میں نے بھٹو کو دیکھا
ہمارے گھر میں بجلی سے چلنے والا مرفی کمپنی کا ایک ریڈیو ہوتا تھا، جس پر صبح صبح ریڈیو سیلون (سری لنکا) سے نشر ہونے والا گانوں کا ایک مشہورِ زمانہ پروگرام سکول جانے سے پہلے، تیاری اور ناشتے کے دوران دن کے آغاز کا پیغام دیتا اور رات کو بی بی سی کا مشہورِ زمانہ پروگرام سیربین جس پر میرے والد صاحب دنیا بھر کی خبروں سے مستفید ہوتے۔ جنگ ستمبر 1965ء میں سے سرگودھا کے آسمانی تلے اپنی آنکھوں سے دیکھی اور اس کی تفصیلات اسی مرفی ریڈیو سے سنیں۔ اور اسی ریڈیو سے جنگ ستمبر کے بعد معاہدۂ تاشقند کی رُوداد ریڈیو پاکستان پر جو سرکار کی گرفت میں اپنے انداز میں اور بی بی سی اپنے کھلے انداز میں معاہدۂ تاشقند کے بارے خبریں دے رہا تھا۔ جوں جوں معاہدہ تاشقند پر خبریں اور تبصرے پھیلتے گئے، توں توں ریڈیو والد صاحب بہت احتیاط سے سننے لگے کہ اونچی آواز کہیں گلی میں نہ جا پائے۔ صبح نوائے وقت میں خبریں اور رات کو ریڈیو پر بی بی سی، بعد از جنگ کی صورتِ حال پر میرے کانوں سے گزرتے گزرتے میرے لیے تجسس کا سبب بننے لگیں۔اور ان خبروں پر والد صاحب کے بہترین دوست میرے پھوپھا نواز گوئندی کے مشترکہ تبصرے۔ دونوں کی زبان سے سنا کہ وزیرخارجہ ذوالفقار علی بھٹو، صدر ایوب سے نالاں ہیں کہ ہم میدان میں جیتی جنگ، مذاکرات کی میز پر ہار گئے۔ایک دن صبح صبح ہم سکول جانے کے لیے اپنے تانگے کا انتظار کررہے تھے کہ یکایک گلی میں مردہ باد، زندہ باد کے نعرے بلند ہوتے سنے اور نعرہ بازوں پر پولیس کے لٹھ بردار گلی میں دندناتے نظر آئے۔ شہر کا دوسرا بڑا بوئز کالج، انبالہ مسلم کالج ہماری گلی کی دوسری نکڑ پر تھا۔ میں نے جب ان بہادر نوجوانوں کو پولیس کا مقابلہ کرتے دیکھا تو دل چاہا کہ میں بھی کالج میں داخلہ لے لوں اور کالجیٹ بن کر ایسے ہی جدوجہد کروں۔ اسی ریڈیو سے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت سے الگ ہونے کی خبریں اور والد یعقوب گوئندی اور پھوپھا کو ذوالفقار علی بھٹو کی حمایت میں پُرجوش انداز اپناتے دیکھا۔ پھرہر روز آس پاس کی گلیوں میں ذوالفقار علی بھٹو زندہ باد، ایوبی آمریت مردہ باد کے نعرے اور سارے ملک میں طلبا کے جلوسوں کی خبریں سننے میں آنے لگیں۔
