[ فلم ’ ڈانسر اِن دی ڈارک ‘ ( 2000 , Dancer in the Dark ) پر ایک نوٹ ]
میں نے سب دیکھا ہے
میں نے درخت دیکھے ہیں
میں نے بید مجنوں کے پتوں کو
ہوا میں رقصاں دیکھا ہے
میں نے ایک بندے کو
اس کے بہترین دوست کے ہاتھوں قتل ہوتے دیکھا ہے
اور ایسی زندگیوں کو بھی دیکھا ہے
جو عمر پوری کئے بِنا ہی ختم ہو گئیں
میں نے دیکھا ہے کہ میں کیا تھی
اور مجھے معلوم ہے کہ
میں آئندہ کیا ہوں گی
میں نے یہ سب دیکھا ہے
اور دیکھنے کو مزید کچھ بھی نہیں
تم نے ہاتھی کہاں دیکھے ہیں
بادشاہوں کو یا پیرو کب دیکھا ہے
میں خوش ہوں کہ
میرے پاس کرنے کو کچھ اور تھا
چین کے بارے میں کیا خیال ہے
کیا تم نے ’ عظیم وال‘ دیکھی ہے؟
ساری دیواریں عظیم ہوتی ہیں
گر ان پر تنی چھت گر نہ پائے
اور وہ آدمی بھی عظیم ہوتا ہے
جس سے عورت شادی کرتی ہے
اور ان میں گھر کی چھت مشترک ہوتی ہے
سچ پوچھو تو
مجھے اس کی پرواہ نہیں
تم نے تو کبھی
آبشار ِنیاگرا بھی نہیں دیکھی
میں نے پانی دیکھا ہے
پانی ، پانی ہوتا ہے اور اس کے سوا کچھ نہیں
ایفل ٹاور
ایمپائر سٹیٹ
میری نبض ان سے بھی اونچی تھی
جب میں پہلی بار ’ ڈیٹ ‘ پر تھی
اور تمہارے پوتے کا ہاتھ
جس سے وہ تمہارے بالوں سے کھیلے گا
سچ پوچھو تو
مجھے اس کی پراوہ نہیں
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ( فلم کے ایک گیت کے ایک حصے کا آزاد ترجمہ )
دنیا کے تمام عقیدوں اور مذاہب میں کوئی نہ کوئی رواج ایسا ہے کہ جب کسی کے گھر اولاد ہوتی ہے تو وہ اپنے ریتی رواج کے مطابق اسے دنیا میں خوش آمدید کہتا ہے جیسے مسیحت میں اسے بپتسما دیا جاتا ہے اور مسلمانوں میں اس کے کان میں اذان دی جاتی ہے ۔ میرے کان میں بھی یقیناً اذان ہی دی گئی ہو گی لیکن مجھے یقین ہے کہ اس پر جلد ہی موسیقی نے اپنے سات سُروں کی تہہیں اس پر جما دی ہوں گی کہ اپنے والدین کے کمرے میں میں جس کھٹولے پر سوتا تھا اس کے سرہانے ہی مرفی کمپنی کا ریڈیو پڑا ہوتا تھا اور میری آنکھ کھلتے ہی ریڈیو سیلون سے گیت نشر ہو رہے ہوتے تھے ۔ برصغیر میں نہ تو اس وقت رواج تھا اور نہ ہی اب ہے کہ فلمیں گانوں کے بغیر بنیں ۔ انگریزی فلموں سے میری آشنائی پچھلی صدی کی چھٹی دہائی کے آغاز میں تب ہوئی جب میرے والد نے لاہور کے ریگل سینما کا دو سال کے لئے ٹھیکہ پر لیا ۔ میں اس وقت دوسری جماعت میں پڑھتا تھا ۔ اس سینما میں لگنے والی ہر فلم میری دسترس میں تو تھی ہی کیونکہ میں سکول کے بعد اپنے والد کے پاس چلا جاتا تاکہ وہ مجھے ’ ہوم ورک‘ کرا سکیں ، دیگر سینماﺅں میں لگنے والی فلمیں بھی دیکھنا میرے لئے آسان تھا ۔ ہنچ بیک آف ناٹراڈیم ، سیمسن اینڈ ڈیئلالہ ، دی گریٹ ایسکیپ ، یولیسیس ، ہر کولیس ، ہیلن آف ٹرائے ، بن حر ، ڈریکولا ، ڈاکٹر نو، کم ستمبر ، میگنیفیسنٹ سیون اور ان جیسی بہت سی فلموں کے علاوہ مجھے وہاں ایسی انگریزی فلمیں دیکھنے کا بھی موقع ملا جن میں اردو/ ہندی اور پنجابی فلموں کی طرح گانے بھی ہوتے تھے ۔ اس زمانے میں دیکھی دو فلمیں مجھے ابھی بھی یاد ہیں ؛ ’ پِلو ٹاک ( Pillow Talk ) اور ’ گرل فیور ‘ ( Girl Fever ) ۔ ’ پِلو ٹاک ‘ ڈورس ڈے اور راک ہڈسن کی ایک مزاحیہ رومانوی فلم تھی ۔ اس میں غالباً چھ گانے تھے جن میں سے ’ پِلو ٹاک ‘ اور ’ رولی پولی ‘ آج بھی کلاسک مانے جاتے ہیں ۔ ’ گرل فیور‘ کی تھیم سٹرپٹیز شوز پر مبنی تھی اور مجھے یہ فلم اس لئے بھی یاد ہے کہ مجھے یہ فلم دیکھنے کی اجازت نہ تھی لیکن میں نے ٹونی اور جونی کے ہمراہ پروجیکٹر روم میں گھس کر اسے دیکھ ہی لیا تھا ، یہ میری پہلی فلم تھی جس میں ، میں نے عورتوں کو پردہ سیمیں پر عریاں دیکھا تھا ؛ ٹونی اور جونی سینما کے مالک کے بیٹے تھے اور سینما گھر کی چھت پر بنے گھر میں اپنے والدین کے ساتھ رہا کرتے تھے ۔ ان کے صحن کے پار پروجیکٹر روم تھا ۔
مجھے میرے والد نے بتایا تھا کہ ایسی انگریزی فلمیں جن میں گانے ہوتے ہیں انہیں ’میوزیکل‘ کہتے ہیں ۔ ’جاسوسی‘ ، ’سسپنس‘ ، ’ہارر‘ ، ’ وار ‘ ، ’ مزاحیہ‘ ، ’ المیہ ' ، ' ویسٹرن ' ، ’ رزمیہ ‘ اور الوہی کہانیوں پر مبنی فلمیں یہ ساری تقسیم مجھے انہوں نے ہی سمجھائی تھی ۔ اس تمہید کے بعد آئیے وقت میں ذرا اور پیچھے چلیں ۔
فنون لطیفہ میں فوٹوگرافی کا میڈیم شامل ہوا تو فلم کے میڈیم کو بھی فائن آرٹس میں شامل ہونے کو دیر نہ لگی ۔ بیسویں صدی کے آغاز کے ساتھ ہی خاموش فیچر فلمیں بننا شروع ہو گئیں ، جن میں چودہ منٹ کی ’ اے ٹرپ ٹو مون ‘ ( 1902 ء) اور بارہ منٹ کی ’ دی گریٹ ٹرین رابری‘ (1903 ء) نمایاں ہیں ۔ اس صدی کا چوتھائی حصہ ہی گزر پایا تھا کہ اس میڈیم میں آواز کے ساتھ فلمیں بنانے کی تکنیک بھی سامنے آئی اور 1927ء میں فلم ’ دی جاز سنگر‘ سامنے آئی جو بنیادی طور پر تو خاموش فلم تھی لیکن اس میں کچھ مکالمے اور گانے لبوں کی حرکت کے ساتھ باقاعدہ طور پر ’ سنکرونائز ‘ کئے گئے تھے ؛ یہ ایک مکمل فیچر فلم تھی ( اوورچر اور اختتامی موسیقی کے ساتھ یہ 96 منٹ کی فلم تھی ) ۔ یوں فلم کے میدان میں ایک انقلاب آ گیا ، گو خاموش فلموں کا بننا بند نہ ہوا لیکن ’ ٹاکی ‘ فلموں نے آہستہ آہستہ خاموش فلموں کو راستے سے ہٹایا اور جہاں مکالموں والی فلموں کے لیے راہ ہموار کی وہیں تھیئٹر کے غنائیوں سے گہرا اثر لیتے ہوئے فلموں کی ایک صنف ’ میوزیکل ‘ کو بھی پروان چڑھایا ۔ ’ دی جاز سنگر‘ سے قبل امریکی ’ لی ڈی فوریسٹ ‘ مختصر ’ میوزیکل ‘ فلمیں 1923 ء میں بنانا شروع کر چکا تھا اور کئی میوزیکل مختصر فلمیں ’ ویٹافون‘ تکنیک کے ساتھ بن چکی تھیں ۔ ’ دی جاز سنگر‘ ، ’ ٹاپ ہیٹ ‘ ( 1935 ء) ، ’ دی وزرٹ آف اووز‘ ( 1939 ء) جیسی میوزیکل فلموں کا یہ سفر یہیں نہیں رکا اور وہ فلموں کی اس صنف کو بیسویں صدی کے نصف سے بھی آگے لے آیا ۔ اس صدی کی تیسری دہائی سے پچاس کی دہائی کا دور میوزیکل فلموں کا سنہری دور گردانا جاتا ہے ۔ 1930ء میں ہالی ووڈ نے لگ بھگ سو ’ میوزیکلز‘ ریلیز کی تھیں ۔’ تھینکس فار دی میموری‘ ( 1938 ء ) جیسی فلموں کا رواج چوتھی دہائی میں بھی داخل ہوا لیکن رنگین فلموں کے شروع ہو جانے کی وجہ سے ’ میٹ می ان سینٹ لوئیس ‘ ( 1944 ء ) ، ’ ایسٹر پریڈ ‘ ( 1948 ء) اور ’سِننگ اِن دی رین‘( 1952 ء) جیسی فلمیں سامنے آنے لگیں ۔ بیسویں صدی کی چھٹی دہائی میں ’ساﺅنڈ آف میوزک ‘ ( 1965 ء ) جیسی کامیاب میوزیکل فلمیں بنیں لیکن ان فلموں کے شائقین کم سے کم ہوتے گئے اور ساتویں دہائی میں ان کی تعداد اور بھی کم ہو گئی گو فلم سازوں نے اس میں مزاح کا عنصر بھی شامل کر لیا تھا ۔ ’ ٹامی‘ ( 1975 ء) اس دہائی کی ایک عمدہ میوزیکل تھی ۔ پچھلی صدی کے اختتام تک بہت سی ’ اینیمیٹڈ ‘ فلمیں ، جن میں زیادہ تر والٹ ڈزنی کی فلمیں تھیں ، بھی اسی صنف کے تحت بنائی گئیں ۔ ان میں ’ لائن کنگ ‘ ( 1994 ء ) ایک اہم فلم تھی ۔
جیسا کہ میں نے پہلے کہا اردو/ ہندی اور برصغیر کی دیگر زبانوں میں بننے والی فلمیں میوزیکل صنف سے باہر نہیں نکل پائیں اور شاذ و نادر ہی کوئی ایک آدھ فلم سامنے آتی ہے جس میں کوئی گیت نہ ہو ۔ روس میں بھی ’ جولی فیلو‘ ( 1934 ء) ، ’ سرکس‘ ( 1936 ء ) اور ’ والگا ۔ والگا ‘ ( 1938 ء ) جیسی فلمیں بنیں ۔ ہسپانیہ میں سینما ہالی ووڈ ، فرانس اور برطانیہ کا اثر قبول کیے بِنا ہی ’ میوزیکلز‘ کے حوالے سے اپنا الگ مزاج رکھتا ہے اور وہاں کی فلیمِنگو میوزیکل فلمیں اپنا منفرد انداز رکھتی ہیں ۔
