میں کون ہوں اے ہم نفسو۔۔۔۔ قسط 8
گارڈن کالج کا طالب علم ہونا کسی بھی طالب علم کیلےؑ عمر بھر کا سرمایہ افتخار ہو سکتا ہے لیکن میری بد قسمتی کہ یہاں سے حصول علم کے سوا میں نے وہ سب کیا جوکالج کے ماحول میں ہوتا ہے۔خسوصا" اس کالج میں جہاں مخلوط تعلیم ہو۔15 سال میں شباب کے اولیں جذبات دل میں ہلچل ضرر مچانے لگتے ہیں لیکن میری براےؑ نام جوانی کےحریف ایک تو وہ رییؑس زادے تھے جواپنے لباس ار اطوارسےہی نہیں رنگ روپ سے بھی اپنی برتری کیلےؑ کسی دعوے ثبوت کے محتاج نہ تھے۔ وردی کا قانون نافذ نہیں ہوا تھا میں اماں کے ہاتھ کی بخیہ گری کا شہکار لٹھے کا اٹنگا پجامہ قمیص پہن کے ساییؑکل پر کالج جاتا تھا وہ سایکل پر بھی اتے تھے توسوٹ پہن کے ۔ کاریں بہت کم نہ ہونے کے برابر تھیں۔ وہ "گولڈ فلیک" کی سنہری گولڈن ڈبیا سے نکال کے پروفیسروں کو بھی سگرٹ پیش کرتے تھے اور ہر جگہ دل کھول کے باپ کا مال لٹاتے تھے۔ پڑھنے والی لڑکیاں بھی زیادہ تر امیر گھروں کی اور اپنے دور کے جدید ترین فیشن کی نمایندہ تھیں۔ٹنچ بھاٹہ کا بالا تعلیم اقبال احمد خاں کلاس میں نمایاں رہ ۔اسپؤرٹس یا دیگر مصروفیات میں ہی نامور ہوتا تو کسی کی نظر میں آتا۔۔ میں سب کی نظر سے گر گیا کلاس میں پڑھایا گیا بھی سر سے گزرنے لگا تو سزا ہونے لگی ) تھی Detention class سزاکا ایک موثر نظام ڈٹینشن کلاس چھٹی کے بعد تمام کالج کے سزا یافتگان کو ایک کمرے میں دوگھنٹے کیلےؑ خاموش بٹھادیا جاتا تھا ۔ نظر کتاب پر رکھنا ضروری تھا ورنہ سامنے بیٹھ کے گھورنے والا نگراں پروفیسر سزا بڑھا دیتا تھا، یہ بڑا عزاب تھا۔ایک بارپروفیسرخواجہمسعود ( زباں پہ بار خدایا یہ کس کا نام آیا)۔حساب کی کلاس لے رہے تھے اور میں حسب معمول آخری بنچوں پراپنے جیسوں کے ساتھ تھا۔ انہوں نے مجھے گدھے کی آواز نکالنے پر اکسایا اورجب خواجہ صاحب کا رک بلیک بورڈ کی طرف تھا میں نے سر نیچا کرکے آواز نکالی۔ خواجہ ساحب نے پلٹ کے دیکھا اور ۔ مرکز نگاہ بھی میں تھا اور سب سے زیادہ سنجیدہ بھی۔ انہوں نے مجھے ایک رقعہ دے کر پرنسپل آر آر اسٹیوارٹ کے پاس بھیج دیا۔ وہ مجسم شرافت پیکر انسانیت بوڑھا جتنا شفیق تھا اتنا ہی ڈسپلن میں سخت تھا۔۔ اس کے کمرے میں میز کے گرد ملاقاتی تھے، پرنسپل نے رقعہ پڑھااورمسکرایا
"خواجہ صاھب نے لکھا ہے کہ تم گدھے ہو؟" وہ بولا'کیا یہ ٹھیک ہے"
میں نے اعتراف جرم میں عافیت جانی " جی۔۔غلطی ہوگیؑ۔۔۔"
