فلم’ کارواں‘ ( 2018 ء) پر ایک نوٹ
مجھے یقین ہے کہ انسانی نسل کی دو پیڑیوں کا آپسی تفاوت ( Generation Gap ) تب سے موجود ہے جب انسان نے اپنا وجود پایا ہو گا تبھی تو ' الوہی کتابوں ' میں آدم سے بغاوت کرنے والا پہلا بندہ قابیل تھا جس نے آدم و حوا کے بنائے ہوئے قانون کو توڑا ؛ کہا جاتا ہے کہ اماں حوا اور آدم نے یہ طے کیا تھا کہ صبح کے وقت پیدا ہونے والے لڑکوں اور لڑکیوں کی شادی شام کے وقت پیدا ہونے والے لڑکوں و لڑکیوں سے ہو گی ، انہوں نے صبح کے وقت پیدا ہوئے اور شام میں پیدا ہوئے بچوں میں آپسی جوڑا بنانے کو ممنوع قرار دیا تھا ۔ قابیل کا جس بہن سے جوڑا طے پایا ، وہ لڑکی اسے پسند نہ آئی ، اسے وہ پسند تھی جو ہابیل کے ساتھ جوڑا بنانے والی تھی ۔ یوں نئی پیڑی کی پرانی پیڑی سے یہ پہلی بغاوت ٹھہری ۔
ادب میں ایسی اساطیر ، قصے ،کہانیاں ، رزمیے اور داستانیں وافر تعداد میں ملتی ہیں جن میں پہلی نسل کی ’ اتھارٹی‘ کو نئی نسل نے چیلنج کیا اور اس سے بغاوت بھی کی ۔ اگر میں اپنے ہم عصر زمانے ( جسے میں کا سمک ٹائم سکیل پر پر پچھلی کئی صدیوں پر محیط ایک نینو سیکنڈ سے بھی کم سمجھتا ہوں ) کی بات کروں تو مجھے روسی ادیب ایوان تورگینیف ( نومبر 1818 ء تا ستمبر 1883 ء) ایک ایسا قد کاٹھ والا ادیب نظر آتا ہے جس نے فکشن کی دنیا میں ’ فادرز اینڈ سنز‘ ( Ottsy i deti) 1862 ء میں لکھ کر اس نسلی تفاوت کو اجاگر کرتے ہوئے ہم عصر زمانے میں ایک ایسا سنگ میل گاڑا ، جس کی باز گشت اب تک ادب ، فنون لطیفہ اور عملی زندگی کے ہر میدان میں نظر آتی ہے ۔
فلم کا میڈیم دنیا کی ہر تہذیب و ثقافت میں سب سے کم عمر صنف ہے اور اس نے اپنی لگ بھگ سو سالہ عمر میں بہت تیزی سے سفر کرتے ہوئے جہاں متنوع موضوعات کو خود میں سمیٹا ہے وہیں اس نے پہلی نسل سے دوسری نسل کی اس ازلی لڑائی و کشمکش کو بھی اپنے دامن میں جگہ دی ہے ۔
سن 2018 ء کے آنے تک یہ موضوع کئی فلموں کی مرکزی تھیم رہا ہے ؛ یوں تو اس لڑائی اور کشمکش کے کئی پہلو ہیں لیکن نظریات کا مختلف ہونا ، شخصی آزادی ، اپنے ہی ڈھنگ سے زندگی کی ڈگر پر چلنا ، مخالف جنس سے محبت اور من پسند جوڑا بنانا اور اپنی پسند کا پیشہ اختیار کرنا ہی شاید کچھ زیادہ اہم معاملات ہیں جو دوسری نسل کو پہلی کے سامنے صف آراء کرتے ہیں ؛ اس طرح مد مقابل آ کھڑے ہونے میں کبھی دوسری نسل کا پلہ بھاری رہتا ہے اور وہ پہلی نسل سے بغاوت کرکے اس پر حاوی ہو جاتی ہے ، کبھی پہلی نسل حاوی ہوتی ہے اور وہ دوسری نسل کو اپنے ڈھب پرچلا لیتی ہے اور اس سے وہی کچھ کراتی ہے جو وہ اس سے کرانے کی خواہاں ہوتی ہے ۔ لیکن یہ سکے کے صرف دورُخوں والی سیدھی سادی بات نہیں بلکہ اس کے اور بھی رخ ہیں جن میں لڑائی اور کشمکش کسی نہ کسی شکل میں جاری و ساری رہتی ہے ؛ کبھی پہلی نسل حاوی ہوتی ہے اور دوسری نسل پہلی کی بات مان تو لیتی ہے لیکن خود ’ دوئی‘ کا شکار ہو کر ایک ایسی شکل اختیار کرلیتی ہے جو نفسیاتی طور پر پیچیدہ ہوتی ہے۔ کبھی یہ ہی سب اس کے الٹ بھی ہوتا ہے ۔ اور اگر دونوں نسلیں ایک دوسرے کے مدار سے نکل جائیں تو یہ صورت حال ایک نیا رُخ اختیار کرکے نسلوں کی اس آپسی رگڑ کو ہی ختم کر دیتی ہے ۔
ہاں تو میں بات کر رہا تھا فلم کے میڈیم کی ؛ اس میں بھی آپ کو مختلف فلموں میں اس کشمکش کی یہی ڈائمینشنز ( Dimensions ) نظر آئیں گی ۔ ایرچ سیگل کا ناول اور اس پر بنی فلم ’ لو سٹوری‘ ، ’ پرکس آف بینگ اے وال فلاور‘ (The Perks of Being a Wallflower) ،’گڈ وِل ہنٹنگ‘ (Goodwill Hunting) ،’ آل موسٹ فیمس‘ (Almost Famous) ،’ ڈیزڈ انیڈ کنفیوزڈ ‘ (Dazed and Confused) ، ’ بوائے ہڈ ‘ ( Boyhood)، ’کوئن‘ ( Queen) ، ’جونو ‘ ( Juno ) ، ’اڑان‘ ( Udan ) ، ’ دل چاہتا ہے‘ ، ’ ویک اَپ سِڈ ‘ ( Wake Up Sid ) ، ’ رنگ دے بسنتی ‘ ، ’ زندگی نہ ملے گی دوبارہ ‘ اور’ تھری ایڈیٹس‘ ایسی ہی کچھ فلمیں ہیں جو پہلی و دوسری نسل کی درمیانی خلیج کے موضوع کے مختلف رخ دکھاتی ہیں ۔
جس طرح فلم کا میڈیم خاصا نو عمر ہے اسی طرح فوٹوگرافی بھی ایک ایسا میڈیم ہے جو فنون لطیفہ میں فلم سے پہلے موجود تھا لیکن یہ بھی اس سے فقط چند دہائیاں پہلے ہی فنون لطیفہ کی صف میں شامل ہوا تھا ۔ گو پِن ہول کیمرے ( camera obscura) کا تصور چار قبل از مسیح میں چینی ’ موزی ‘ نامی 31 بابوں پر مشتمل کتاب میں ملتا ہے اور ’سلور نائٹریٹ ‘اور ’ سلور کلورائڈ ‘ جیسے کیمیاوی مرکبات 17 ویں صدی سے پہلے دریافت کر لئے گئے تھی لیکن فوٹوگرافی عملاً انیسویں صدی کی ابتدائی دہائیوں میں ہی شروع ہو پائی ۔ پہلی فوٹوگراف جو اب تک موجود ہے وہ غالباً 1826 ء یا 1827 ء کی ہے ۔’ لی گراس کی کھڑکی سے باہر کا نظارہ ‘ نامی یہ تصویر فرانسیسی موجد ’ نِسےفور نیپس ‘ ( Nicéphore Niépce ) نے اپنی جاگیر ' لی گراس ' میں ایک اونچی کھڑکی سے کھینچی تھی ۔ تب سے اب تک فوٹوگرافی کے میڈیم کی عمر لگ بھگ 190 سال ہو چکی ہے ۔ آج پِن ہول کیمرہ ٹیکنالوجی کی ترقی کے ساتھ ساتھ سفر کرتا ’ نیگیٹو‘ ( negetive ) کی قید سے آزاد ہو کر ڈیجیٹل کیمرے کی شکل اختیار کر چکا ہے اور فلٹرز ، وائڈ اینگل جیسے عدسوں اور ڈرون کا سہارا لیتے ہوئے کئی طرح کے کمالات دکھانے کے لئے تیارہے لیکن فوٹوگرافری اب بھی ، بہت ہی کم لوگوں کے لئے پیشے کی شکل اختیار کر سکی ہے ۔ اس وقت بھی دنیا کے بیشتر فوٹو گرافرگزر ِ اوقات کے لئے پیشہ کچھ اور اختیار کرتے ہیں اور فوٹوگرافی کو بطور شوق یا ’ Hobby ‘ ساتھ لے کر چلتے ہیں ۔ یہ صورت حال ہمارے ہند سندھ میں ہی نہیں ساری دنیا میں موجود ہے ۔