اکیسویں صدی کے آغاز نے ’میوزیکلز ‘ کو ایک نئی شکل دی ؛ یہ کامیڈی و رومانوی ڈراما تھیں ، رزمیہ ڈراما تھیں اور ساتھ ہی ساتھ ایسے موضوعات پر بھی مبنی تھیں جنہیں ’ ڈارک ‘ کہا جاتا ہے ۔یوں’ شکاگو‘ ( 2002 ء ) ، ’ ڈریم گرلز‘ (2006 ء ) اور’ لا مزربیلز‘ ( 2012 ء ) جیسی فلمیں سامنے آئیں ۔ اس صدی کے آغاز میں ایک غیر معمولی ’ میوزیکل‘ بھی دیکھنے میں آئی جس کا نام ’ ڈانسر اِن دی ڈارک‘ ( Dancer in the Dark ) تھا ۔ یہ ڈینش ہدایت کاراور سکرین رائٹر’ لارز وان ٹیریر‘(Lars von Trier ) کے فلمی کیرئیر کی آٹھویں فلم تھی ۔ 62 سالہ ’ لارز وان ٹیریر‘ فلمی دنیا میں ایک متنازع لیکن’ تخلیق ‘ کی صلاحیتوں سے مالا مال انتہائی زرخیز فلم میکر ہے ۔ اپنے چالیس سالہ فلمی کیرئیر میں وہ اب تک پندرہ سے زائد فیچر فلمیں بنا چکا ہے جبکہ تین ٹیلی فلموں کے علاوہ ایک دستاویزی اور کئی مختصر فلموں کا خالق بھی ہے ۔ اس نے اپنے فلمی کیرئیر کا آغاز 1967ء میں ’ Turen til Squashland ‘ نامی مختصر فلم سے کیا تھا ۔ اسے اپنی فلم ’ جرم کے اجزائے ترکیبی ‘ ( The Element of Crime) سے شہرت حاصل ہوئی ۔ یہ فلم 1984 ء میں سامنے آئی تھی جس نے اسے ’ کینز( Cannes ) سمیت سات فلمی فیسٹیولز میں بارہ اعزازات دلائے تھے ۔ نقادوں کو اس فلم کو ’صنفی‘ درجہ دینے میں خاصی مشکلات پیش آئیں اور بالآخر اسے ’ نیو ۔ نائر کرائم آرٹ فلم‘ کا نام دیا گیا ۔ ’ لارز وان ٹیریر‘ ڈینش فلم کمپنی ’ زینٹروپا ( Zentropa) کے بانیوں میں سے ایک ہے یہ کمپنی 1992 ء میں قائم ہوئی تھی ۔ ٹیریر کی شخصیت کے کئی پہلو ہیں اور یہ ایک الگ مضمون کے متقاضی ہیں،اس لئے میں اس پر مزید بات کئے بِنا اس کی میوزیکل فلم ’ ڈانسر اِن دی ڈارک ‘ کی طرف واپس لوٹتا ہوں ۔
’ ڈانسر اِن دی ڈارک‘ ( Dancer in the Dark ) ٹیریر کی ’ گولڈن ہارٹ ٹرائلوجی‘ کے سلسلے کی تیسری فلم ہے ۔ اس سے پہلے وہ اس سلسلے کی پہلی فلم ’ بریکنگ دی ویویز‘ ( Breaking the Waves ) 1996ء میں جبکہ ’ دی ایڈیٹس ‘ ( The Idiots) 1998ء بنا چکا تھا ۔’ بریکنگ دی ویویز‘ ایک ایسی نوجوان ’ کیلونسٹ‘ ( Calvinist ) عورت کی کہانی ہے جسے اپنے ملحد خاوند ’ ژاں‘ سے غیر معمولی محبت ہے ۔ آئل رِگ پر کام کے دوران وہ سر پر چوٹ لگنے کی وجہ سے جسمانی طور مکمل طور پر معذور ہو جاتا ہے اور وہ اپنی بیوی سے کہتا ہے کہ وہ دوسرے مردوں سے جنسی تعلق قائم کرے اور یہ سمجھے کہ وہ اس سے پیار کر رہی ہے ۔ اس کا ایسا کرنا بالآخر اس کی بیوی کی جان لے لیتا ہے جب کہ وہ خود تندرست ہو جاتا ہے ۔’ دی ایڈیٹس ‘ ایسے بالغ لوگوں کی کہانی ہے جو اشرافیہ کے خلاف رد عمل میں خود پر اپنے اندر موجود بیوقوفیوں کا لبادہ اوڑھ کر زندگی گزارتے نظر آتے ہیں لیکن ان کے دل خوشی سے باغ باغ ہیں ۔ یہ فلم ڈینش زبان میں ’Idioterne‘ کے نام سے ہے ۔