"نو نو۔ تم سے نہیں مجھ سے غلطی ہویؑ کہ انسانوں میں بٹھادیا"۔ پھر اس نے حاضرین کو میرے کارنامے کا بتایا، سب ہنسنے لگے تو پرنسپل نے کہا" زرا گڈھے کی زبان میں مجھ سے کہو کیا کہنا تھا"
مجھے پسینہ اگیا اور میں سر جھکاےؑ کھڑا رہا۔ مجھے 15 ڈیتینشن کلاسیں دی گییںؑ لیکن اس روز ایک نیا تماشا ہوا۔ مجھے سب سے آگے لڑکیوں کی جگہ دی گیؑ، دو سزا یافتہ لڑکیاں سرک کے اخر میں ہوگییںؑ، جب پروفیسر برک سامنے آکےبیٹھے تو انہوں نے تازہ منگوایا گیا گھاس کا ایک گٹھا میرے سامنے ڈال دیا۔ باہر سے گزرنے والے ٹھٹک کر رکتے ہنستے تھے۔ بے عزتی کا یہ سلسلہ پورے پندرہ دن جاری رہا۔انہی دنوں عوام کے اکسانے پر میں نے "بریگیڈیر" سے اظہار عشق بھی کر دیا۔ بریگیڈیر در اصل بی اے فاینل کی طالبہ ایک دراز قد صحت مند اور گوری چٹی لڑکی تھی۔ سینہ تان کے اور گردن اٹھا کے چلتی تھی بلا جھجک کلاس کے لڑکوں اور پروفیسروں سے بات کرتی تھی تو بلند آواز میں قہقہے لگاتی تھی اور حد درجہ بیباک تھی اس نے الیکشن میں حصہ لیا اور جیت کا جلوس نکالا۔ایک وہ ڈرامے میں بریگیڈیر بنی تو اس نام سے مشہور ہوگیؑ۔ اس پر بلا تفریق سارا کالج فریفتہ تھا۔ میں کیوں پیچھے رہتا۔ ایک بار کلاس تبدیلی کے دوران وہ اوپر سے نیچے آرہی تھی۔ اوپر جاتے ہوےؑ رک کر میں نے کہا "طلعت۔۔ ایؑ لو یو"۔ آگے پیچھے سب ہنسنے لگے۔میں اس کے کندھے تک بھی نہیں پہنچتا تھا۔ طلعت مسکرایؑ اس نے جھک کر میرا کان پکڑ لیااور بولی"منے۔۔ اپنے برابر کی لڑکیوں کو پھنساو"
اس دن کے بعد میں کالج نہیں گیا۔آج اسے اپنی بد نصیبی ہی کہہ سکتا ہوں کہ جہاں اسٹیورٹ جیسا پرنسپل تھا۔۔ جے بی کمنگ اور آر ایف ٹیبی کے ساتھ خواجہ مسعود۔۔ ڈاکٹر صادق اور وکٹر مل جیسے پڑھانے والےتھے وہاں میں نہ پڑھ سکا مجھے اپنے جیسوں کی صحبت مل گیؑ۔ ہم سگرٹیں پیتے۔کلاس سے غیر حاضر رہ کے ہوٹلوں میں بیٹھتے چاےؑ پیتےفرمایؑشی فلمی گانے سنتے رہتے۔ پانچ آنے والی تھرڈ کلاس میں ہر نیؑ ریلیز ہونے والی فلم دیکھتے پیسے کم پڑے تو فیس خرچ کردی۔ پوچھنے والا کون تھا پھر یہ معمول بن گیا۔۔ انجام کارکالج سے تعلق ہی نہ رہا لیکن گھر سے انے جانے کا معمول نہ بدلا۔ افشاےؑ راز کے بعد بغاوت کرتے ہوےؑ میں نے اپنی زندگی کی کمان اپنے ہاتھ میں لی اور آرٹس میں انٹر کرلیا گریجویشن میں نے پشاور کے ایڈوردز کالج سے کیا اور وہیں سے میری ادبی زندگی کا آغازہوا۔ شاید اپ کے لےؑ باعث دلچسپی ہو کہ اس سے پہلے کے دور آوارگی میں ناچیز نے شاعری کی اور میری نظمیں پاولپنڈی کے روزنامہ "تعمیر" کے ادبی ایڈیشن میں شایع ہوتی رہیں جس کے مدیرمرھوم نسیم حجازی تھے۔ پھر بھی میں نے کبھی خود کو شاعر کہا نہ سمجھا
