کیا دھات کے ٹکڑے اڑ سکتے ہیں؟ نہیں۔ لیکن اگر ان کو ترتیب سے جوڑ کر جہاز بنا دیا جائے تو ہاں، یہ اڑ سکتے ہیں۔ یہ خاصیت ان ٹکڑوں کی نہیں، ان سے مل کر بننے والے جہاز کی ہے۔ لوہے کی سلاخ شیر کو قید نہیں کر سکتی لیکن لوہے کی سلاخیں اگر پنچرے کی شکل میں ہوں تو قید کر لینا اس پنجرے کی خاصیت ہے۔ جب اجزاء کو مل کر ایک نئی چیز بنتی ہے تو وہ ان اجزاء سے زیادہ اور ان سے مختلف خاصیتیں رکھتی ہے۔
اگر آپ کو سڑکوں کا سسٹم ڈیزائن کرنے کیلئے دیا گیا ہے اور آپ ٹریفک کو سمجھنا چاہ رہے ہیں کہ ٹریفک جام کہاں پر ہوتا ہے، خطرناک موڑ کونسے ہیں، لوگ کہاں تیزرفتاری سے گاڑی چلاتے ہیں تو آپ کو یہ جاننے میں دیر نہیں لگے گی کہ اس کیلئے گاڑی چلانے والوں کی نفسیات کو سمجھنا ہو گا۔ اگر اگر آپ اس ٹریفک جام کو انجن کے سپارک پلگ یا پھر سکریو کی لمبائی سے سمجھنا چاہیں گے تو جلد ہی نوکری سے نکال دئے جائیں گے۔ یہ ٹریفک جام کو سمجھنے کا غلط لیول ہے۔
اس کا مطلب یہ نہیں کہ چھوٹے ٹکڑوں کی اہمیت نہیں۔ سپارک پلگ یا سکریو بدلنے سے انجن فرق طریقے سے کام کرنے لگے گا۔ گاڑی تیز یا آہستہ ہو سکتی ہے، ٹکر ہو سکتی ہے لیکن نتیجہ واضح ہے۔ ٹریفک کا بہاوٗ بیشک اجزاء سے منحصر ہو لیکن ان اجزاء کی مدد سے اس کو نہیں سمجھا جاتا، نہیں سمجھا جا سکتا۔
آپ اپنے پسندیدہ مزاحیہ اداکار کی ٹی وی پر جگتیں سن کر ہنس رہے ہیں اور اب یہ سمجھنا چاہ رہے ہیں کہ اس میں مزاحیہ کیا ہے۔ اس کیلئے اگر ٹی وی پر لگے کیپیسیٹر یا ٹرانسسزٹر کو سٹڈی کریں گے تو ان پارٹس کی تفصیل تو سمجھ آ سکتی ہے اور برقیات کی بھی لیکن جگت کی نہیں۔ اس جگت کو آپ تک پہنچانے میں ان ٹرانسسٹر اور دوسرے اجزاء پر مکمل طور پر انحصار تھا لیکن ان حصوں میں سے کوئی بھی مزاح پیدا نہیں کرتا۔ یہ سب ایک ترتیب میں جب ملتے ہیں تو پھر فرق پڑتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انسان کو سمجھے کا بھی یہی معاملہ ہے۔ نیورونز کے بغیر سوچا نہں جا سکتا لیکن نیورون نہیں سوچتا۔ جو کچھ بھی ہے، اس ترتیب میں ہے۔ دماغ فزکس کے قوانین نہیں توڑتا لیکن بائیوکیمیکل ری ایکشن کی مساوات انسان کو ڈیفائن نہیں کرتیں۔ نہر کنارے سیر کرتا محبت میں گرفتار ایک نوبیاہتا جوڑا، ایک محبت کرنے والا جوڑا ہے۔ اس کو ہارمونز یا حرکت کرنے والے ذرات سے ڈیفائن نہیں کیا جا سکتا۔
انسان کی بائیولوجی کو بھی کیمسٹری یا فزکس کی اصطلاحات کے طور پر نہیں سمجھا جا سکتا۔ انعام، خواہشات، بھوک، دوستی، بھروسہ، مقابلہ، فخر۔ یہ انسان کو سمجھنے کا درست لیول ہے۔ ویسے ہی جیسے ٹریفک کا بہاوؐ سمجھنے کا ٹھیک لیول رفتار کی حد، رش کا وقت، دفاتر کے اوقات وغیرہ ہیں۔ اسی طرح، بچے کے واپس لوٹنے میں دیر ہو جانے پر متفکر ماں، صرف ایک ممتا بھری متفکر ماں ہے۔ اس کی فکر کے لئے تمام اجزاء ضروری تھے، ہارمونز سے لے کر وقت کے ادراک یا یادداشت کے فنکشن کو مکمل طور پر جان کر بھی فکر ان میں اتنی ہی ملے گی جتنی ٹرانسسٹز میں جگت۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کے علاوہ بھی ایک اور مسئلہ ہے کہ انسان “صرف دماغ” نہیں۔ دماغ خود اس بائیولوجیکل کھیل کا ایک کھلاڑی ہے۔ یہ اینڈوکرائن اور امیون سسٹم سے دوطرفہ رابطے میں ہے۔ اس کو ایک “بڑا نروس سسٹم” سمجھا جا سکتا ہے۔ یہ بڑا نروس سسٹم خود اپنے گرد کی کیمیائی ماحول سے الگ نہیں جو اس کی ڈویلپمنٹ متاثر کرتے ہیں۔ سیسے کا رنگ، ماحولیاتی آلودگی، غذا وغیرہ۔ یہ سب اس سسٹم کو مسلسل بدل رہا ہے اور پھر یہ خود ایک پیچیدہ سوشل نیٹ ورک کا جزو ہے۔ اس نیٹ ورک سے ہونے والی ہر انٹر ایکشن اس کی بائیولوجی پر فرق ڈالتی ہے۔ میں اپنے جینز، اپنے دماغ، اپنے ماحول، اپنے اجزاء، اپنی تربیت اور اپنے کلچر سے تراشا گیا ہوں۔ میں ان سب کو ملا کر بننے والا ایک عکس ہوں۔ اس بائیولوجی، اس کیمیائی ماحول کے ساتھ میرے والدین، اساتذہ، دوست، دشمن، کلچر سبھی اس عکس میں کہیں نہ کہیں موجود ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن یہ میرا کلچر، میرا ماحول، میری تربیت وغیرہ آتی کہاں سے ہے؟ اگر آپ تحریر پڑھ چکے ہیں اور اس کو پڑھ کر خواہ جس طرح بھی ری ایکٹ کر رہے ہیں، آپ کی بائیولوجی تبدیل ہو گئی ہے۔ دماغ میں بنتے کسی کنکشن کی صورت میں یا پھر ہارمونز کے توازن کی تبدیلی کی شکل میں۔ مثلا، ہو سکتا ہے کہ یہ الفظ پڑھ کر ایپینفرین اور کورٹیکوسٹیرائیڈ کا سُوپ خارج ہو اور آپ اشتعال بھرا کمنٹ کریں یا انباکس کا رخ کریں لیکن کسی نہ کسی طرح یہ الفاظ آپ کی بائیولوجی پر فرق ڈال رہے ہیں۔ آپ کو بدل رہے ہیں۔ میں آپ کی بائیولوجی کو تراشنے والے ماحول کا ایک حصہ ہوں۔ میری بائیولوجی کا ہر ایکشن میرے سوشل نیٹ ورک کے لوگوں کی بائیولوجی پر اثرانداز ہوتا ہے۔ یہ رشتہ یکطرفہ نہیں ہے۔ ہر شخص جہاں کلچر سے اثرانداز ہوتا ہے، وہاں وہی اس کلچر کو تشکیل بھی دیتا ہے۔ آپ کا کہا ہر لفظ، کیا گیا ہر عمل، آپ کے گرد لوگوں پر کوئی نہ کوئی فرق ڈالتا ہے، معنی رکھتا ہے۔ میں اپنے سوشل نیٹ ورک، دوستوں اور دشمنوں کے عکس میں موجود ہوں۔ ویسے ہی جیسے ہم سب ایک دوسرے کے عکس کا حصہ ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس میں سرحدیں کہاں ہیں؟ یہ ایک دلچسپ سوال ہے۔ میں شروع کہاں ہوتا ہوں اور ختم کہاں؟ اس کا واحد حل یہ ہے کہ دماغ کو وہ حصہ سمجھا جائے جہاں پر “میں” زیادہ تر ہوں۔ پہاڑ کی چوٹی، نہ کہ پورا پہاڑ۔ میرا اپنا رویہ اس پورے سوشیوبائیولوجیکل سسٹم پر منحصر ہے۔ دماغ ذہن کی seat نہیں، اس کا hub ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو ایک بار پھر خلاصہ کہ میں کہاں ہوں۔ اس سوال کے جواب میں غلط راہ اور سمت لینا اور اس کے ٹریپ میں یا تنگ گلی میں پھنس جانا بہت آسان ہے۔ جب کوئی شارٹ ہینڈ میں لکھا فقرہ دیکھیں کہ “you are your brain” اس کا مطلب یہ مت سمجھیں کہ ایٹمز کی کہکشاوؐں اور نیورونز کی جنگل اس کے جواب دیں گے۔ اصل چیز اس گیلے عضو کے اوپر ایکٹیویٹی کے بنتے پیٹرن ہیں۔ وہ بھی جو اندرونی مکینزم سے بن رہے ہیں اور وہ بھی جو بیرونی دنیا سے انٹرایکٹ ہونے کا نتیجہ ہیں۔ ہم اس وقت دنیا کی لیبارٹریز میں اس فزیکل مادے کا اور اس سے نکلنے والے سبجیکٹو تجربے کا لنک تلاش کر رہے ہیں۔ ابھی یہ حل شدہ مسئلہ نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میری خوشیاں، تکالیف، امیدیں، مایوسی، محبت، نفرت، حسد، ہمدردی، شرم، اداسی، تجسس، اعتماد، سکون، پچھتاوا، امید اور غصہ۔ یہ مجھے سمجھنے کا ٹھیک لیول ہے۔ میں ایسا کیوں ہوں؟ اس کا جواب جاننے کیلئے جینیات سے لے کر والدہ کی نصیحتوں تک، تہذیبی اقدار سے لے کر صبح چائے کے کپ تک پوری دنیا ملے گی جن سے میں جدا بالکل بھی نہیں۔