آپ بیتی از ’Paulo Coelho‘ |
اقتباس کتاب : Like a Flowing River
جب مَیں 15 برس کا ہو گیا، ایک دن مَیں نے امی سے کہا "مجھے پتا چل گیا ہے کہ مَیں نے بڑا ہو کر کیا بننا ہے۔ مَیں ایک لکھاری بنوں گا۔"
"اوہ تیرا بیڑا غرق…" امی شدید مایوسی سے کہنے لگِیں "اپنے ابو کو دیکھو، وہ انجینیئر ہیں۔ وہ بہت سمجھ دار اور کامیاب انسان ہیں، وہ دنیا کے چال چلن کو خوب جانتے ہیں۔ تمہیں پتا بھی ہے یا نہیں کہ لکھاری بننا کیا ہوتا ہے؟"
"ہاں جی۔ لکھاری بننے کا مطلب ہوتا ہے کہ کتابیں لکھی جائیں۔" مَیں نے آسانی سے جواب دے دیا۔
"تمہارے ماموں ہارولڈو ایک ڈاکٹر ہیں۔ اُنہوں نے بہت سی کتابیں لکھی ہیں۔ اُن میں سے کچھ شائع بھی ہو چکی ہیں۔ اگر تُم اپنے ابو کی طرح انجینیئرنگ پر دھیان دو اور اچھی جگہ ملازم ہو جاؤ تب اپنے فارغ وقت میں جو دل چاہے کرو، چاہے کتابیں لکھو۔"
"نہیں امی جی.. مَیں لکھاری بن کر کتابیں لکھنا چاہتا ہوں، انجینیئر بن کر نہیں۔" مَیں نے کہا۔
"ہمممم… مگر کیا تُم کبھی کسی لکھاری سے ملے ہو؟ کیا کبھی کوئی لکھاری دیکھا بھی ہے یا نہیں؟" امی نے مزید فکرمندی سے پوچھا۔
"نہیں تو۔ صرف تصویروں میں دیکھا ہے۔"
"تو میرے بچے، جب لکھاری نامی مخلوق کا تمہیں پتا ہی نہیں تو پھر کیوں لکھاری بننا چاہتے ہو؟ ہیں؟"
مَیں بنیادی طور پر لاجواب ہو چکا تھا۔ لہذا امی کو درست جواب دینے کی خاطر مَیں نے سوچا کہ اِس سوال پر تحقیق کرنی چاہیے۔ واقعی، لکھاری ہوتا کیا ہے؟ آخرکار بڑی تحقیق کے بعد مجھے کچھ جوابات ملے۔ مجھے معلوم پڑا کہ 1960 کی دہائی کے آغاز میں لکھاری ہونے کا کیا مطلب ہوتا ہے۔ آئیے آپ کو بھی بتاتا ہوں۔
√ لکھاری وہ ہوتا ہے جو موٹی موٹی عینکیں پہنتا ہے۔
√ لکھاری وہ ہوتا ہے جس کے بال بہت لمبے ہوتے ہیں اور اُس کو کنگھی کرنے کی عادت نہیں ہوتی۔
√ اپنا آدھا وقت ہر معاملہ میں سخت غصے میں رہتا ہے اور باقی کا آدھا وقت سخت اُداس ہوتا ہے۔
√ اُسے بہت سا وقت شراب خانوں (متبادل: پاک ٹی ہاؤس وغیرہ) میں اپنے جیسے لکھاریوں سے لڑنے بِھڑنے اور اُن سے مباحث کرنے کی عادت ہوتی ہے۔
√ وہ بہت گہری گہری باتیں کرتا ہے۔
√ اُس کے پاس اپنے اگلے ناول کے لیے کہانی کا زبردست خاکہ ہوتا ہے۔ اور وہ اپنے پچھلے ناول کو سخت ناپسند کرتا ہے۔
√ لکھاری کا فرض ہے کہ موجودہ نسل کے قارئین کو سمجھ نہ آ سکے۔ اُسے یقین ہوتا ہے کہ وہ غلط زمانے میں پیدا ہوا ہے۔
√ اوپر والے نکتہ کا نتیجا ہے کہ اگر کسی کو لکھاری کی کوئی بات سمجھ آ جائے تو بنیادی طور پر لکھاری کو افسوس ہوتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ اُس نے آسانی سے سمجھ آنے والی بات بول/لکھ کر اپنے مقام کو کمتر کر دیا ہے۔ اب وہ حکمت کے موتی نہیں بکھیر سکتا۔ لہذا وہ مشکل ترین باتیں لکھنے لگتا ہے۔
