اٹھانوے برس پہلے جب یونیورسٹی آف ویسٹرن آسٹریلیا کا پرتھ میں آغاز ہوا تو اُسکے طلبہ کی تعداد صرف 184تھی۔ یونیورسٹی کی عمارت کیا تھی، دیواریں لکڑی کی تھیں اور چھتیں ٹین کی چادروں کی تھیں۔ یونیورسٹی کی قسمت اچھی تھی۔ علی گڑھ یونیورسٹی کی طرح پرتھ یونیورسٹی کو بھی ایک سرسید میسر آگیا۔ اس کا نام وِن تھراپ تھا۔ سَر جان ونتھراپ روزنامہ ویسٹ آسٹریلیا کا مالک اور مدیر تھا۔ اس نے یونیورسٹی کےلئے دن رات ایک کر دئیے۔ یہ بانی چانسلر بھی تھا۔ اس نے اپنی جیب سے سوا چار لاکھ پاﺅنڈ کا عطیہ دیا جو آج کے تین کروڑ ڈالر بنتے ہیں! آج یونیورسٹی کے طلبہ کی تعداد اکیس ہزار ہے جن میں تقریباً پانچ ہزار غیر ملکی ہیں۔ اساتذہ کی تعداد ایک ہزار چار سو ہے لیکن یونیورسٹی کی وجہ شہرت تحقیق اور تحقیقی کام کی تربیت ہے۔ آسٹریلیا میں تحقیق کے حوالے سے یونیورسٹی دوسرے نمبر پر ہے۔
مجھے گذشتہ ہفتے یونیورسٹی میں منعقد کی جانےوالی کانفرنس اور سمپوزیم کےلئے مدعو کیا گیا تھا۔ یہ سرگرمیاں تین دنوں پر محیط تھیں۔ کانفرنس نائن الیون کے حوالے سے تھی اور سمپوزیم آسٹریلیا کے مسلمانوں کے مسائل کے بارے میں تھا جس میں اظہارِ خیال کی دعوت دی گئی تھی۔ ملائیشیا سے سابق وزیراعظم ڈاکٹر مہاتیر کی بیٹی مرینہ مہاتیر آئی ہوئی تھیں اور کینبرا سے فارسی کی ایرانی پروفیسر ڈاکٹر زہرہ طاہری بھی تھیں۔ زہرہ کو دیوان حافظ ازبر ہے۔ کوئی شعر پڑھا جائے، پوری غزل سنا دیتی ہیں۔ خدا میرے والد گرامی کی لحد پر نور کی بارش کرے، میری فارسی کی گفتگو سن کر پوچھنے لگیں ”ایران میں رہے ہو؟“ میں نے جواب دیا کہ ہاں! لیکن یہ ایران میرے گھر میں تھا!
کانفرنس سے جب امریکی خاتون علیشہ نے خطاب کیا جو پرتھ میں امریکی کونسلر ہیں تو ردِعمل دیکھ کر حیرت ہوئی۔ سب سے زیادہ سوالات عراق اور افغانستان پر امریکی حملے کے بارے میں تھے اور سوالات کرنےوالے سب سفید فام اور غیر مسلم تھے۔ کیا عراق اور افغانستان نائن الیون کے ذمہ دار تھے؟ اب تک دونوں ملکوں میں کتنے لوگ ہلاک ہو چکے ہیں؟ امریکی پالیسیوں کا کیا جواز ہے؟ امریکہ نے نائن الیون کے ردِعمل میں جو کچھ کیا، کیا آج دنیا اسکی وجہ سے زیادہ محفوظ ہے یا زیادہ خطرناک؟ امریکی کونسلر کے پاس ان سوالات کا کوئی جواب نہیں تھا سوائے اسکے کہ وہ گفتگو کو اِدھر اُدھر لے جاتی تھی۔ مرینہ مہاتیر کی لکھی ہوئی تقریر، اعتدال اور حسنِ بیان کی خوبصورتی سے لبریز تھی۔ اس نے امریکہ پر بھرپور تنقید کی اور شائستگی سے کی۔ ملائیشیا میں اسلام اور مسلمانوں کے حال اور مستقبل پر اس نے سوالوں کے جواب حیران کن مہارت اور علم سے دئیے۔ اُس شام جب ایک چرچ میں تینوں مذاہب کے لوگ اکٹھے ہوئے اور مسلمان عالمِ دین جب کلامِ پاک کی تلاوت کر رہے تھے تو میرے ساتھ بیٹھی ہوئی مرینہ مہاتیر رو رہی تھیں۔ پوچھا تو کہنے لگیں میں نے زندگی میں پہلی دفعہ چرچ میں قرآن پاک کی تلاوت سنی اس لئے جذبات پر قابو نہ رکھ سکی۔