اب وقت کے سفر میں آگے بڑھنے سے پہلے میں مشن کالجوں کے تعلیمی ماحول کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں جن کا میری شخصیت کی تشکیل میں دست قدرت اور والدین کی تربیت کے بعد ایک اہم کردار رہا ہے صرف اس لےؑ کہ مشن اسکول کالج اور ہسپتال کے پیچھے انتظامی مشنری چرچ کی ہوتی تھی۔ اس کام کوغلط یا غیر اخلاقی کیسے کہا جاسکتا ہے۔ قابل تعریف وہ جزبہ ہے جس میں انسانی فلاح کو مقصد بنا کے اعلیٰ ترین صلاحیتوں اور ذاتی اخلاق سے کام لیا گیا۔ میں اس بات کو ذاتی مشاہدات و تاثرات تک محدود رکھوں گا
گورڈن کالج امریکن مشن تھا۔ استذہ میں صرف 3 امریکن تھے پرنسپل آر آر اسٹیوارٹ دنیا کے چار نامور ترین علم نباتات( بوٹنی) کے ماہرین میں سے ایک تھا اور اس کا انتقال 100 سال یا اسکے لگ بھگ عمر پاکے ہوا، دوسرا جے بی کمنگ تھا اور تیسرا آر ایف ٹیبی وہ بھی علمی اعتبار سے کم نہ تھے۔اگر پیسہ کمانا ان کا مقصد حیات ہوتا تو وہ اپنے ملک میں رہ کے بھی دولت مند ہوتے لیکن یہ ان کا انسانی فلاح کا عظیم ضزبہ تھا کہ وہ گھر سے ہزاروں میل دور اس گرم ملک کے بدترین حالات میں جہالت دور کرنے آےؑ ہوے تھے۔ ہمارے اور ان کے تعلیم دینے کے انداز میں ایک بنیادی فرق یہ تھا کہ وہ تعلیم کے ساتھ تربیت کو بھی اپنی ذمے داری سمجھتے تھے۔ہمارے اساتذہ صرف نصاب مکمل پڑھا کے امتحان پاس کرا دینا کافی سمجھتے ہیں۔ گورڈن کالج میں بھی اساتذہ خود اپنے کردار کو قابل تقلید نہ بناتے تو ان کی باتیں بھی کھوکھلے الفاظ رہ جاتے۔ پرنسپل تو انتطامی سربراہ تھا۔ بیک وقت ڈسپلن میں سخت اور سلوک میں مجسم شفقت۔ ٹیچر بھی کلاس اور ٹیکسٹ بک سے الگ ذاتی تعلق کو اہم سمجھتے تھے۔ گورڈن کالج میں خود انحصاری پر زور تھا۔پرنسپل کہتا تھا۔۔"پہلے ماییؑں تمہیں نکما بناتی ہیں۔ تمہارا ہر کام خود کرتی ہیں۔ پھر بیوی آجاتی ہے جو تمہارا کھانا پکا کے سامنے رکھتی ہے تمہارے کپڑے دھوتی ہے اوراستری کرتی ہے اور تمہارے جوتے پالش کرتی ہے۔ تم آواز لگا کے بچوں یو چھوٹوں سے کہتے ہو کہ تمہیں پانی پلادے۔ تم ناکارہ اور مفلوج مرد ہو"
