میں نوازشریف کے بیانیئے سے کیوں اتفاق کرتا ہوں؟
پاکستان کی صورتحال کے حوالے سے دہائیوں سے ایسا بیانیہ بنایا گیا ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔حقیقت یہی ہے جو آجکل نوازشریف صاحب کہہ رہے ہیں کہ پاکستان کی مقتدر طاقتوں کی پالیسیوں کی وجہ سے آج ہم دنیا میں تنہا کھڑے نظر آرہے ہیں ۔اب ان مقتدر طاقتوں کو اپنی اصلاح کرنے کی ضرورت ہے ۔پاکستان میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں آرہی ،اس کی وجہ یہ ہے کہ پارلیمنٹ یا جمہوریت طاقتور نہیں ہے،آج بھی وہی طاقتور ہیں جو کل تھے ۔پاکستان میں مقتدر قوتیں نئی سوچ اور فکر کی مخالف ہیں ،اسی وجہ سے اس ملک میں نیا بیانیہ پیدا نہیں ہوپارہا ۔جو لبرل یا سیکولر عناصر اس مغالطے میں مبتلا ہیں کہ مقتدر قوتیں انتہا پسند عناصر سے اپنا پیچھا چھڑالیں گی ،یہ صرف ان کی خوش فہمی ہو سکتی ہے ۔حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔فوج کے جرنیلوں کو چاہیئے کہ وہ ایک نئی لبرل فکر کو جگہ دیں ،اور تمام جہادیوں سے اپنی جان چھڑالیں،یہی کچھ ماضی کے روایت پسند اور آج کے لبرل انسان نواز شریف کہہ رہے ہیں۔مقتدر قوتوں کا ہمیشہ المیہ یہی رہا ہے کہ ان کے پاس کوئی نئی بات نہیں ،نئی پالیسی نہیں ،اور جن کے دماغوں میں نئی نئی باتیں ہیں ،ان کو یہ باتیں کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی ،اسی وجہ سے پاکستان بطور ایک ریاست مشکل صورتحال سے دوچار ہے ۔تمام دانشور جانتے ہیں کہ سچ کیا ہے ،لیکن وہ دانشور سچ نہیں بول پارہے ،کیونکہ انہیں خوف ہے کہ وہ پھر غدار یا ملک دشمن کے خطابات سے نواز دیئے جائیں گے ،ایسے ہی جیسے ملک کے تین بار وزیر اعظم رہنے والے نوازشریف کو آج غدار قرار دیا جارہا ہے؟ راء ،موساد ،سی آئی ائے وغیرہ کا ڈرامہ رچاکر آج تک جو کھیل کھیلا گیا یا کھیلا جارہا ہے وہ اس ملک کے لئے خطرناک ثابت ہوا ہے ،پاکستانی ریاست کے پاس اس وقت دو واضح راستے ہیں،ایک وہ راستہ ہے جس کی عملی صورتحال ہم سب کے سامنے ہے،پاکستان اس وقت صرف مقتدر قوتوں کے کنٹرول میں ہے، ملک کے افراد کی کوئی اہمیت نہیں ہے ۔سیاستدان اور دانشو نظر تو آرہے ہیں ،لیکن ان کی کوئی اہمیت اور وقعت نہیں ہے ۔بنیادی پالیسیاں وہی ہیں جو جنرل ضیاء کے زمانے کی تھی،خارجہ پالیسی میں کسی قسم کی تبدیلی نظر نہیں آرہی ۔مملکت کا بنیادی نظریہ وہی ہے جو ضیاء اور مشرف کے زمانے کا تھا ۔کل بھی جو سوالات اٹھاتے تھے اور نئی بات کرتے تھے انہیں غدار اور وطن دشمن قرار دیا جاتا تھا ،آج بھی وہی ہورہا ہے ۔جو سوال اٹھاتا ہے وہی ملک کا غدار بن جاتا ہے ۔اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ پاکستان کے افغانستان ،بھارت اور امریکہ سے اچھے تعلقات ہونے چاہیئے تو وہ ملک کا دشمن بن جاتا ہے ۔وہ کسی غیر ملکی خفیہ ایجنسی کا ایجنٹ کہلاتا ہے،وہ مودی کا یار بن جاتا ہے ۔کیا یہ حقیقت نہیں کہ نام نہاد مذہبی قوتیں اور مقتدر قوتوں کا آج بھی وہی گٹھ جوڑ ہے جو اس سے پہلے تھا ،پاکستان کی شناخت کو دنیا میں بہتر کرنا ہے تو نئی سوچ کو جگہ دینی ہوگی ۔یہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں سیاسی جماعتوں میں بہت خامیاں اور کمزوریاں ہیں ،یہ بھی سچ ہے کہ ان سیاسی جماعتوں کی بہت سی مجبوریاں ہیں،لیکن کیا یہ سچ نہیں کہ ان سیاسی جماعتوں کے اسکوپ کو مقتدر قوتوں نے محدود کردیا ہے،ن لیگ جس قسم کی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے ،کیا اس کا واضح ثبوت نہیں؟حقیقت یہی ہے کہ مسلم لیگ ن کے دائرہ کار کو پالیسی کے تحت محدود کیا جارہا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ان سیاسی جماعتوں کے اندر سے نئے خیالات پر بحث نئی ہورہی ۔ سیاسی جماعتوں کو اس قدر مجبور کردیا گیا ہے کہ اب ان کے اندر سے بحث کرنے کی گنجائش ہی نہیں رہی ہے ۔اس لئے بیچاری یہ سیاسی جماعتیں لکیر کی فقیر بنی ہوئی ہیں ۔دوسری طرف ہمارا انٹیلیجنسیا یا دانشور طبقہ ہے ،دانشور طبقہ نئے نئے خیالات کے شعبے کا زمہ دار ہوتا ہے،لیکن بیچارہ دانشور بھی یہاں گھٹن کے ماحول میں ہے ،نئی فکر اور سوچ کے جتنے بھی ادارے ہیں ان پر اسٹیبلشمنٹ کا کنٹرول ہے ،لبرل دانشوروں کو بات کرنے میں شدید مشکلات درپیش ہیں،اس کی وجہ یہ ہے کہ اخبارات ،ٹی وی چینلز مالکان کے زریعے کنٹرول کئے جارہے ہیں اور ان مالکان کو طاقتوروں سے ہدایات لینی پڑتی ہیں ۔یہاں پھر اقتصادی مفادات کی بات آجاتی ہے ،کیسے مالکان مقتدر قوتوں کے خلاف دانشوروں کو بات کرنے کی اجازت دے سکتے ہیں ؟مالکان کو بھی احکامات ملتے ہیں کہ جو بھی مقتدر قوتوں کے خلاف بات کرے، اسے اپنے نیوز چینل پر مت آنے دو ،اسے بات مت کرنے دو ،اس لئے لبرل اور روشن خیال دانشور اپنے اپنے کمروں میں بند ہو کر رہ گئے ہیں ۔ پاکستان میں نیوز چینلز اور اخبارات کے زریعے یہ بیانیہ چلایا جارہا ہے کہ پاکستان کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے وہ عالمی سازشوں کا نتیجہ ہے،اس کے علاوہ نیوز چینلز پر کوئی اور بات نہیں کہنے دی جارہی ۔یہ ملک تو اس وقت بہتر ہوگا جب ہر کسی کو بات کرنے کی اجازت ہوگی،۔نئے خیالات پیدا ہوں گے تو تب ہی تکسیریت کا ماحول پیدا ہوگا ۔یہاں تو بات کرنا عذاب ہے ۔جو بھی کوئی نیا نقطہ نظر سامنے لاتا ہے یا اسٹیبلشمنٹ کی پالیسیوں پر تنقید کرتا ہے وہی غدار اور ملک دشمن بن جاتا ہے ۔اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ کشمیر کا مسئلہ اہم ہے ،لیکن اس کو حل ہونے میں وقت لگ جائے گا ۔اس لئے بھارت سے تعلقات اچھے رہنے چاہیئے وہ غدار ہوجاتا ہے ۔اگر کوئی نیا خیال پیش کرتا ہے تو دلیل کے ساتھ کوئی اور خیال پیش کردیا جائے ،لیکن یہاں تو معاملہ ہی دوسرا ہے وہ کافر ،غدار یا ملک دشمن بنادیا جاتا ہے ۔جس ملک میں انتہاپسندانہ عناصر کو اہمیت دی جائے ،اس ملک کے بارے میں بیرونی دنیا میں سوالات تو جنم لیں گے؟یہاں تو ان لوگوں کو بھی غدار قرار دیا گیا جنہوں نے کبھی دہشت گردی کی بات نہیں کی ،انتہا پسندی کی بات نہیں کی ۔