ویسے تو فلم ’ تھری ایڈیٹس ‘ ساری کی ساری ہی نئی و پرانی نسل کی کشمکش پر مبنی ہے جس میں نئی نسل بالآخر حاوی رہتی ہے ۔ اس میں ایک کردار ’ فرحان قریشی ‘ کا بھی ہے جو جنگلی حیاتیات کا فوٹو گرافر بننا چاہتا ہے جبکہ اس کا والد اسے انجینئر بنانے کا خواہش مند ہے جس کے لئے وہ اسے اس کالج میں بھیج دیتا ہے جہاں اسے ’ رانچو‘ اور ’ راجو‘ ملتے ہیں ۔ فرحان قریشی’ رانچو‘ کے کہنے پر بالآخر باپ سے بغاوت کرتا ہے اور فوٹوگرافر بن جاتا ہے ۔ کامیابی اس کے قدم چومتی ہے اور اس کی کھینچی جنگلی حیاتیات کی تصویروں کی کئی کتابیں شائع ہوتی ہیں ۔
بات فوٹو گرافر کے پیشے کی ہو رہی ہے تو اس ضمن میں ایک تازہ فلم ’ کارواں ‘ بھی ہے جو اسی سال اگست میں ریلیز ہوئی ہے ۔ یہ اداکار و رائٹر ' اکارش کُھرانہ ' کی ہدایت کاری کے حوالے سے پہلی فیچرفلم ہے ۔ جس کا مرکزی کردار اویناش ( دُلکر سلمان ) ایک فوٹو گرافر بننا چاہتا ہے لیکن اس کا باپ اسے ’ آئی ٹی‘ کی نوکری کرنے پر مجبور کر دیتا ہے ۔ بظاہر یہ ایک’ روڈ ٹرِپ ‘ فلم ہے جیسی کہ’ ہائی وے‘ یا ’ پِکو‘ تھی ۔ لیکن اس کی کہانی کے تین مرکزی کردار ایک اچھوتے انداز میں اک دوسرے کے ساتھ سفر کرنے کے لئے مجبور ہو جاتے ہیں کیونکہ اویناش کے والد کی میت ٹرانسپورٹ کمپنی کی غلطی کی وجہ سے ’ کوچی‘ پہنچ جاتی ہے اور تانیہ ( متھیلا پالکر ) کی نانی کی میت اویناش کے ہاں آ جاتی ہے ۔ اویناش کا دوست شوکت ( عرفان خان ) اپنی وین میں اویناش اور تانیہ کی نانی کی میت لے کر’ کوچی‘ جاتے میں اور راستے میں تانیہ کو بھی اس کے کالج سے لے لیتے ہیں ۔’ بنگلور‘ سے’ کوچی‘ تک کا یہ روڈ ٹرِپ’ ہائی وے‘ یا ’ پِکو‘ سے کچھ الگ ہی ہے ۔ اویناش جوان ہے ، قدرے کنوینشنل ( conventional ) اور ’ آئی ٹی ‘ کی اس فرم میں کام کرتا ہے جس کا مالک پہلے اس کے باپ کا دوست تھا اور بعد میں اس کا بیٹا اسے چلاتا ہے ۔ تانیہ نوجوان ہے اور کالج کی ایک آزاد خیال لڑکی ہے جو مختصر کپڑے پہننے کے ساتھ ساتھ سگریٹ ، شراب ، یہاں تک کہ لڑکوں کے ساتھ سونے سے بھی نہیں ہچکچاتی گو حاملہ ہونے کے ٹیسٹ کی ’ کِٹ ‘ بیگ میں رکھتی ہے۔ شوکت مسلمان ہے اور عمر میں باقی دونوں سے بڑا ہے لیکن شادی شدہ وہ بھی نہیں ۔ تینوں کا پھڈا اس نسل سے ہے جس نے انہیں جنم دیا ۔ ہر ایک کا پھڈا الگ ہے ، تینوں کے مزاج الگ الگ ہیں لیکن یہ تینوں اس ’ روڈ ٹرِپ ‘ میں ایک ساتھ رہنے پر مجبور ہیں ۔ جوں جوں فلم آگے بڑھتی ہے ان کی مجبوری کم ہوتی جاتی ہے اور نئے رشتے جنم لیتے ہیں ، نئی دوستیاں پروان چڑھتی ہیں ۔ فلم آپ کو ہنساتی ہے ، کہیں کہیں رُلاتی بھی ہے اور ہند سندھ کے معاشروں کی کچھ بند گلیوں کی سیر بھی کراتی ہے اور چونکہ یہ گلیاں اندھی میں اس لئے فلم کا سکرپٹ رائٹر اور ہدایتکار ’ اکارش کُھرانہ‘ گاڑی کو دیوار نہیں ٹپاتا کہ کہیں یہ معاشرے کی کسی گہری دلدل میں نہ جا پڑے اور اسے واپس گھما کراسی ’ گُڈی گُڈی‘ ( goody goody ) ماحول میں لے آتا ہے جہاں حسین نظارے ہیں ، کھاتے پیتے طبقے کی آسائشیں ہیں جہاں اَلیٹ (Elite ) کلاس پینٹنگز اور فوٹوگرافی وغیرہ کی نمائشیں گھاس کے کھلے میدانوں میں منعقد کرواتی ہے ، جہاں ہند سندھ کا عام باسی گھسنے کی جرا
ت بھی نہیں کرتا ۔ شاید ایسا اس لئے بھی ہے کہ پینٹنگز اور فوٹوگرافری مہنگے شوق ہیں ، اس لئے اس کا اویناش ، تانیہ کو ایسے ہی ماحول میں دکھایا جانا بنتا ہے ۔ شوکت کا کردار مجھے ذرا ’ اوپرا ‘ ( out of place ) لگا کہ وہ بیچارہ کہیں درمیانے طبقے کی نچلی پرت سے اٹھایا گیا ہے ؛ اس کا عشق بھی فلم میں ایک ہم پلہ برقع پوش خاتون سے دکھایا گیا ہے جو ایک بوڑھے شہنائی نواز کی تیسری بیوی ہے ۔ فلم میں کچھ چھوٹی چھوٹی غلطیاں بھی ہیں جیسے شہنائی نواز کو اس کی تیسری بیوی کا ایسے طلاق دینا ؛ طلاق۔ ۔ ۔ طلاق۔ ۔ ۔ طلاق ، جیسے وہ خود مرد ہو اور شہنائی نواز عورت ۔
’اوٹی‘، تامل ناڈو اور ’ کوچی‘ ، کیرالہ میں فلم بندی نے بھی اس فلم کو بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے کہ ہندوستان کے ان علاقوں کو فلم بینوں نے کم کم ہی دیکھا ہے ۔ یہ جگہیں جس نے بھی چُنیں ، اس کا کمال اپنی جگہ لیکن ’ اویناش ارون ‘ کا کیمرہ جس طرح سے قدرتی مناظر کو گرفت میں لیتا ہے وہ اپنی جگہ بہت عمدہ ہے ۔ اِن ڈور سینز ( in door scenes ) کے حوالے سے اگر’ تیا تیج پال ‘ کو کریڈٹ نہ دیا جائے تو یہ اس کے ساتھ زیادتی ہو گی جس نے سیٹ سادہ لیکن پُروقار رکھے ، ان میں لالی ، البتہ خصوصی طور پر نمایاں ہے ، خیر ہو سکتا ہے کہ یہ رنگ ’ تیا تیج پال ‘ کو ذاتی طور پر زیادہ پسند ہو یا پھر اس نے اسے ’ بدلاﺅ ‘ کی علامت کے طور پر استعمال کیا ہو۔
فلم کی موسیقی اور گیت اپنی جگہ اچھے ہیں ، خاص طور پر ’سانسیں۔ ۔ ۔ ‘، ’چھوٹا سا فسانہ ۔ ۔ ۔ ‘ اور ’ قدم ۔ ۔ ۔‘ تو خاصے اچھے ہیں ۔
یہ فلم بظاہر مزاحیہ لگتی ہے لیکن کہانی اور گیتوں کو ملا کر اگرغور کیا جائے تو مزاح کی ’ اوپرلی‘ تہہ ( Topping ) تلے اویناش اور تانیہ کی نسل ’ پیلی سَحر زدہ ‘ سی لگتی ہے ، یا پھر جسے ہر گھڑی’ رُکی رُکی ‘ سی لگتی ہے، جس کی خواہشیں الجھی ہوئی ہیں اور اسے سب کچھ’ بے مقصد ‘ لگتا ہے ۔
نقادوں نے اس فلم کو اپنے تئیں پسند کیا لیکن شاید فلم بین اسے کچھ زیادہ پسند نہ کر پائے اور یہ باکس آفس پر اس طرح ہِٹ نہ ہو سکی جیسا کہ اس کو بنانے والے چاہتے تھے ۔