وہ 28 اگست 1963 کا دن تھا، جب ڈھائی لاکھ افراد مارچ کرتے ہوئے واشنگٹن کے لنکن میموریل پہنچے، اور امریکا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بدل گیامگر یہ تاریخی بدلاﺅ آج ہمارا موضوع نہیں۔
اُس روز امریکا نے وہ تحیرخیز تقریرسنی، جس کی گونج آج بھی سنائی دیتی ہے کہ اس روز مساوات کا علم بردار، نسلی امتیاز سے برسرپیکار، سیاہ فاموں کا عظیم لیڈرمارٹن لوتھر کنگ کلام کرتا تھا امتیازی قوانین کے خلاف آواز اٹھانے والا سیاہ فام پادری، جو خطابت میں اپنی مثال آپ تھا، اس روز اوج پر تھا۔ لاکھوں افراد دم سادھے اسے سنتے تھے۔ وہ تقریر ختم کرنے کو تھا کہ تب ایک گلوکارہ، جو اس کے نظریے کی حامی تھی، اس کے ساتھ ساتھ چلتی تھی، جس کا نام ماہالیا جیکسن تھا، چلائی:”مارٹن انھیں اپنے خواب کی بابت بتاﺅ!“وقت ٹھہر گیا کنگ نے تقریر کا مسودہ ایک سمت کھسکایا۔ اب ایک نادیدہ قوت بولتی تھی کہ وہ مقدس خواب بیان کرتا تھا۔ خواب، جو قدرت کی نعمت ہیں۔
خواب، جن کی بابت نثری نظم کے صاحب اسلوب شاعر احسن سلیم نے کہا تھا
آنکھوں میں اگر خواب نہ ہوتے
دنیا میں کہیں رات نہ ہوتی
تو کنگ اپنے خواب بیان کرتا تھا۔ اور مجمع، ششدر، مبہوت، اُسے سنتا تھا۔ ”میرا ایک خواب ہے“ نامی اس تقریر نے امریکا پر اَن مٹ نقوش چھوڑے۔ اس نے سیاہ فام مخالف سوچ میں دراڑ ڈالی، امتیازی قوانین میں تبدیلی کی راہ ہموار کی۔ ایک سروے کے مطابق یہ 20 ویں صدی کی بہترین امریکی تقریر تھی۔تو 28 اگست 1963کا دن مارٹن لوتھر کنگ کادن تھا۔ خوابوں کے اس مبلغ کو بااثر سفید فام اشرافیہ کی شدید مخالفت کے باوجود اگلے برس امن کے نوبیل انعام سے نوازا گیا کہ اُس نے اپنی جدوجہد سے امریکا کو بدل دیا تھا۔ اور اس بدلاﺅ کو تیز تر کرنے کے لیے 4 اپریل 1968کو، اپنی ایک اور یادگار تقریر I’ve Been to the Mountaintopکے اگلے ہی روز ،وہ ایک نسل پرست کی گولی کا نشانہ بن گیامگر ٹھہریے، ہماراموضوع4 اپریل 1968 کا دن نہیں، جب کنگ کا قتل ہوا تھا ۔ہم تو 28 اگست 1963کی بات کر رہا ہے، جب واشنگٹن میں ڈھائی لاکھ افراد جمع ہوئے۔ ان میں وہ شخص بھی موجود تھا، جو آج ہمارا موضوع ہے ایک شاعر، ایک گلوکار،ایک مصور، ایک سفید فام۔ (جی ہاں، اس روز کنگ کی تائید کے لیے لنکن میموریل میں60 ہزار سفید فام موجود تھے) وہ شخص بھی کنگ کے مانند مساوات کا حامی تھا کنگ کے مانند نسلی امتیاز کے خلاف تھا، اور ٹھیک کنگ کے مانند نوبیل انعام حاصل کرنے والا تھا
اس کا نام باب ڈلن تھا۔وہ ہی باب ڈلن،جس نے28 اگست 1963کو واشنگٹن کے مارچ میں اپنا لازوال گیت When the Ship Comes Inگایا، جس کے پس منظر میں تذلیل کا وہ احساس تھا، جب ایک مغرورہوٹل کلرک نے اُس کے لباس کو غیرمہذیب ٹھہرا کراُسے کمرہ دینے سے انکار کر دیا تھاہاں، اس روز باب ڈلن نے بھی پرفارم کیا ، جوکہا کرتا تھا؛ کوئی شے اتنی حتمی اور پائیدار نہیں، جتنا تبدیل کا عمل ۔ جو یقین رکھتا تھا کہ پیسہ بولتا نہیں، مغلظات بکتا ہے۔ جس کا اصرار تھا، اصلی ہیرو وہ، جو اپنی آزادی کے ساتھ اپنی ذمے داری کا بھی احساس رکھے۔جی ہاں، وہ ہی باب ڈلن آج ہمارا موضوع ہے، جو راک اینڈ رول موسیقی کے میدان میں اُس چوٹی پر کھڑا ہے، جہاں فقط ایلوس پریسلے، جان لینن اور مائیکل جیکسن ہی پہنچے۔ باب ڈلن، جس کے نغموں نے شعری اظہار کو نئی جہتوں سے متعارف کروایا۔ باب ڈلن،جسے 2016کے نوبیل انعام برائے ادب سے نوازا گیا ۔