تین دن کے قیام میں سب سے زیادہ جس چیز نے متاثر کیا وہ یونیورسٹی کی مجموعی فضا تھی۔ علم، متانت، برداشت، بے خوفی، شائستگی، دھیما پن، یہ اِس فضا کے اجزا تھے۔ میں نے کسی طالب علم کو بلند آواز میں بات کرتے ہوئے، کسی کو چیخ کر بلاتے ہوئے، کسی سے مذاق میں بھی ہاتھا پائی کرتے ہوئے اور کیفے اور کینٹین میں ہنگامہ برپا کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ سمپوزیم میں جب آسٹریلوی مسلمانوں کے مسائل پر بحث مباحثہ ہوا تو سوال کرنےوالے طلبہ کا ڈسپلن قابلِ دید تھا۔ ایک بار بھی ایسا نہیں ہوا کہ دو طلبہ بیک وقت بولے ہوں۔ اِن دنوں نقاب پر پابندی کا موضوع پورے ملک میں زیر بحث ہے۔ کئی غیر مسلم طلبہ نے پابندی کی مخالفت کی کہ یہ ذاتی پسند پر قدغن لگانے والی بات ہے۔ اکثر مسلمان طالبات کی رائے یہ تھی کہ مسلمان علما چہرہ چھپانے پر متفق نہیں ہیں۔ اور یہ ایک اختلافی مسئلہ ہے اس لئے نقاب پر پابندی کی مخالفت ہم اسلام کے حوالے سے نہیں بلکہ ذاتی پسند کے حوالے سے کرینگی۔ پابندی کی حمایت کرنے والوں کی دلیل یہ تھی کہ پبلک مقامات پر سیکورٹی کے لحاظ سے چھُپے ہوئے چہرے کی شناخت کس طرح ہو گی؟ یہ نکتہ بھی زیر بحث آیا کہ آخر پچپن سے زیادہ مسلمان ملکوں میں سے ایک ملک بھی ایسا کیوں نہیں جہاں مسلمان اِس طرح ہجرت کر سکیں جس طرح امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا اور دوسری مغربی ملکوں میں ہجرت کر رہے ہیں۔ آخر وہ کیا وجوہات ہیں جن کی بنا پر کروڑوں مسلمان اِن غیر مسلم ممالک میں رہنے پر مجبور ہیں؟ یہ صرف اقتصادیات کا مسئلہ نہیں، بہت سے مسلمان اپنے اپنے ملک کو چھوڑ کر اِن ملکوں میں اس لئے آئے ہیں کہ یہاں شخصی اور مذہبی آزادی ہے، امن و امان ہے، انصاف ہے، معیارِ تعلیم بلند ہے اور زندگیاں محفوظ ہیں؟ یہ سب کچھ مسلمان ملکوں میں کیوں نہیں میسر آ رہا؟ آج آسٹریلیا میں لاکھوں ترک، لبنانی، مصری اور ایرانی آباد ہیں، انکی اپنی مسجدیں ہیں، اپنے سکول ہیں اور اپنے بازار ہیں، آخر تیل برآمد کرنےوالے امیر مسلمان ملک اپنے دروازے دوسرے مسلمانوں کےلئے اس طرح کیوں نہیں کھولتے جس طرح مغربی ملکوں نے کھولے ہوئے ہیں؟