اس کا عملی مظاہرہ ہم نے وایس پرنسپل کے گھر دیکھا۔ فرسٹ ایر کے کچھ طلبا نے اس سے رمضان میں روزہ رکھنے کا کہا ۔ اس نے کہا کہ روزہ اچھی چیز ہے میں رکھ لوں گا۔ ہم مصر ہوےؑ کہ اپنے طریقے سے نہیں ہمارے طریقے سے۔۔ وہ اس پر بھی مان گیا"میری شرط ہے کہ تم افطاری میرے ساتھ کروگے"۔۔یہ بات ہم نے مان لی۔ شام کو ہم کالج کے اندر اس کے بنگلے پر پہنچ کے لان پر لگی کرسیوں پر مہمانوں کی طرح بیٹھ گےؑ۔ میاں بیوی میزوں پر سامان لگانے میں مصروف رہے۔ کچھ دیر بعد ہم نے پوچھا"سر نوکر نہیں ہے آپ کے پاس؟" ۔۔ وہ ہنس پڑ۔۔ ہم دو میان بیوی ایک بچہ۔۔ ہمیں نوکر کی ضرورت ہی نہیں"۔ اب ہمیں شرم آیؑ تو ہم ان کے ساتھ سامان لگانے اور پھر سمیٹنے میں لگے۔ وہ پک نک پر جاتے تو اپنا سامان خود اٹھاتے کھانا کسی کی بیوی پکاتی۔ میرے پاس ایک تصویر تھی جو اب نہیں ہے۔ اس میں پرنسپل اپنی پلیٹ اور مگ لےؑ طلبا کی لایؑن میں کھانا لینے کیلۓ کھڑا ہے اور اس کی بیوی کھانا تقسیم کر رہی ہے ۔کسی کیلےؑ ترجیحی سلوک نہیں
ایک سالانہ جشن "فاونڈرزڈے" تھا جو مارچ میں منایا جاتا تھا۔ یہ ایک گرینڈ پکنک ہوتی تھی جس کا سارا انتظام کالج کرتا تھا طلبا سے براےؑ نام کچھ لیا جاتا تھا ایک سال پورا کالج ریلوے سے اسپیشل ٹرین کراےؑ پر لے کر ٹیکسلا گیا اور وہاں پورا دن گزاراٹرین رات کو کسی پلیٹ فارم پر لگ گیؑ تھی۔ من چلے ہر قسم کی ہیؑت کذایؑ میں رات کو ہی پہنچ گےؑ انہون نے ٹرین کو سجایااور غول کی صورت میں ناچتے گاتے پھرے۔ اکثریت شہر کے با رسوخ حکام کی اولاد تھی۔ منع کون کرتا صبح جب ٹرین روانہ ہوےؑ تو طالبات کے ڈبوں کی کھڑکیوں سے ان کے رنگین آنچل لہرا رہے تھے اور ایک بوگی پر نصب لاوڈ اسپیکر سے بلند آواز میں فلمی گانے بجاۓ جارہے تھے۔۔اعلان ہوتا تھا" پرنسپل آر آر آسٹیوارٹ کی فرمایش۔۔ تیرے مکھڑے تے کالا کالا تل وے" خوب تالیوں اور سیٹیوں کے بعد بتایا جاتا تھا کہ فلاں فلاں کے مکھڑے پر تل پایے جانے کی رپورٹ ملی ہے۔ راستے میں دیکھنے والے سمجھتے تھے کہ کسی کی بارات والی ٹرین ہے۔ ٹیکسلا کے باغات میں سارا دن یوں گذرا کہ پروفیسرزر لڑکیون کے درمیان رسہ کشی ہویؑ۔ لڑکیاں نسبتا" جوان تھیں پروفیسر بہت جلد ہار گےؑ ۔ آخر میں رسا کیمسٹری کے بھاری بھرکم پروفیسر شاہ رحمان کی وسیع کمراور توند کے گرد لپیٹا گیا تھا ۔وہ واویلا کرتے رہے اورؒرکیاں ان کو کھینچے پھریں پرنسپل سمیت اسٹاف نے پنجابی گانے گاےؑ اور ڈانس بھی کے۔ طلبا اور ظالبات کا والی بال میچ لڑکیوں نے جیتا۔ ؒڑکیون نے فینسی ڈریس شو کیالڑکے کامیڈی ایؑٹم تیار کرکے لاےؑ تھے۔ ایسے یگانگت کے ماحول میں تعلیمی فضا یقینا" بہتر ہوتی تھی۔ مخلوط تعلیم نے ایٹی کیٹس اور رشتوں کا احترام سکھایا اعتماد دیا اور شخصیت اور کردار کی تشکیل میں بڑا اہم کردار ادا کیا۔کالجوں کے قومیاےؑ جانے کے بعد یہ سب خواب و خیال ہوگیا