فلم ’ ڈانسر اِن دی ڈارک ‘ ایک ایسی عورت کی کہانی ہے جس کی نظر دن بدن کم ہوتی جا رہی ہے اور ایک روز اس نے اندھے ہو جانا ہے ۔ اس کا بیٹا بھی جینیاتی طور پر اسی بیماری کا شکار ہے ۔ لارز وان ٹریر نے اس کہانی کو امریکہ میں 1960 ء کی دہائی کے اوائل میں واشنگٹن ریاست میں سیٹ کیا ہے اور یہ اندھی ہوتی عورت ایک چیکوسلواکین ’ سیلما جیزکوووا ‘ ہے جو اپنے بیٹے جینی جیزیک کے ہمراہ ہجرت کرکے وہاں جا بسی ہے اور ایک فیکٹری میں ، اپنی دوست ’ کیتھی ‘ کے ساتھ کام کرتے ہوئے قصبے کے ایک پولیس سپاہی ’ بِل ہیوسٹن ‘ اور اس کی بیوی ’ لِنڈا ‘ کے گھر میں ایک کرائے کے ٹرالے میں رہتے ہوئے مشکل سے گزر اوقات کرتی ہے ۔ فیکڑی میں ’ جیف‘ نامی محنت کش بھی ہے جو اس میں دلچسپی رکھتا ہے لیکن وہ اس سے تعلق بنانے سے گریزاں ہے ۔ اس نے اپنی نظر کے دن بدن کمزور ہونے کا راز کسی کو نہیں بتایا ہوتا اور وہ اپنی کمائی سے مسلسل رقم بچاتی ہے تاکہ اپنے بیٹے کی آنکھوں کا آپریشن کروا کر اسے اس بیماری سے بچا سکے ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کیتھی اور جیف کو یہ اندازہ ہو جاتا ہے کہ سیلما کو مشکل سے ہی نظر آتا ہے ۔ ادھر ’ بَل‘ سیلما کو یہ بتاتا ہے کہ اس کی بیوی آمدن سے زیادہ خرچے کی عادی ہے اور بنک اس سے گھر چھین لے گا اور یہ کہ اسے پیسوں کی ضرورت ہے ۔ سیلما بھی اسے اپنا راز بتاتی ہے کہ وہ اندھی ہو رہی ہے ۔ بِل اس کی اس کمزوری کا فائدہ اٹھاتا ہے اور سیلما کی پس انداز کی ہوئی رقم چُرا لیتا ہے ۔ اپنی رقم واپس لینے کی کوشش میں بِل سیلما کے ہاتھوں قتل ہو جاتا ہے کیونکہ بل اسے مجبور کرتا ہے کہ وہ اسے قتل کئے بنا رقم واپس نہیں لے سکتی ۔ سیلما کو قتل کے الزام میں پکڑ لیا جاتا ہے اور اس پر مقدمہ چلتا ہے اور جب مقدمے کے دوران یہ بات سامنے آتی ہے کہ سیلما کمیونسٹ خیالات کی مالک ہے تو جج اور جیوری کا رویہ سخت ہو جاتا ہے ۔ سیلما مقدمے کی کاروائی کے دوران نہ تو بِل کا راز افشاں کرتی ہے اور نہ ہی اپنے بیٹے کی بیماری کے بارے میں بتاتی ہے بلکہ رقم بچانے کا یہ جواز پیش کرتی ہے کہ وہ یہ اپنے والد ، ’اولڈ رچ نووی ‘، کو چیکوسلواکیہ بھیجتی تھی ( اولڈرچ نووی چیکوسلواکیہ کا مشہور اداکار ، موسیقار اور گلوکار تھا جس نے آخری بار 1971ء میں پرفارم کیا تھا اور عمر کے آخری حصے میں اپنے فلیٹ تک ہی محدود ہو کر رہ گیا تھا ۔ وہ 83 برس کی عمر میں 1983 ء میں فوت ہوا ۔) ۔ سیلما کا یہ جواز غلط ثابت ہوتا ہے اور عدالت سیلما کو موت کی سزادے کر جیل بھیج دیتی ہے ۔ اس دوران یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ اس نے اپنی پس انداز کی ہوئی رقم اس ڈاکٹر کو دی ہوتی ہے جس نے اس کے بیٹے کا آپریشن کرنا ہوتا ہے ۔ کیتھی یہ چاہتی ہے کہ سیلما کا مقدمہ دوبارہ سنا جائے اور نئے وکیل کو ڈاکٹر کو دی گئی رقم معاوضے کے طور پر دی جائے ۔ سیلما اس سے اتفاق نہیں کرتی اور اپنے پھانسی چڑھ جانے کو ترجیح دیتی ہے تاکہ اس کے بیٹے کی آنکھوں کا آپریشن ہو سکے ۔ پھانسی کے وقت کیتھی اسے بتاتی ہے کہ اس کے بیٹے کی آنکھوں کا آپریشن کامیاب ہو گیا ہے اور سیلما جان سے چلی جاتی ہے ۔
میں نے کہانی کا یہ خلاصہ اس لئے بیان کیا ہے کہ یہ سوال اٹھا سکوں کہ کیا اس کہانی پر ایک ’ میوزیکل ‘ فلم بن سکتی ہے ؟ شاید نہیں میوزیکل فلمیں یا تو طربیہ ہوتی ہیں یا پھر ’ رومیو جولیٹ ‘ ، ’ہیر رانجھا‘ ،’ سسی پنوں‘ یا اسی طرح کے المیے بیان کرتی ہیں لیکن لارز وان ٹریر نے اس کہانی کو ویسے ہی ’ میوزیکل ‘ میں ڈھالا ہے جیسے وکٹر ہیوگو کے ناول’ لا مزربیلز‘ ( Les Misérables ) کو 1980 ء میں، ’ الین بوبلل ‘اور ’ ژاں مارک نیٹل ‘ نے تھیئٹر کے لئے ’ میوزیکل ‘ میں ڈھالا گیا تھا جس نے بعدازاں 2012 ء میں فلمی شکل بھی اختیار کی تھی ۔ وکٹر ہیوگو کے 1862ء کے اس ناول کی کہانی ’ژاں ویلجین‘ کی ’ redemption ' کی کہانی ہے اور شاید ’ ڈانسر اِن دی ڈارک‘ بھی ’ سیلما ‘ کی ’ redemption‘ کی کہانی ہے لیکن اس کے پیرا میٹرز بیسویں صدی کی ساٹھ کی دہائی کے اوائل میں موجود ہیں ، جب دنیا دو بڑی جنگیں دیکھ چکی تھی ، دو بڑے نظام ( سرمایہ داری اور کمیونزم) ایک دوسرے کے ساتھ سرد جنگ میں تھے اوربوجوہ اپنے اپنے وطنوں کو چھوڑ کربدیسوں ، خصوصاً امریکہ ، دی لینڈ آف اوپرچونٹی ، میں جا بسنا ایک معمول بن چکا تھا جبکہ افلاس کے بادل اسی طرح ہر جگہ موجود تھے جیسے ’ ژاں بیلجین ‘ کے وقتوں میں تھے ۔