ایک دن میرے والد صاحب نے میری اور میرے بھائی اعجاز گوئندی کی انگلیاں تھامیں اور ہمیں سرگودھا کے جناح باغ لے گئے۔ سٹیج پر ذوالفقار علی بھٹو کھڑے تھے اور کہہ رہے تھے کہ ’’میں ان جاگیرداروں کو بتا دوں گا کہ یہ لڑکا (بھٹو) ان کا کیا حشر کرے گا۔ اس ملک کے مالک یہ جاگیردار اور سرمایہ دار نہیں بلکہ اس ملک کے حقیقی مالک ہاری، کسان، مزدور، نوجوان، طالب علم، محنت کش، خواتین، درمیانے طبقات ہیں۔ میں اس ملک میں ان اجارہ داروں کی اجارہ داری مٹا دوں گا۔‘‘ میں نے اُس دن پہلی مرتبہ ذوالفقار علی بھٹو کو دیکھا، وہ کہہ رہے تھے کہ ’’مجھے غریب عوام کے لیے جان بھی دینی پڑی تو دے دوں گا۔‘‘ انہی کی زبان سے میں نے سنا کہ وہ سوشلسٹ ہیں۔ اب میرے اندر بھٹو بولنے لگا اور میرے ہم جماعت جو زیادہ تر سرگودھا کے زمین دار گھرانوں سے تعلق رکھتے تھے، بریک کے وقت میرے ساتھ وہ کچھ کرتے جو کسی خاندانی کشمکش میں بالادست لوگ کرتے ہیں۔
بس پھر میں بھٹو کو دیکھتا چلا گیا، اور آگے بڑھتا چلا گیا عمر اور شعوری بلوغت کے سفر میں۔ جوں جوں میں بڑا ہوا، بھٹو بھی مزید بڑھتا چلا گیا۔ میں نے پھر بھٹو کو سٹیج پر لوگوں کے ساتھ خطاب کرتے لوگوں کے ساتھ دمادم مست قلندر کی تھاپ پر ناچتے دیکھا۔ جو نعرے میری تمام عمرمیرے کانوں میں سب سے زیادہ گونجے، ’’جیوے جیوے بھٹو جیوے‘‘، ’’بھٹو جیے ہزاروں سال‘‘تھے۔ میں ذوالفقار علی بھٹو کو دیکھنے کے لیے اب خود چل کر جانے لگا۔ 1970ء میں انتخابات کی کامیابی کے بعد، ٹرک پر سوار ذوالفقار علی بھٹو دھرم پورہ لاہور کی سڑک پر ، جگہ جگہ انہیں خطاب کرتے دیکھا۔ ان کے لبوں پر یہ الفاظ سنے، ’’ہم گھاس کھائیں گے، مگر ایٹم بم بنائیں گے۔‘‘ اور ان کے جلوسوں میں یہ نعرے سنے اور پھر خود یہ نعرے لگانے لگا، ’’روکھی سوکھی کھاواں گے، ایٹم بم بناواں گے۔‘‘ (روکھی سوکھی کھائیں گے، ایٹم بم بنائیں گے)۔ میں نے ذوالفقار علی بھٹو کو اقوامِ متحدہ میں امریکی سامراج اور اس کے حواریوں کو للکارتے سنا۔ اوہ میرے جذبات، رونگٹے کھڑے ہوگئے، اس پاکستانی سپوت کی تقریر سن کر۔ اب میرے کان نعرے سنتے ہی نہیں تھے بلکہ میرے لب بولنے لگے اور نعروں پہ نعرے۔ ’’بھٹو ساڈا شیر اے، باقی ہیر پھیر اے۔‘‘ پاک چین دوستی زندہ باد۔ چیئرمین مائو زندہ باد۔ امریکی سامراج مردہ باد۔ ویتنام کے عوام زندہ باد۔ سن لے سارا جہاں، کشمیر ہمارا ہے۔ جیہڑا واہوے اوہی کھاوے۔ (جو بوئے وہی کھائے)۔ جاگیرداری و سرمایہ داری مردہ باد۔ ماریں گے مر جائیں گے۔ بھٹو کو جتوائیں گے۔ جدوجہد آخری فتح تک۔ یہ نعرے اس جدوجہد کے عنوان تھے۔ آمریت مردہ باد۔ جمہوریت زندہ باد۔ اور بس میں بھٹو دیکھتا چلا گیا۔ 1977ء کے انتخابات میں لاہور کے ناصر باغ (مصر کے عظیم انقلابی رہنما کے نام جمال عبدالناصر کے نام سے منسوب باغ) کے سٹیج پر میں نے والد صاحب کے ہمراہ بھٹو کو سنا۔ تب میں ابھی ٹین ایجر ہی تھا۔ بھٹو سٹیج پر پُرجوش انداز میں کہہ رہا تھا کہ’’ یہ قومی اتحاد والے (پی این اے، بھٹو کے خلاف نو سیاسی جماعتوں کے انتخابی اتحاد) مجھے کافر کہتے ہیں۔ مجھے پرواہ نہیں، میں غریبوں کی جدوجہد کرتا ررہوں گا۔‘‘ یہیں انہوں نے کہا کہ ’’ہاں میں تھوڑی سی پیتا ہوں،مگر غریبوں کا خون تو نہیں پیتا۔‘‘ اور میں نے ذوالفقار علی بھٹوکے ساتھ ایک مرتبہ تیرہ گھنٹے گزارے۔ صرف اُن کو دیکھنے سننے، اُن کی آواز میں آواز اور قدم سے قدم ملانے کے لیے، مارچ 1977ء کے انتخابات میں اُن کی انتخابی مہم کا آخری جلوس اور جلسہ۔ جلوس آواری ہوٹل سے شروع ہوا۔ سارا دن بھٹو جگہ جگہ رکے۔ لوگوں سے خطاب کررہا تھا اور لوگ خوشی اور جذبات میں نعرے لگا رہے تھے۔ ’’ساڈا بھٹو آوے ای آوے۔‘‘
مال روڈ سے چیئرنگ کراس، ریگل چوک، انارکلی کی نکڑ پر ، ضلع کچہری، داتا صاحب، سرکلر روڈ، موچی دروازے کے سامنے سے ہوتا ہوا، اقبال پارک مینارِپاکستان کے سامنے تک، رات گئے یہ جلوس ختم ہوا۔ دوسرے دن صبح میں گھر پیدل پہنچا۔ تیس گھنٹے بھٹو کے ساتھ بھوکے رہ کر گزار دئیے چوںکہ جیب کٹ گئی۔ سارا دن پانی اور بھٹو کی تقریر کو دیکھ اور سن سن کراپنی پیاس بجھاتا رہا۔ مارچ 1977ء کے اس دن میں نے بھٹو کو پورا دن دیکھا، رات کے بارہ بجے تک جب انتخابی مہم کا وقت ختم ہوگیا۔ اور ہاں انہی سڑکوں پر میں نے انہیں جس خوشی سے دیکھا، وہ شاید ان کی زندگی اور پاکستان کی تاحال زندگی میں سب سے بڑی خوشی تھی کہ جب ساری اسلامی دنیا کے رہنمائوں کے وہ میزبان بنے۔ بھٹو، لاہور اور پاکستان فروری1974ء میں جس قدر خوش تھے، شاید وہ کبھی اتنے خوش نہ ہوئے ہوں گے۔ بھٹو، لاہور اور پاکستان اسلامی دنیا کے میزبان بنے۔ بتائیں اس سے بڑی خوشی کوئی ہو سکتی ہے۔ میں نے اس لاہور کی سڑکوں پر یاسر عرفات، شاہ فیصل، انور سادات، الجزائربومدین، شیخ مجیب، عدی امین، اور ساری مسلمان دنیا کے لیڈروں کے ہمراہ بھٹو کو دیکھا اور اسی اسلامی کانفرنس میں انہیں یہ کہتے دیکھا اور سنا، ’’ہم بیت المقدس ایک فاتح کی حیثیت سے داخل ہوں گے، چاہے اس کے لیے میری جان ہی چلی جائے۔‘‘ ان کے سامنے یاسر عرفات جیسے عظیم مجاہد آزادی اور شاہ فیصل جیسے مدبر بیٹھے ا ن کی یہ تقریر سن رہے تھے اور نیا حوصلہ بنا رہے تھے۔ اسی کانفرنس میں یاسر عرفات کی پی ایل او جسے اسرائیل اور امریکہ سمیت اس کے اتحادیوں نے دہشت گرد تنظیم قرار دے رکھا تھا، کو باقاعدہ آزادی کی نمائندہ تنظیم تسلیم کیا گیا اور یاسر عرفات کو پہلی مرتبہ سربراہِ ریاست کا سٹیٹس دیا گیا۔ اس کے بعد یاسر عرفات کو اقوامِ متحدہ میں پہلی مرتبہ تسلیم کرتے ہوئے خطاب کی دعوت دی گئی، جہاں انہوں نے کہا کہ میرے ایک ہاتھ میں امن کا نشان زیتون کی شاخ اور دوسرے ہاتھ میں حقوق کی جدوجہد کے لیے بندوق ہے۔ اب آپ نے طے کرناہے کہ آپ نے کسے چننا ہے۔