پاکستانی نژاد ڈاکٹر ثمینہ یاسمین یونیورسٹی کے اساتذہ میں ممتاز مقام رکھتی ہیں اور اسلامی تعلیمات کے حوالے سے یہ پابندِ صوم و صلوٰة خاتون طلبہ میں اپنا حلقہ اثر رکھتی ہیں۔ لشکرِ طیبہ (جماعت الدعوة) کے ماہانہ رسالہ سے لے کر جاوید غامدی صاحب کی کتابوں تک …. سب کچھ ڈاکٹر یاسمین کے زیرِ مطالعہ ہے۔ کلکتہ میں پیدا ہونےوالی منحنی سی ڈاکٹر کرشنا سین فیکلٹی آف آرٹس کی ڈین ہیں اور انڈونیشیا کے مسلمانوں کی ثقافتی زندگی پر طویل تحقیق کر چکی ہیں۔
لیکن جب میں نے یونیورسٹی آف پرتھ کا موازنہ اپنے ملک کی یونیورسٹیوں سے کیا تو ایک کھرا اور سچا پاکستانی ہونے کے ناطے سے میں اِس یونیورسٹی سے بالکل بھی متاثر نہیں ہوا۔ مجھے پرتھ کے طلبہ پر رحم آیا۔ یہ بے چارے اتنے پِسے ہوئے ہیں کہ جلوس نکال کر امتحان کی تاریخ تک نہیں بدلوا سکتے۔ آپ آسٹریلیا کی اس دوسری بڑی یونیورسٹی کی بے بسی کا اندازہ لگائیے کہ داخلے کی تاریخ، انٹرویو کی تاریخ، امتحان کا دن، نتیجے کا اعلان، سب کچھ مقرر ہے اور ملک کا وزیراعظم بھی ایک دن کی تاخیر و تقدیم نہیں کر سکتا! یونیورسٹی کی ایک اور بدقسمتی یہ ہے کہ کسی سیاسی یا مذہبی پارٹی کا سٹوڈنٹ وِنگ یہاں موجود نہیں! کتاب میلے کے پردے میں یونیورسٹی پر کسی گروپ کا قبضہ نہیں۔ آج تک کسی پروفیسر پر حملہ نہیں ہوا نہ کسی وائس چانسلر کے دفتر کا گھیراﺅ کیا گیا۔ کسی سیاسی جماعت کے کارکن طلبہ کا روپ دھار کر کسی ہوسٹل پر قابض نہیں نہ ہوسٹلوں کے وارڈن طلبہ کے ہاتھوں میں یرغمال بنے ہوئے ہیں۔ کوئی جلوس ہے نہ ہڑتال، نعرے ہیں نہ کلاسوں کا بائیکاٹ، نئے طلبہ آتے ہیں تو ”رہنمائی“ کے پردے میں کوئی انہیں قابو کرنے کی کوشش نہیں کرتا۔ آپ اس یونیورسٹی کی بدقسمتی کا اندازہ لگائیے کہ آج تک اِسے کسی جرنیل وائس چانسلر کے نیچے زندگی گزارنے کا اعزاز حاصل نہیں ہوا۔ آج تک کوئی واقعہ ایسا نہیں ہوا کہ پولیس کو کیمپس کے کسی حصے یا کسی ہوسٹل کا محاصرہ کرنا پڑے۔ کسی سیاسی جماعت میں یہ ہمت نہیں کہ وہ اپنے حامیوں کو لیکچرر بھرتی کروائے یا مخالف لیکچراروں کو قتل کروا دے۔ اس یونیورسٹی نے ایسا کوئی سٹوڈنٹ لیڈر بھی نہیں پیدا کیا جس کی مہارت تو پراپرٹی کی خرید و فروخت میں ہو لیکن رہنما وہ سیاسی جماعت کا ہو۔ اس یونیورسٹی کے اجتماعات میں ایسے دانشور، صحافی اور اہلِ قلم بھی نہیں مدعو کئے جاتے جنہوں نے کسی یونیورسٹی میں تعلیم تو کیا حاصل کی، یونیورسٹی کی شکل بھی کبھی نہیں دیکھی۔
مجھے فخر ہے کہ یہ یونیورسٹی مجھے متاثر نہیں کر سکی۔ یونیورسٹی آف ویسٹرن آسٹریلیا سے میری درخواست ہے کہ پاکستان کی سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے حامی ”طلبہ“ کو اس یونیورسٹی میں درآمد کیا جائے!!