میں روؤف کلاسرہ کی اس لاجک کو سچ مانتا ہوں کہ کوئی کون ہوتا ہے کسی کو پنجابی سندھی, ملک اور راجپوت بنانے والا یہ تو اسکی اپنی مرضی ہے وہ جو مرضی بن جائے سید بنے سندھی بنے یا کوئی بنگالی اپنے آپکو بلوچی کلیم کرنے لگے یہ اسکی ذاتی خواہش پر منحصر ہے..
اب انکی کُچھ سنجیدہ باتوں پہ بات کرتے ہیں آپکو احمد شاہ ابدالی کے خلیفہ نواب مظفر خان اور اس سے پہلے کے کسی حکمران پر کوئی اعتراض نہیں کیوں کہ تاریخ گواہ ہے کہ وہ سارے حاکم تو کلاسرہ خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور ہزاروں سالوں سے اس دھرتی کے وسنیک تھے سچے زمین زادے تھے, انکی باہمی لڑائیوں, ملتان پر قبضہ کرتے وقت تو کبھی خون کا ایک قطرہ تک نہیں بہا یہ تو افغانستان سے آگے دور کہیں سے آکر ملتان پہ قبضہ کرنے والے رنجیت سنگھ کا قبضہ کرنا انکے کلاسرائی خون کو گوارہ نہیں… اپنے کالم کے ایک پیراگراف میں آپ لکھتے ہیں کہ "مجھے پنجابی اپنی بیگم اور میری بیگم کو سرائیکی مجھ سے سیکھنا پڑھی" اس بات پہ کوئی دوسری قوموں سے تعلق رکھنے والے ہنسیں یا نہ ہنسیں پنجاب واسیوں کی ہنسی ضرور نکلے گی کہ اپنے آپ کو علیحدگی پسند کہلوانے کے لئے آپ کس قسم کی دلیلیں دے رہے ہیں. میں بہاولنگر کا رہنے والا ہوں مجھے لاہور آ کر کبھی لاہور کی زبان سیکھنے کی ضرورت پیش آئی اور نہ بہاولپور جا کر وہاں کے لوگوں سے کُچھ سیکھنا پڑھا. حیرت ہے کلاسرہ صاحب جیسے محنتی طلبا پر!
دوسرا کون کمبخت یہ کہتا ہے کہ ملتان کل کی بات ہے ملتان ہزاروں سال پرانا شہر ہے اور اسکے باسیوں کی زبان بھی اتنی ہی پُرانی ہے مگر لاہور اور ملتان کی زبان الگ ہے اسے کس جواز کے تحت سچ مانا جائے زبان ایک فاصلے پر لحجے میں تبدیل ہوتی ہے نا کہ زبان میں. چلیں ہم فرض کرتے ہیں کہ ملتان اور لاہور کی زبان مختلف ہے تو پھر کلاسرہ صاحب یہ بھی بتا دیں کہ کیا وہاڑی اور ملتان کی زبان سو فیصد ایک ہے, کیا ملتان اور میانوالی کی زبان ایک ہے اب اگر یہاں پہ ایک ہی زبان کو لہجوں میں بانٹیں گے تو ملتان اور لاہور کے لہجے علیحدہ علیحدہ زبانیں کیسے بن گئیں کوئی لحجہ کسی کا لحجہ نہیں ہاں یہ ایک زبان کے لہجے ضرور ہیں اب اس زبان کو پنجابی کا نام دے لیں سرائیکی کہہ لیں یا ہندکو یہ ایک ہی زبان رہے گی جیسے پشتو ایک زبان ہے جیسے اردو ایک زبان ہے جیسے چینی ایک زبان ہے اور جیسے سندھی ایک زبان ہے.
اب میرا کلاسرہ صاحب سے ایک سوال ہے کہ جس لاجک کے تحت آپ سرائیکی کو علیحدہ زبان بنا کر صوبہ لینا چاہتے ہیں کیا اسی لاجک کے تحت بہاولنگر, پاکپتن وہاڑی, جھنگ, سرگودھا, چنیوٹ اور دوسرے درجن بھر اضلاع کے لوگوں کی پنجاب کے درمیان والی 400 کلومیٹر لمبی اور 200 کلومیٹر کی چوڑی پٹی کے جھنگوچی, شاہ پوری یا بار والوں کو آپ سے پہلے ایک نئی زبان اور آپ سے علیحدہ صوبہ بنانے کا کیا حق حاصل نہیں؟ دوسرا نئے صوبے بنانے کا اصول کیا ہے اسکا بھی پتا چلنا چاہئیے کہ یہ صوبہ زبان کی بنیاد پر بنے گا وسائل کی تقسیم برابر کرنے کے لئے بنے گا یا فاصلے مٹانے کے لئے؟ زبان کے بارے تو عرض کر چُکا ہوں اب وسائل پر آ جاتے ہیں کلاسرہ صاحب اور اس قبیل کے دوسرے دوستوں کے پاس کونسی ایسی کُنجی ہے جو آبادی کو تقسیم کرکے انکے وسائل بھی برابر تقسیم کر دیگی پاکستان کے چھوٹے صوبوَں نے پنجاب سے کتنی زیادہ ترقی کی ہے کیا اس پر ہم نظر نہیں دوڑا سکتے؟ اور اس کے بعد کل کو ڈیرہ غازی خان اور راجن پور والے کیا تخت ملتان کا نعرہ نہیں ماریں گے اس کی کیا گارنٹی ہے؟ وسائل کو برابر بانٹنے کی ضرورت ہے نہ کہ نئے مسائل ہیدا کرنے کی اور یہ اج یا کل ضلعی خود مختاری سے ہی حل ہو گا. اب آتے ہیں فاصلے مٹانے کی لاجک پہ تو ہر 200*200 کلومیٹر کا ایک یونٹ بنا دیں نئی ترتیب کے ساتھ تو یہ مسلا حل ہو سکتا ہے ورنہ ایک ہیڈ سلیمانکی کے پاس بیٹھے شخص کے لئے کیا مصیبت ہے کہ اسکا صوبہ ملتان بنا دیا جائے جو 280 کلومیٹر کی دوری والے ملتانی صوبے کو کیوں کر ترجیح دے گا جبکہ اسے لہور 180 کلومیٹر دور پڑتا ہے؟
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