√ لکھاری اپنی لکھی ہوئی بات کو مٹا کر بار بار لکھتا ہے، یہاں تک کہ، سوائے اُس کے، باقی سب کی سمجھ سے باہر ہو جاتی ہے۔
√ عام آدمی لغت کے تقریباً 3 ہزار الفاظ جانتا ہے۔ اصل لکھاری اِن میں سے کوئی لفظ نہیں لکھتا بولتا کیونکہ اُس نے باقی کے 1 لاکھ 89 ہزار الفاظ کو بروئے کار لانا ہوتا ہے۔ یقیناً لکھاری عام آدمی نہیں ہوتا۔
√ صرف ایک لکھاری جانتا ہے کہ دوسرے لکھاری نے کیا لکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تمام لکھاری ایک دوسرے سے نفرت کرتے ہیں۔ اس نفرت کی ایک اور وجہ بھی ہے، لکھاریوں کی ملازمتیں چند ایک ہی ہوتی ہیں۔ لہذا ایک دوسرے کو ہر قیمت پر کمتر کرتے ہیں۔
√ اور دوسرے لکھاری یوں کمتر ہو جاتے ہیں کیونکہ اُن میں سے کامیاب لکھاری ایسی کتاب لکھ ڈالتا ہے جو خود اُسے بھی سمجھ نہیں آئی ہوتی۔
√ لکھاری سادہ باتوں کے دوران خوفناک یا انجان الفاظ استعمال کرتا ہے مثلاً چپڑقنات، انفجار، فجائیہ، ندائیہ، اوقاف، لقہ لچہ، چیت مکوڑا، رموز، سیاست، جمہوریت، انصاف، تہذیب، اشتراکیت وغیرہ۔
√ لکھاری کے پاس اپنی جانب توجہ مبذول کروانے کا ایک فوری نسخہ ہوتا ہے۔ وہ یوں بات شروع کرتا ہے "آئن سٹائن ایک بیوقوف انسان ہے۔" "ٹالسٹائے ایک مسخرا ہے۔ وہ اہلِ اقتدار کے تلوے چاٹتا ہے۔" یعنی وہ ہر ایک کو تنقید کا نشانہ بناتا ہے۔ بلکہ مروجہ نظریات کا بھی انکار کر دیتا ہے.. نظریہء اضافیت اول تو غلط ہے، مزید یہ کہ مزید غلط ہے۔ جب ایسی باتیں کر کے لوگوں کا مجمع لگا لیتا ہے تب بے موقع گفتگو شروع کرتا ہے۔ یاد رہے کہ لوگوں کو دلائل مانگنے کی عادت نہیں ہوتی، وہ محض لکھاری کی زبان یا قلم کے سحر میں آ کر بات مان لیتے ہیں۔
√ لکھاری جب کسی خاتون کو متاثر کرنا چاہتا ہے، اور اکثر اُسے ضرورت پڑتی رہتی ہے، وہ صرف اتنا کہتا ہے "مَیں ایک لکھاری ہوں"، اور پھر رومال یا ٹشو پیپر پر کچھ ایسا لکھتا ہے جو خاتون کو محسوس سا ہوتا ہے کہ بس میرے لیے ہی لکھا گیا ہے.. بلکہ یہ لکھاری پیدا ہی اِسی لیے ہوا تھا کہ ایک دن میرے لیے یہ جملہ لکھے۔ بے چاری شکار ہو جاتی ہے۔ یہ نسخہ کبھی رائیگاں نہیں جاتا۔