جس ملک میں شیخ رشید محب وطن ہو اور نوازشریف غدار ہو ایسے ملک کا مستقبل کیسے تابناک اور روشن ہو سکتا ہے ؟یہ ایک حقیقت ہے کہ اس ملک میں تمام انسانوں پر یکسانیت مسلط کرنے کی کوشش دہائیوں سےکی جارہی ہے ۔اور جو اس یکسانیت کے خلاف بات کرے وہ سیدھا غدار ہوجاتا ہے ۔یہ وہ ملک ہے جہاں تاریخ کا ایک نقط نظر ہے ،حالات حاظرہ کا ایک نقطہ نظر ہے،ایک خارجہ پالیسی کا نقطہ نظر ہے،اس کے علاوہ یہاں کوئی نئی بات کرنے کی اجازت نہیں ۔یہ کیسی آزادی فکر ہے جہاں بنیادی باتوں پر ہی سوال نہیں اٹھایا جاسکتا ۔جمہوریت یہ تو نہیں کہ ملک کی پالیسی ایک ادارہ بنائے ،لیکن اس پالیسی کو چلانے کے لئے ووٹ اور الیکشن کا کھیل جاری رہے۔پالیسی مقتدر قوتیں ترتیب دیں اور اس پالیسی کو نواز شریف یا خاقان عباسی آگے بڑھائے ۔نواز شریف جب نئے سوشل کنٹریکٹ یا جمہوریت کی بات کرتے ہیں تو ان کا تما شا بنادیا جاتا ہے ؟یہ کیسی جمہوریت ہے؟ عوام ووٹ تو نئی نئی پالیسیاں بنانے کے لئے دیتے ہیں ،ووٹ تو اس لئے دیا جاتا ہے کہ ملک کو کس طرح چلایا جائے گا ؟دوسرے ملکوں کے ساتھ کس طرح کے تعلقات ہوں گے ؟لیکن یہاں تو خارجہ ،داخلہ پالیسی کسی اور ادارے کے ہاتھ میں ہے۔جمہوریت اور سیاستدانوں کو کوئی اہمیت ہی نہیں ۔صرف اسلام آباد میں میلے لگوا کر ان سیاستدانوں کا مزاق اڑایا جاتا ہے ۔ہر ملک میں خفیہ ایجنسیاں ہوتی ہیں اور ہر ملک کی فوج ہوتی ہے اور ہونی چاہیئے ،لیکن کیا امریکہ اور یورپ یا بھارت میں فوج ملک کی پالیسیاں بناتی ہے؟فوج اور خفیہ ایجنسیوں کا کام ملک کا دفاع کرنا ہے نہ کہ ملک کی پالیسیاں بنانا اور یہ کہنا کہ ملک کیسے چلایا جائے ؟لیکن یہان تو مملکت کی توضیح و تشریح ہی مقتدر قوتیں کررہی ہیں ۔اگر کوئی اس اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں یہ فرما دے کہ وہ ملک کے دفاع پر دھیان دے تو اسے فوری طور پر غدار قرار دے دیا جاتا ہے ۔باچا خان سے نواز شریف تک سب غدار ہیں،کیونکہ یہ سب یہی کہتے ہیں کہ فوج دفاع پر دھیان دے اور پالیسیاں بنانے کا حق سیاستدانوں کا ہو ۔ہمارا المیہ یہ ہے کہ پاکستان کے بارے میں جو بیرونی دنیا میں سوچا جارہا ہے اس سے پاکستان کے لوگ ناواقف ہیں ۔پاکستانی قوم کو ایک غلط بیانیہ دیکر خوش فہمی میں مبتلا کردیا گیا ہے ،قوم بھی اتنی باشعور نہیں ،سنی سنائی باتوں کو مانتی چلی جارہی ہے ،پھر ایسی ہی صورتحال ہوگی جس کا آج ہم شکار ہیں ۔پاکستان میں سوچ کا نیٹ ورک وسیع کرنے کی ضرورت ہے ،بات کرنے دی جائے ،سوالات اٹھانے کی اجازت دی جانی چاہیئے ۔نئے نئے خیالات کے زریعے ہی پاکستان بدلے گا ۔معذرت کے ساتھ یہاں مقتدر قوتیں نفسیاتی مسائل کا شکار ہے ،اس لئے میری اپیل ہے کہ مقتدر قوتیں اپنے نفسیاتی مسائل کا حل نکالیں اور کسی ماہر نفسیات سے رجوع کریں۔نئی بات کرنے میں کوئی شر انگیزی نہیں ہوتی ،پاکستان کو انتہا پسندانہ بیانیئے سے نکال کر قومی بیانیئے میں پرونا ہوگا،اسی بیانیئے کو لیکر نواز شریف آگے بڑھ رہے ہیں اس لئے میں ان کی نظریات کی حمایت کرتا ہوں۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