لارز وان ٹریر نے سیلما کے کردار کو کچھ یوں لکھا ہے کہ وہ اپنی جاتی ہوئی بینائی کے باوجود گانے اور رقص کرنے کی دلدادہ ہے اور اسے اپنے ارد گرد ہر شے میں موسیقیت چھائی نظر آتی ہے ؛ یہ فیکٹری میں مشینوں کا شور ہو ، پرزوں کی رگڑ ہو ، سٹین لیس سٹیل کی پلیٹوں کا واش بیسنوں میں ڈھلنا ہو ، بیٹے کی سائیکل کے پچھلے پہیے کے ساتھ لگی پتری کی پھڑپھڑاہٹ ہو یا پھر عدالت کی کاروائی ۔ کبھی کبھی وہ دن میں خوابی کیفیت میں بھی ڈوب کر گاتی اور رقص کرتی ہے ، یہاں تک کہ گلے میں پھانسی کا لٹکائے بھی گیت گاتی ہے اور اسے مکمل کئے بِنا جان دے دیتی ہے کہ پھانسی دینے والے اسے اپنا آخری گیت مکمل کرنے کی مہلت بھی نہیں دیتے ۔ موسیقی اور رقص سے اس کے شغف کو مزید پُرتاثر بنانے کے لئے ’ لارز وان ٹریر‘ نے ’ رچرڈ راڈجرز‘ کے لکھے میوزیکل ’ ساﺅنڈ آف میوزک‘ ( یاد رہے کہ اس میوزیکل پر 1965 ء میں فلم بھی بنی تھی اور اس نے پانچ آسکرز جیتے تھے ) کا سہارا بھی لیا ہے جسے سٹیج پر پرفارم کرنے کے لئے وہ اس کی مشقوں میں بھی جاتی ہے اور کیتھی کے ساتھ ہالی ووڈ کی میوزیکلز دیکھنے کے لئے سینما گھروں میں جاتی ہے ۔ دھندلی آنکھوں سے جب اسے پردہ سیمیں پر کچھ دکھائی نہیں دیتا تو کیتھی اسے ساتھ ساتھ بتاتی ہے کہ سکرین پر کیا دکھایا جا رہا ہے ۔
لارز وان ٹریر نے اس فلم کو بنانے کے لئے ایک اور تجربہ کیا گو یہ نیا نہ تھا ؛ اس سے پہلے بھی ایلوس پریسلے اور بیٹلز کو لے کر میوزیکل فلمیں بن چکی تھیں لیکن وہ کچھ زیادہ کامیاب نہیں رہی تھیں ۔ لارز وان ٹریر کا یہ تجربہ اس لحاظ سے اچھوتا تھا کہ اس نے آئس لینڈ کی موسیقارہ ، گلوکارہ اور اداکارہ ’ بجورک‘ ( Björk Guðmundsdóttir ) کو سیلما کے کردار کے لئے کاسٹ کیا ۔ وہ اس وقت لگ بھگ پینتس سال کی تھی لیکن اس نے اپنی عمر سے بڑی ایک ایسی ’ سیلما‘ کا کردار ادا کیا جو دیکھنے میں ایک عام سا چہرہ اور چھوٹے قد والی عورت ہے اور جس کی آنکھوں پر موٹے کمپاﺅنڈ عدسوں والی عینک لگی ہے ۔
لارز وان ٹریر نے اس فلم میں تکنیکی لحاظ سے ایک اور تجربہ کیا ؛ اس نے یہ فلم ایسے کیمروں سے فلمائی جنہیں ہاتھ میں پکڑ کر استعمال کیا گیا تھا ۔ گیتوں کو فلمانے کے لئے اس نے اسی نوعیت کے ڈیجیٹل کیمرے بھی استعمال کیے ۔
اس فلم کا میوزک ’ بجورک‘ کا ترتیب دیا ہوا ہے جبکہ اس کے گیت ’بجورک‘ نے لارز وان ٹریر اور آئس لینڈ کے شاعر ادیب ’ سجون ‘ (Sjón) کی مشاورت سے لکھے ۔ اس فلم میں تین گیت ’ ساﺅنڈ آف میوزک ‘ سے بھی استعمال کیے گئے ہیں ۔
لارز وان ٹیریر نے گو اسے اپنی ہی کھڑی کی فلمی تحریک ’ ڈوگمے۔95 ‘ ( Dogme 95 ) کی طرز پر بنانے کی کوشش کی تھی لیکن ہاتھ میں پکڑے کیمروں سے دستاویزی انداز میں بنائی گئی فلم مکمل طور پر اس فلمی تحریک کے معیار پر پورا نہیں اترتی ۔