√ ایک بار لکھاری مذکورہ مندرجات کو بروئے کار لا کر معاشرے میں کچھ ہلچل سی مچا دے تب وہ کسی بھی وقت "نقاد" بن سکتا ہے۔ یعنی اس سلسلے میں ہلچل مچائی ہونا ضروری ہے، کوئی ادبی خدمت سرانجام دی ہونا کچھ زیادہ ضروری نہیں۔ لکھاری بطور نقاد اپنے من پسندیدہ دوست لکھاریوں (جنہیں وہ دوست تو مانتا ہے مگر لکھاری نہیں) اُن کی نئی کتب پر رحمدلانہ یعنی مثبت علمی تجزیے لکھتا ہے۔ آدھے تجزیوں میں وہ دوسرے ممالک کے محاورے اور جناتی زبان استعمال کرتا ہے۔ صرف لفظوں کی بناوٹ سے محسوس ہوتا ہے کہ کچھ اچھا ہی لکھا ہو گا۔ وہ اکثر جگہ "ذاتی دلائل" جیسے الفاظ استعمال کرتا ہے۔ یوں بڑی چالاکی سے قارئین کو شک میں ڈال دیتا ہے۔ یوں قاری اسی لیے وہ کتاب نہیں خریدتے کیونکہ ذاتی رائے جاننے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ ذاتی اور مدلل ایک دوسرے سے مخالف الفاظ ہوتے ہیں۔
√ اگر لکھاری سے پوچھا جائے کہ وہ آجکل کیا پڑھ رہا ہے تو اُس پر فرض ہے کہ کسی ایسی کتاب کا نام لے جو کسی نے نہ پڑھی ہو، بلکہ کسی کو اُس کا نام بھی معلوم نہ ہو۔
√ البتہ کوئی نہ کوئی ایسی کتاب ضرور ہوتی ہے جس کا نام لینے سے سب بہت خوش ہوتے ہیں مگر لکھاری سمیت پڑھی کسی نے بھی نہیں ہوتی مثلاً جیمز جوئس کی یولیسس (یا فرھنگ آصفیہ سمجھ لیں)۔ لیکن اگر کوئی کسی لکھاری سے کتاب کے متعلق کچھ پوچھ بیٹھے تو آگے سے ایسا جواب دیں گے جو کسی بھی کتاب کے سلسلے میں دیا جا سکتا ہے۔
اِس تمام تحقیق سے مسلح ہو کر مَیں امی کے پاس چلا گیا اور اُنہیں تفصیل سے بتایا کہ لکھاری یہ ہوتا ہے۔ امی نے سخت حیران ہو کر کہا "اس نِری مصیبت سے تو بہتر ہے کہ انجینیئر ہی بن جاؤ۔ ویسے بھی تُم عینک نہیں پہنتے۔"
مگر میرے بال الجھے ہوئے ضرور تھے۔ مزید یہ کہ میری جیب میں گالوسز کے سگریٹ بھی تھے، میری بغل میں ایک مشکل سی کتاب کے چند پھاڑے ہوئے صفحات بھی تھے۔ نہ سمجھ میں آنے والے ناول پڑھنے کا ارادہ بھی تھا۔ یعنی مجھ میں لکھاری بننے کی پوری علامات تھیں۔
تب ایک موسیقار نے مجھ سے رابطہ کیا۔ مَیں ابدی زندگی جیسے موضوعات پر تحقیق کرنے کی بجائے سادہ سے عمومی موضوعات پر شاعری کرنے لگا مثلاً عورت کی محبت، مرد کی طاقت، جنگیں، بغاوت وغیرہ۔ اِسی سلسلے میں مَیں نے دنیا کے اتنے ممالک کی سیاحت کی کہ شاید اتنی بار اپنی جرابیں بھی تبدیل نہیں کیں۔
آج جبکہ دنیا بھر میں اور ہر زبان میں میری کتابوں کے کروڑوں نسخے بک چکے ہیں اور ہر کتاب بیسیوں بار شائع ہو چکی ہے، مجھے اعتراف ہے کہ مَیں 15 برس کی عمر میں اپنی تحقیق کے مطابق درست لکھاری نہیں بن سکا۔ مجھ سے وہ رولے نہیں نبھائے جا سکے۔ یہی وجہ ہے کہ ادبی حلقوں کی جانب سے اکثر تنقید میں رہتا ہوں مگر مَیں اپنے آپ کو بدل نہیں سکتا۔ اندر اندر سے قارئین جب، لکھاری کے اصولوں کے برخلاف، میری بات سمجھ لیتے ہیں تو وہ بہت خوش ہوتے ہیں۔ شاید کائنات نے اُس خوشی کو قبول کر لیا ہے۔ اور مجھے کائنات زیادہ عزیز ہے۔
بصد شکریہ، پالو کولہو (برازیلی ماسٹر لکھاری)