میںمعذرت چاہتا ہوں، ابتدائیے میں مارٹن لوتھر کنگ کا تذکرہ ذرا طویل ہوگیا، مگر کیا کرتا، جب بھی اُس کانام آتا ہے،فرط جذ بات سے قلم سرشار ہوجاتا ہے،الفاظ خواب بُنے لگتے ہیں مگر اب ہم باب ڈلن کی بات کر رہے ہیں، جس نے آہ بھر کر کہا تھا: یہاں کوئی آزاد نہیں، یہاں تک کہ پرندے بھی آسمان کے قیدی ہیں۔جس نے جنگی جنون کے شکارحکمرانوں سے اپنے ایک گیت میں سوال کیا:”کیا تمھاری دولت تمھارے لیے معافی خرید سکتی ہے؟“
عام خیال ہے،اور کچھ ایسا غلط بھی نہیں کہ نوبیل انعام پانے والوں کی اکثریت کا تعلق فکشن کے میدان سے۔البتہ ہر زمانے میں ایسے فکشن نگار گزرے، جو اپنی عظمت اور اثر پذیری کے باوجوداس انعام کے حق دار نہیں سمجھے گئے، جیسے ہمارے عہد میں میلان کنڈیرا۔ کچھ ایساہی معاملہ چند شعرا کا بھی ، جیسے ادونیس۔ 2016 کے نوبیل انعام برائے ادب کے اعلان سے قبل 75 سالہ باب ڈیلن کا نام بھی اسی فہرست میں شامل تھا۔گو وہ کسی سوشلسٹ تنظیم سے منسلک نہیں رہا، مگر اس کے گیت امریکی سام راج اور نسل پرستی کے خلاف دودھاری تلوار تھے۔اُس کے گیتوں نے کبھی تودلوں کو محبت اور امن کے جذبے سے گرمایا، کبھی سینوں میں بغاوت کے شعلے بھڑکائے ۔
ٹائم میگزین اس کا شمار 20 ویں صدی کی 100 اثر آفریں شخصیات میں کرتا ہے، تو بے سبب نہیں۔ وہ ان گنے چنے گلوکاروں میں شامل ، جن کے البموں کی 25 کروڑ سے زاید کاپیاں فروخت ہوئیں۔اس کے گیت انسانی حقوق کی تحریکوں میں ترانے کی حیثیت اختیار کر گئے۔ اس کا نام ”راک اینڈ رول ہال آف فیم “میں شامل ہوا۔ 24 مئی 1941 کو امریکی ریاست من سوٹا کے ایک یہودی خاندان میں پیدا ہونے والے اس فن کار نے فوک میوزک سے کیریر کیا آغاز کیا، اور وہاں شہرت کے جھنڈے گاڑے۔ راک اینڈ رول کی دنیا میں آنے کے بعد اُس کی مزاحمتی شاعری نے امریکی موسیقی کا منظر بدل دیا۔اِس فیصلے پر فوک میوزک کے مداح کچھ ناراض بھی ہوئے، مگر سچ تو یہ ہے کہ وہ اسی آسمان کا ستارہ تھا۔ 1965 میں ریلیز ہونے گیت Like a Rolling Stone نے اسے سپراسٹار بن دیا۔جب ایک امریکی جریدے نے ”500 عظیم ترین گیتوں“ کی فہرست بنائی، تویہ گیت پہلے استھان پر تھاباب ڈلن فن میں مقصدیت کو مقدم جانے والے کلاکاروں کی صف میں جان لینن کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے۔ اس نے صرف قلم سے ناانصافی کے خلاف آواز نہیں اٹھائی، عملی طور پر مظاہروں میں شریک ہوا۔واشنگٹن کا مارچ فقط ایک مثال باب ڈیلن نے ہمیشہ کہا:” میں سب سے پہلے ایک شاعر، پھر ایک گلوکارہوں۔ میں شاعر ہی کی حیثیت سے زندہ رہوں گا، اور شاعر کی حیثیت سے مروں گا!“اچھاہے،آخر کار نوبیل انعام کی کمیٹی نے بھی اِس کا اعتراف کر لیا۔ آخر میں اُس کے یادگار گیتBlowing In The Windکا، سینئر صحافی، شاعر اور قلم کار، جناب احفاظ الرحمان کے قلم سے نکلا ترجمہ:
”ہوا کے دوش پر“
آدمی کتنی راہوں کی مسافت طے کرے کہ آپ اُسے آدمی کا نام دے سکیں؟
سفید فاختہ کتنے سمندروں پر سفر کرے ،جس کے بعد اسے
ریت پر سونے کی مہلت مل سکے؟
توپ کے گولوں کو کتنی بارپرواز کرنی چاہیے
کہ پھر ان پر ہمیشہ کے لیے پابندی عاید کر دی جائے؟
جواب دوستو، اس کا جواب
ہوا کے دوش پر تیر رہا ہے
۔۔۔۔۔۔۔