یہ فلم پہلی بارمئی 2000 ء میں 53 ویں ' کان ( Cannes ) فلم فیسٹیول ' میں پیش کی گئی اور اس نے ’ Palme d'Or ‘ ایوارڈ جیتا ۔ اس فیسٹیول میں ’ بجورک ‘ کو بھی بہترین اداکارہ کا اعزاز حاصل ہوا ۔ اس فلم نے ’سیزر ‘ جیسے چھ مزید ایوارڈ حاصل کئے اور اس کا گانا ’ میں نے سب دیکھا ہے ‘ ( I've Seen It All ) بہترین اوریجنل گیت کے لئے آسکر کے لئے نامزد ہوا ۔
لگ بھگ بارہ ملین ڈالر سے بننے والی اس فلم نے لگ بھگ پنتالیس ملین ڈالر کا بزنس کیا لیکن فلمی نقادوں کے نزدیک یہ ایک متنازع فلم رہی ؛ کچھ نے اسے یہ کہتے ہوئے مکمل طور پر رد کیا کہ یہ ایک غیر دلچسپ ، مشکل سے ہی دیکھی جانے والی اور سنگدِلی سے فلمائی گئی ایک فلم ہے ۔ اس کے برعکس دیگر نے اسے ایک ایسی فلم قرار دیا جس نے فلموں کے روایتی ضابطوں کی دھجیاں بکھیر دیں ۔
میرے نزدیک اس فلم نے نئی صدی کے آغاز کے ساتھ ہی نہ صرف بیسویں صدی کے روایتی فلمی ضابطے توڑے بلکہ میوزیکل فلموں میں ایک ایسی راہ کا تعین کیا جس پر چلتے ہوئے فلم ساز’ کیمرون میکنٹوش‘ کو یہ حوصلہ دیا کہ وہ ' Les Misérables ' پر میوزیکل فلم بنانے کے لئے پیسہ لگائے ۔ ایسے میں اسے ہدایت کار ’ ٹام ہوپر‘ کا ساتھ میسر آیا تھا ۔ یاد رہے کہ 1980 ء میں ' Les Misérables ' کا سٹیج میوزیکل ہٹ ہوا تھا تب سے اسے فلم میں ڈھالنے کے لئے کوئی تیار نہ تھا ۔2011 ء میں ’ کیمرون میکنٹوش‘ اور ’ ٹام ہوپر‘ نے حوصلہ کیا اور اس پر میوزیکل فلم بنا کر اسے 2012 ء میں پیش کیا ۔ یہ باکس آفس پر ہٹ ہونے کے علاوہ آٹھ آسکرز کے لئے نامزد ہوئی اور اس نے تین حاصل بھی کئے ۔
’ ڈانسر اِن دی ڈارک‘ فلم کے حوالے سے مجھے یہ بھی کہنا ہے کہ اس فلم کو دیکھنے کے بعد میرے اندر روایتی انداز میں بنی فلموں کے کئی بُت ایسے ٹوٹے کہ یہ دوبارہ کھڑے نہ ہو پائے ۔ میرا آسکرز ( اکیڈیمی ایوارڈز) سے ایک بار پھر اعتماد اٹھا جس کی جیوری کو ’ بجورک ‘ کی اداکاری میں وہ جوہر نظر نہیں آیا جس کی بنیاد پر وہ اسے کم از کم ’ بہترین اداکارہ ‘ کے لئے ہی نامزد کر تے ۔ یہ الگ بات ہے کہ میرے حساب سے 73 ویں اکیڈیمی ایواڈز میں’ بجورک‘ بہترین اداکارہ کے لئے آسکر کی حقدار تھی ۔ مجھے یقین ہے کہ جب موجودہ صدی اختتام کو پہنچے گی اور اِس صدی کی اہم ترین فلموں کا انتخاب کیا جائے گا تو ’ ڈانسر اِن دی ڈارک ‘ اس انتخاب میں لازماً شامل ہو گی ۔