ابھی مستقبل کا طے نہیں کیا تھا کہ کیا پڑھنا ہے۔اچانک ابا کو سرکار کا حکم ملا کہ بہت دن گزار لےؑ یہاں۔اب ذرا پشاور دیکھ آو۔۔ سنتے اےؑ تھے کہ آبا و اجداد یوسف زیؑ پٹھان تھے۔جا کے دیکھا تو پشاور بھی پندی جیسا ہی ایک شہر لگا۔ ۔ اس تاریخی "پرش پور" شہر کے تہہ در تہہ اسرارکے پرت وقت کے ساتھ ساتھ کھلے۔ پہلا ٹھکانہ صدر سے ملحق نوتھیا کا علاقہ تھا جو پنڈی کے ٹنچ بھاٹہ جیسی ہی پسماندہ آبادی تھی۔چند سال پہلے یہ ایک انتہایؑ بدنام جگہ تھی جہاں شریف آدمی دن میں بھی جاتےہوےؑ ڈرتا تھا۔بدمعاش جوےؑ اور شراب کے اڈے چلاتے تھے اسلحے کی فراوانی تھی اور قانون کا عملا" یہاں عمل دخل نہ تھا۔ جب قیوم خاں نے بطور چیف منسٹر عنان حکومت سنبھالی تو علاقے میں قانوں کی حکمرانی قایم کی۔ بدمعاشی کرنے والے جیل میں دال دےؑ گے یا مار دےؑ گےؑ اور یہاں ایر فورس والوں کو اباد کیا گیا۔ حالات سے نا واقف ابا نے صدر بازار کے ساتھ کرایہ کم دیکھا تو ایک مکان لے لیا۔ اس وقت تک "لیڈی ہملٹن" نام کے سیاہ ریشمی کپڑے کے برقعے عام ہو چکے تھے اور اماں نے بھی بالاخر جدی پشتی لٹھے کے برقعے کو طلاق دے دی تھی۔ لیکن اس محلے کے "شرفا"کا ایک وفد اگلے دن ابا سے ملا اور کہا کہ ایسا برقعہ یہان صرف طوایفیں استعمال کرتی ہیں شریف عورتیں سفید لٹھے کے برقعے میں نکلتی ہیں۔بحث کون کرتا۔ اماں نے پھر پرانا برقعہ جھاڑ کے نکالا ۔روم میں وہی کرو جو رومن کرتے ہیں
نوتھیا کی ایک وجہ شہرت تب بھی "کریم کبابی" تھا ۔ تقریبا" نصف صدی بعد "چرسی" نے اس کی جگہ لے لی ہے مگر وہ چپلی کباب کا زایقہ کہاں جو شہر بھر کو کھینچ لاتا تھا تھا۔محمودو ایاز ایک صف میں اس کی دھویں سے سیاہ دکانوں کے سامنے قطار میں باری کا انتظار کرتے تھے، دھوپ اور بارش سے کالی پڑ جانے ولی بان کی موٹی چارپاییؑوں پر بیٹھے کھانا کھاتے تھے اور ان کی شاندار گاڑیں قطار میں کھڑی نظر اتی تھین۔میں نےان مییںوزرا ہی نہیں گورنر کو بھی عام آدمی کے ساتھ بیٹھا دیکھا تھا۔تنگ بازار میں داخل ہونے والے کو کسی سی پتا پوچھنے کی ضرورت ہی نہ تھی۔ دھویں کے ساتھ جانے والی کبابوں کی خوشبواسے کھینچ لیتی تھی۔ پشاور میں روٹی بھی "خاص" تھی۔ ایک کمرے میں چھت سے ترازو جیسے موٹا کپُڑا لگے دوپلڑے لٹکے ہوتے تھے ۔فرش پر بیٹھا ایک شخص ان کو اپس میں ٹکراتا تھا تو کچھ باریک آٹا چھن کے گرتا تھا اسے اسپیشل خمیر کے ساتھ گوندھا جاتا تھا۔۔ اسپیشل خمیر کا بھی ایک طریقہ تھا، ہر روز کے گندھے ہوےؑ آٹے میں سے ایک پیڑا نکال کے الگ رکھ دیا جاتا تھا۔ مہینے بھر بعد پہلا پیڑا اٹھا کےآ خر میں نیا پیڑا رکھا جاتا تھا اور پرانا والاخمیر کا کام دیتا تھا۔۔ واللہ اعلم۔۔ لیکن سفید پھولی ہویؑ اور تنور سے نکلنے والی گرم روٹی کی خوشبو سے پیٹ میں مروڑ سے اٹھنے لگتے تھے
