو۔
تماشائی کو استفسار کرنے پہ معلوم ہوتا ہے، کہ صدا لگانے والا بہروپیا ہے؛ بہروپیے کب کے فسانہ ہوے؛ یہ کوئی قافلے سے بچھڑا ہوگا۔۔۔ فیڈ آوٹ۔
فیڈ اِن؛ راہ رو سوتے سے جگ پڑا ہے؛ یہ راہوالی سے وزیر آباد کے راستے کا منظر ہے۔ سڑک کے دائیں بائیں مسکراتی ہوئی ہریالی کے بیچ میں کھکھلاتی ہوئی زردی۔ اس منظر کی شاہ عالمی بازار کی دید سے کوئی نسبت نہیں۔ ہری سرسوں کہ سنہری پھولوں پہ باز گشت اووَر لیپ ہوتی ہے۔۔۔ 'میں وہاں شادی نہیں کرنا چاہتی'۔۔۔ بس کرو صاحبِ عالم۔۔ بس کرو۔' ۔۔۔ میں اسے پسند نہیں کرتی، تو اس کا یہ کیسے مطلب ہوا، کہ میں کسی اور کو پسند کرتی ہوں۔؟۔۔۔۔ 'تمھارا کوئی سلیم نہیں ہے؟'۔۔۔ کب تک انارکلی کو دیواروں میں چنوایا جاتا رہے گا؟۔۔ کب تک؟'
'کٹ کٹ کٹ۔۔' بہروپیا چیختا ہے۔۔ کٹ۔۔'۔۔۔ یہاں بہروپیے کا آرڈر نہیں چلتا۔ ہدایت کار کا حکم مانا جاتا ہے؛ وہ جب تک پردہ گرانے کا نہیں کہے گا، یہ کھیل جاری ہے۔ تا قیامت۔۔۔ انارکلی آج بھی دیوار میں چنوائی جاتی ہے، جلال الدین اکبر ہو، کہ دل آرام؛ جودھا بائی ہو، یا سلیم، یا کہ نادرہ؛ کردار وہی ہیں، کہیں رشتے تو کہیں مقام بدل جاتے ہیں۔ نہیں بدلتا تو انجام نہیں بدلتا۔ بہروپیے کب کے فسانہ ہوے؛ اب آپ ہیں، یا ہم۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