میں نے بھٹو کو 1977ء میں اپنی آنکھوں سے دیکھا جب انہوں نے کہا کہ ’’میرے مخالفوں نے مجھے کافر، میری والدہ، میری بیوی اور میرے بچوں کی کردار کشی کی مگر میں نے برداشت کیا۔ اب وہ میری عوام کو گالی نکالنے لگے ہیں، نہیں میں یہ برداشت نہیں کرسکتا، میں کبھی معاف نہیں کرسکتا۔‘‘ انہی سڑکوں پر میں نے بھٹو کے خلاف نکلنے والے جلوسوں میں کافر کافر بھٹو کافر کے نعرے سنے اور پی این اے کے اہم ترین رہنما ایئرمارشل اصغر کان کو سنا، ’’بھٹو کو ہم کوہالہ کے پُل پرپھانسی دیں گے۔‘‘ تب بھٹو وزیراعظم تھے، اور 1977ء کی انتخابی مہم جاری تھی۔
1977ء کے انتخابات کے نتیجے میں بننے والی پارلیمنٹ میں 28اپریل 1977ء کو انہیں خطاب کرتے دیکھا اور سنا۔ ’’سفید ہاتھی (امریکی) میرے خون کے پیاسے ہیں۔‘‘ انہوں نے کہا، ’’مگر میں سرینڈر نہیں کروں گا۔‘‘ میں نے انہیں 5جولائی 1977ء کو اقتدار سے بے دخل ہوتے دیکھا۔ پاکستان میں آئین، جمہوریت اور پارلیمنٹ کو مٹتے دیکھا۔ بھٹو کو جنرل ضیا کی قید میں جاتے دیکھا۔ اور جب وہ 8 اگست 1977ء کو لاہور آئے اور ان کا عظیم الشان استقبال ہوا اور رات گئے وہ شادمان میں سابق وزیر اعلیٰ جناب صادق حسین قریشی کے گھر کی بالکنی میں کھڑے خطاب کررہے تھے، میں نیچے سے چندفٹ کے فاصلے پر کھڑا دیکھ اور سن رہاتھا۔ وہ کہہ رہے تھے، ’’امریکہ میری جان کا دشمن ہے، وہ مجھے مارنا چاہتا اور یہ جرنیل چاہتے ہیں کہ میں ملک چھوڑ جائوں۔ نہیں ، میں نے اس مٹی میں جنم لیا، اسی سرزمین پررہوں گا اور یہیں لڑوں اور مروں گا۔ میرا جینا مرنا میرے عوام کے ساتھ ہے، میں پاکستان نہیں چھوڑوں گا۔‘‘
اور پھر میں نے بھٹو کو لاہور کی سڑکوں پر پولیس کی گاڑیوں میں قیدی کی حیثیت سے جاتے دیکھا۔ قتل کا مقدمہ بھگتتے اور پھر سزائے موت کا سزا دار ٹھہرتے۔میں نے بھٹو کو سپریم کورٹ میں اپنے حق میں بولتے سنا، ’’میں نے پاکستان کے لیے جو کچھ کیا، وہ آپ کو بھی معلوم ہے کہ میں آج اس کٹہرے میں کیوں کھڑا کیا گیا ہوں۔‘‘ انہوں نے عدالت سے اپنے آخری خطاب میں کہا، آپ بھی جانتے ہیں کہ یہ سب عدالتیں کیوں سجائی گئی ہیں۔ مسئلہ میری جان نہیں ، معاملہ کچھ اور ہے۔ پاکستان آج وہ طاقت حاصل کرنے میں کامیاب ہوچکا ہے، جس کے لیے انڈیا نے بیس سال لگا دئیے۔‘‘
ضیا آمریت، امریکی سامراج اور اس کے حواریوں کے خلاف لڑتے لڑتے، میں نے ذوالفقار علی بھٹو کو 4اپریل 1979ء کو پھانسی پر جھولتے ہوئے بھی دیکھا۔
میں مرزا ساگر سندھ دا
میری راول جنج چڑھی