نوتھیا کے اس علاقے میں 26 دن قیام کا تجربہ تو انتہایؑ خراب رہا، اس عرصے میں 5 قتل ہوگےؑ۔ ایک ہمارے ہمساےؑ میں شادی تھی ہم کھانا کھا کے آےؑ سونے لیٹے تھے کہ چیخ پکار مچ گیؑ۔ معلوم ہوا دولھا کو سلامی میں موٹر سایؑکل ملی تھی جو وہ جوےؑ میں ہار گیا اور دینے سے انکار کیا تو تو دوستوں نے اسے قتل کردیا، ایک پروفیسر ہٹا کٹا کسی ہوٹل میں چاےؑ پینے بیٹھا تو ایک بدحال چرسی نے ہاتھ پھیلایا" چرانی دے کہ چا پیواں" اس نے دفع ہونے کا کہا۔ وہ ا ڑا رہا تو پروفیسر نے آہستہ سے دھکیلا جھاڑ جھنکاڑ بالوں والے غلیظ اورہڈیوں کے ڈھانچے چرسی نے اچانک چاقو نکالا اورپروفیسر کے گھونپ دیا۔ وہ وہیں مرگیا۔ ہم سخت گھبراےؑ کہ یہ کہاں آ پھنسے۔ ابا نے دوڑ دھوپ اور داد فریاد کی ۔ باڑہ لایؑن میں سرکاری کوارٹر الاٹ ہوگیا تو سامان سمیٹ کر بھاگے۔ پشاور کے بارے میں یہ اولیں تاثرات بہت جلد زایلؑ ہو گےؑ،
مجھے ایڈورڈز کالج میں داخلہ مل گیا جو صوبہ سرحد کی سب سے قدیم اور نیک نام درسگاہ تھی۔گورڈن کالج امریکن مشن تھا، ایڈورڈز کالج آسٹریلین مشن ۔ لیکن اس کے مقبلے میں یہ بہت چھوٹا تھا یہاں صرف 350 طلبا تھے۔۔ بس کویؑ نہ تھی دو سال میں سردی گرمی کورٹر کے بالک پیچھے سے گزرنے والی ریلوے کی پٹری پر چلتا 3 میل دور کینٹ اسٹیشن جاتا رہا ۔ اس کے بالکل سامنے کالج تھا ۔یہ کام آسان نہ تھا دو سلیپروں کا درمیانی فاصلہ میرے ایک قدم سے بہت زیادہ تھا ۔ بیچ میں پتھر ہوتے تھے جو گرمی میں انگاروں کی طرح تپتے تھے یہ لنڈی کوتل جانے والی ریلوے لایؑن تھی۔اگے پیچھے دو انجنوں والی ٹرین ہر اتوار کی صبح جاتی تھی تو عجیب منظر ہوتا تھا ٹکٹ کویؑ نہیں لیتا تھا۔ مسافر چھت پر اورہر انجن پر یوں چمٹے نظر اتے تھے جیسے شہد کےچھتے پر مکھیاں۔۔ سست رفتار ٹرین ایک جگہ پہاڑی کے گرد گھوم کے آتی تھی تو منچلے ٹرین چھوڑ کر نیچے اتر جاتے تھے اور ٹرین آتی تھی تو پھر دوڑ کر سوار ہوجاتے تھے۔ لنڈی کوتل سے لوگ اسمگل شدہ سامان خسوصا" زنانہ ریشمی کپڑا بھی لاتے تھے الیکٹرانکس اور کراکری بھی لیکن ایک خاص چیز دنبے کی کڑھایؑ تھی جو اس وقت پاکستان میں کہیں دستیاب نہ تھی۔ میں پہلی بار ایک جگہ کھانے بیٹھا تو لکڑی کی بھدی بے رنگ مکھیوں سے بھری میز پر میرے ساتھ تین مقامی لوگ تھے۔ ارد گرد کے لوگ روایت کے مطابق کھانا پہلے شروع کرتے تھے تو سب کو مدعو کرتے تھے۔ کچے پکے گوشت کو میرے سوا سب مزے لے لے کر کھا رہے تھے۔ درمیان میں ڈالڈا کا ڈبا جگ کا کام کر رہا تھا لیکن پانی پینے کیلےؑ گلاس نہ تھا۔ میں نے گلاس مانگا تو باقی سب نے برا منایا۔ ایک نے ڈبا اٹھا کے منہ سے لگایا اور بولا " ایسے پیو۔۔ ہم سب ،سلمان بھایؑ ہے"
مجھے ایڈورڈز کالج میں داخلہ مل گیا گورڈن کالج امریکن مشن تھا۔یہ آسٹرہلین مشن لیکن یہ بھت چھوٹا تھا۔ اس وقت یہان صرف 350 ظالب علم تھے مجھ سے 4 سال قبل یہاں احمد فراز تھے ٹسٹ کرکٹر حسیب احسن میرے کلاس فیلو رہے۔۔بہت پہلے راجکپور فیملی ( رشی کپور ششی کپور کرینہ اور کترینہ کپوررنبیر کپور وغیرہ)کے بانی پرتھوی راج کپور اسی کالج میں ڈرامیٹک سوسایؑٹی کے صدر رہے تھے۔ حیرت انگیز بات ہے کہ یہ کپور خود کو پٹھان کہتے ہیں، سری دیوی کا دیور ہے انیل کپور۔ اس نے ایک انٹرویو میں کہا کہ ہم پٹھان ہیں۔ میری دادی آج بھی پشتو بولتی ہے۔ سرحد اور پشاور میں آج بھی ہزاروں سکھ آباد ہیں جو صرف پگڑی کی وضع سے پہچانے جاتے ہیں۔ یہ غالبا" رنجیت سنگھ کے دور میں پنجاب سے گےؑ تھے جب سرحد اور پنجاب ایک صوبہ تھے۔ ایڈورڈز کالج کے پیچھے توپخانہ بازار کی ایک گلی میں سکھ حکیم آباد ہیں جن کے پاس علاج کیلؑے بڑی تعداد میں پٹھان مریض آتے ہیں
۔ کالج کے پرنسپل "فل ایڈ منڈ" میں مجھے گورڈن کالج کے پرنسپل آر۔ آر اسٹیوارٹ کی شبیہ نظر آتی تھی۔وہی پر تقدیس سفید بالوں والی شفیق شخصیت۔دن رات تدریس کی لگن کسی تہجد گزارعابد شب زندہ دار جیسی۔طالب علم کے ساتھ ایک ذمے داری کاپر خلوص روحانی تعلق ۔ اساتذہ کے نزدیک تعلیم کا مشن زیادہ اہم تھا لیکن تعلیم کو وہ محض نصاب تک محدود سمجھنے کے قایل نہیں تھے۔ وہ تربیت کو اس کا حصہ سمجھتے تھے۔ کالج میں گرے پتلون اور سفید قمیص کی یونیفارم تھی۔ پتلون ملیشیا کی ہو یا وورسٹڈ لیکن اس پر استری ہونا بھی اتنا ہی لازمی تھا جتنا جوتوں پر پالش ورنہ پرنسپل نے نوٹ کرلیا تو شامت۔۔اس کا لیکچر سننا پڑتا تھا۔۔" جو خود اپنی دیکھ بھال نہ کر سکے وہ فیملی کیلےؑ کیا کرے گا؟ سوسایؑٹی کے لےؑ ملک کیلےؑ کیا کر سکے گا۔۔" ایک انگلش کے پروفیسر واکر تھے جو 50 سال جامعہ ملیہ دہلی میں پڑھا کے ایڈورڈز کالج آگےؑ۔۔ معلوم نہیں کیوں۔۔ شام کو واک پر نکلتے تھے تو مال کے ایک کنارے پر کالج تھا وہ دوسری کنارے کو چھوکر آتے تھے ۔ راہ میں جو شامت کا مارا لڑکا ملا ساتھ لے لیا اور اب وہ سنے نہ سنےغالب اور میر سے فیض تک کی شاعری پر اردو میں وہ عالمانہ گفتگو کہ ؎ وہ کہیں اور سنا کرے کویؑ ۔۔۔
