''میں نے نہیں ملنا ملالہ جہانگیر سے''
دسمبر 2014 میں عاصمہ جہانگیر لائیولی ہڈ ایوارڈ [جسے متبادل نوبل انعام بھی کہا جاتا ہے] وصول کرنے اسٹاک ہوم آ رہی تھیں۔ اسی سال ملالہ یوسف زئی کو امن کا انعام ملا تھا۔ اسکینڈے نیویا میں ترقی پسند پاکستانی کمیونٹی خاصی خوش اور پر جوش تھی۔ اسٹاک ہوم میں ترقی پسند پاکستانیوں نے عاصمہ جہانگیر کے ساتھ ایک سیمینار کا اہتمام کیا۔ جو لوگ بھی شریک ہوئے انکے لئے یہ ایک یادگار سیمینار تھا۔
سیمینار سے دو تین ہفتے قبل ہی ہمارے گھر میں ملالہ اور عاصمہ جہانگیر کا روز تذکرہ ہونے لگا۔ اس سیمینار میں میری پارٹنر نے بھی شرکت کرنا تھی۔ ہمارے دونوں کے لئے ایک مسئلہ یہ تھا کہ اپنی چھ سالہ بیٹی کو اس شام کس کے پاس چھوڑ کر جائیں کیونکہ اکثر دوست جو بے بی سٹنگ میں مدد دیتے تھے، وہ سب بھی سیمینار میں شامل ہو رہے تھے۔ بالآخر ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم بیلا کو ساتھ ہی لے جائیں گے۔ وہ ابھی چار ماہ کی تھی جب سے ہم اسے اس طرح کے سیاسی جلسوں میں ساتھ لے جانے پر مجبور تھے مگر اسے تب یہ سب اچھا نہیں لگتا تھا۔ جب اسے پتہ جلا کہ وہ سیمینار میں ہمارے ساتھ جائے گی تو چڑچڑا کر بولی: ''میں نے نہیں جانا ملالہ جہانگیر سے ملنے''۔ میں نے سیمینار کے بعد جب یہ واقعہ عاصمہ جہانگیر کو سنایا تو وہ خوب ہنسیں۔
سیمینار کچھ لمبا ہو گیا کیونکہ سب دوست عاصمہ جہانگیر سے بے شمار سوال پوچھنا چاہتے تھے۔ اس دوران بیلا تھک کر میری گود میں سو گئی۔ عاصمہ جہانگیر بھی شائد باتیں کرنا چاہتی تھیں مگر جب انہوں نے دیکھا کہ بیلا بہت تھک چکی ہے تو مجھے کہا کہ میٹنگ کافی ہو گئی، میں دوستوں کے ساتھ باہر لابی میں بات کر لیتی ہو٘ں، تم بیٹی کو گھر لیکر جاو۔
اس اجلاس میں موجود ہمارے ایک ساتھی، کامل صدیقی، 2016 میں وفات پا گئے۔ انکی یاد میں ہم نے اسٹاک ہوم میں ایک سالانہ لیکچر کا آغاز کیا ہے۔ گذشتہ سال اس سیمینار میں پاکستان سے اکبر زیدی صاحب تشریف لائے۔ اس سال ہم عاصمہ جہانگیر کو مدعو کرنا چاہتے تھے۔ ہمارے دوست ریاض الحسن کچھ عرصہ پہلے پاکستان گئے اور انہوں نے عاصمہ جہانگیر سے ملاقات کی کوشش کی مگر بوجہ ملاقات نہ ہو سکی۔ میں ان دنوں سوچ رہا تھا کہ جلد ہی انہیں ای میل کروں گا۔
میرا ایک دوست ، مارٹن، جو ایمنسٹی انٹرنیسنل سویڈن میں کام کرتا ہے، کچھ عرصہ قبل مجھے ملا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل سویڈن اپریل میں جبری لاپتہ ہونے والے افراد پر ایک سیمینار کرنا چاہتی ہے اور وہ لوگ عاصمہ جہانگیر کو استاک ہوم بلانا چاہتے تھے۔ افسوس وہ اس سال اور آئندہ بھی ہمارے پاس نہیں آ سکیں گی۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