مغرب کی تقلید میں مدرز ڈے منانے کی روایت نیؑ ہے لیکن اس کالج میں 60 سال پہلے بھی "مدرز ڈے " بڑے اہتمام سےہوتا تھا تو ماییؑں صبح سے شام تک کالج کی مہمان۔ طلبا کا داخلہ ممنوع۔ دن میں سب کچھ ہوتا تھا ماوں کی دوڑیں۔۔ بوری ریس اور تین ٹانگ کی دوڑ کا مقابلہ۔۔ رسہ کشی۔۔ پروفیسرز کی فیملی ان کے ساتھ شریک ہوتی تھی۔۔ سارادن زبردست خاطر تواضع کالج کی طرف سے جاری رہتی تھی۔ شام کو انہیں شاندار تحایف دے کر رخصت کیا جاتا تھا ۔۔ مارچ میں سالانہ ڈنر طلبا کیلےؑہوتا تھا پہلے فرسٹ ایر سروس کرے گی۔۔ پھر تھرڈ ایرانہیں کھانا کھلاےؑ گی۔ اگل صبح دس بجے حسب معمول ہال میں اسمبلی ہوتی تو روایت کے مطابق فورتھ ایر اوپر گیلری میں۔ ہالل میں تھرڈ ایر سب سے پیچھے فرسٹ ایر اگے۔ رسمی دعا کے بعد پرنسپل اعلان کرتا " کل ڈنر میں اتنے چمچے چھریاں کانٹے غایب ہوے۔ جو لے گےؑ ان کو مبارک۔۔ لیکن ان کو یہ نہیں سمجھنا چاہےؑ کہ وہ بہت چالاک ہیں۔ ایسا ہے تو آج رات میرے ڈراییؑنگ روم کے دروازے کھلے ہوں گے اور میز پردن بھر کا کیش رکھا ہوگا۔ وہ ایک روپیہ لے جاکر دکھاییؑں۔ میں ان کو پاگل کتے کی طرح گولی نہ ماردوں تو کہنا۔۔ ایک بات یاد رکھو۔۔ جہان بھروسے اور اعتماد کی بات ہو وہاں آپ کو جان کی بازی لگا کے امانت کی حفاظت کرنی ہے۔ہاں ہمت والے ہو تو ڈاکا ڈالو۔۔چمچے کانٹے کچھ نہیں ۔۔میں تم کو اعتماد پر پورا اترنا سکھاوں گا ورنہ تمہاری قوم تو پانی پینے والے سلور کے گلاسوں کو بھی زنجیر سے باندھ کر تالا لگاتی ہے"۔ یہ اخری جملہ ہمارے منہ پر جوتے کی طرح لگتا تھا لیکن کالج اسے اپنی زمے داری سمجھتا تھا کہ بھروسہ سکھاےؑ۔۔ ایسے ہی گورڈن کالج میں اپنا کام خود کرنے کا عملی درس دیا جاتا تھا۔۔ہمارا وایؑس پرنسپل جے بی کمنگ کہتا تھا۔۔"تم ایک معذور قوم ہو۔ماں تمہاری نرس ہوتی ہے۔ پھر بیوی ملازمہ بن کے آجاتی ہے۔ وہ کھانا پکاتی ہے تمہارے کپڑے استری کرتی ہے جوتے پالش کرتی ہے ۔۔ تم بچوں سے بہن بھاییؑوں سے کہتے ہو پانی پلا دو " وہ ٹھیک کہتا تھا۔ اس وقت کالج میں شخصیت کی تعمیروتشکیل ہوتی تھی اب نصاب بھی پورا نہیں ہوتا۔ شارٹ کٹ بتاےؑ جاتے ہیں ورنہ ایم اے کیا پی ایچ ڈی کی ڈگری خریدی بھی جاسکتی ہے ، چنانچہ اب لاکھ شرمناک سہی۔۔ یہ ضروری ہے کہ ہر ڈگری کے اصلی ہونے کی تصدیق ہو
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