میں کون ہوں اے ہم نفسو۔۔6
————————-
پنڈی کہ ایک شہر تھا۔۔۔۔
اپنے میر ساحب جب دہلی سے لکھنو پہنچے تو کسی مشاعرے میں ان کی فقیرانہ وضع کا تمسخر اڑانے والوں نے سوال کیاکہ میاں کہاں کے ہو۔۔ باری آنے پر انہوں نے جو قطعہ پڑھا وہ امر ہوگیا
کیا بود وباش پوچھو ہو پورب کے ساکنو۔۔ہم کو غریب جان کے ہنس ہنس پکار کے
دلی کہ ایک شہر تھا عالم میں انتخاب ۔۔۔ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے
اجنبی شہر میں ہم پھر نا آشناہوےؑ۔ اگرچہ مہماں نوازی کےرویوںمیں فرق نہ تھا مگر لاہور سے صرف 171 میل کی دوری پر واقع شمالی حصے کے اس شہر کی زبان اور ثقافت مختلف تھی۔ 67 سال پہلے یہاں جو زبان بولی جاتی تھی وہ پوٹھوہاری تھی۔۔اس پنجابی سے یکسر مختلف جو لاہور والی زرینہ کی زبان تھی اور میں نے سیکھ لی تھی۔مثلا" اٹھا لے " کہنا مقصود ہو تو لاہور والے کہیں گے "چک لے" اور پنڈی میں کہا گیا "چایؑ کھڑ"۔۔ لاہور میں " کہاں جاکے بیٹھ گیا تھا " ہوگا "کتھے جا کے بے گیا سیں"۔۔پوٹھوہاری میں " کر گشی کے بییؑ ریا سیں" ہو جاےؑ گا۔۔ پنجابی کا" تھلے جا کے کھانالے آ" پنڈی کی پوٹوہاری میں "بن گچھی کے ٹکر کنہی آ" ہوگا۔ اب یہ زبان شہری علاقے میںکم سنی جاتی ہے سب سے جدا اس زبان کی وہ گالیاں تھی جو چھوؑے بڑے یکساں روانی سے دینے اور سننے کے عادی تھے اور اپنی ایک واضح انفرادیت رکھتی تھیں لیکن اب کہیں سنایؑ نہیں دیتیں ۔۔ مجھے ابتدا میں خاصی مشکل پیش آیؑ لیکن راجہ بنارس خان ٹال والا اورارد گرد کے سب لوگ فراخدل اور مہرباں تھے۔ کسی پسماندہ گاوں جیسے ماحول میں دو نیم پختہ کمروں والا آبادی کا آخری مکان شاید دو مرلے یا 60 گز پر محیط تھا۔اس میں کچن نہیں تھا گرمی میں اس صحن کے بعد جس میں مونجھ سے بنے تین پلنگ ڈال دےؑ جاتے تھے۔ ا۔۔یک اماں کا دوسرا ابا کا اور تیسرا ہم دو بھاییوؑں کیلےؑ۔۔ ایک اور کمرا تھا جو بیٹھک کا کام دیتا تھا ۔ ایک چارپایؑ۔ دو بید کی بنی کرسیاں اور ایک میز اس کی کل کایؑنؑات تھی سفیدی کی تہمت رکھنے والی نیم پختہ دیواریں کسی دریچے یا روشندان سے محروم تھیں ۔
اماں کا مٹی سے بنا چولھا صحن کے ایک درخت کے نیچے رہتا تھا لیکن سردیوں میں اور بارش کے موسم میں کمرے کے اندر ر چلا جاتا تھا، روٹیانں بیلتی اماں چولھے میں جلایؑ جانے والی لکڑیوں کو روشن رکھنے کیلےؑ"پھونکنی "سے ہوا دے دے کر ہانپنے لگتی تھیں۔چمٹے سے انگارے کریدتی جاتی تھیں۔اکثر کمرے میں دھوں بھر جاتا تھا ۔ موسم سرما میں جلتی لکڑیوں کی حرارت اچھی لگتی تھی لیکن دھویں سے دم گھٹنے لگتا تھا اور آنکھوں میں جلن سے انسو آنے لگتے تھے تو دروازہ کھولنا پڑتا تھا اور برفیلی ہوا یا بارش کی پھوار اندر آتی تھی۔ بعد میں یہ ہوگیا تھا کہ آسمان پر بادل دیکھ کر اماں ہمہں دوڑاتی تھیں کہ " بنارس سے لکڑیاں لے آو۔۔ اس سے کہنا پتلی سوکھی دے نیچے سے نکال کے"۔۔۔میں اور بھایؑ ایک فرلانگ سے زیادہ لمبی گلی طے کرکے بنارس کی ٹال پر جاتے تھے۔ وہاں چیری ہویؑ لکڑیاں کسی دیوار کی طرح چنی ہوتی تھیں۔ راجہ بنارس خان پانچ پانچ سیر لکڑیاں تول کر میرے اور بھایؑ کے ہاتھوں پر رکھ دیتا تھا اس سے زیادہ بوجھ اٹھانے کی ہم میں سکت کہاں تھی۔ہم اسی گلی میں فرلانگ بھر سے زیادہ واپسی کا سفر طے کرتے تھے تو ہمارے بازو شل ہوجاتے تھے۔گیس کا اسوقت نام کویؑ نہ جانتا تھا
کھانے کے وقت ابا کو پہلے ٹرے میں سالن کی پلیٹ اور گرم روٹی دے دی جاتی تھی جو وہ چارپایؑ پر بیٹھ کے کھاتے تھے۔ہم دو بھایؑ فرش پر آ؛تی پالتی مارے اماں کے قریب بیٹھے رہتے تھے ۔گھر میں ڈھایؑ آنے پاو والابکری کا آدھا پاو گوشت اتا تھا تو ا س میں عموما" گنتی کی پانچ بوٹیاں ہوتی تھیں۔ دو ابا کی ایک ایک میری بھایؑ کی اور اماں کی۔( گاےؑ کا گوشت ہم نے 1967 میں شروع کیا )۔ سالن میں آلو یا مولی شلجم کے ساتھ شوربہ پتلا رکھا جاتا تھا کہ کم نہ ہو۔۔سردی گرمی چولھا اماں ابا کے بیڈروم میں جلتا تھا کیونکہ وہ صبح دم ابا کو دفتر جانے سے پہلے ناشتا بنا کے دیتی تھیں۔ ابا نے ناشتے میں انڈے کو یوں لازمی کیا تھا کہ آج تک میں اور میرے بچے انڈا پراٹھا فرض سمجھ کے کھاتے ہیں یہاں تک کہ عید والے دن بھی نماز کیلےؑ جانے سے پہلےشیر خورمہ اپنی جگہ۔۔واپسی پر مطالبہ وہی انڈا پراٹھا۔۔ پراٹھے کی جگہ اب ڈبل روٹی نے ضرور لے لی ہے مگر انڈا ناگزیر۔۔ تیسری چوتھی نسل تو نہ جانے کیا کچھ کھانے لگی ہے۔۔ کروساں۔۔ ساسیج۔۔اسٹیکس
لکڑیاں لانے کی طرح ہفتہ دس دن میں ایک اور مشقت ناگزیر تھی،، ابا بازار سے گندم لاتے تھے ۔امان دھونے سے پہلے کنکر چنتی تھیں پھر چارپایؑ پر چادر پھیلا کے گندم دھوکر ڈالتی تھیں۔ خشک ہونے کے بعد میں اور بھایؑ دو تھیلوں میں ڈال کے سڑک تک اٹھا کر لے جاتے تھے۔ بنارس خاں کی ٹال کے سامنے ہی چکی تھی۔ اس کا ایک ہی بہت بڑا شاید دس بارہ فٹ قطر کا پہیہ تھا۔ڈیزل مشین چلتی تھی تو یہ پہیہ گھومتا تھا اور آٹا پیسنے والے پتھر کے پاٹوں کو گھماتا تھا۔ اس سے "پخ پخ " کی تیز آواز پیدا ہوتی تھی جو چھت کی چمنی سے خارج ہوتی تھی اور دور دور تک سنایؑ دیتی تھی ۔۔ اندر ڈیزل کی تیز بو اور اس کی کالی چکناہٹ بھری رہتی تھی۔ ایک قیف میں ڈالی جانے والی گندم نیچے سفید آٹے کی صورت میں نکلتی تھی اور اڑتے آٹے سے بھوت بنا ایک شخص اسے دونو تھیلوں میں ڈال کے ہمارے حوالے کرتا تھا تو آٹابہت گرم ہوتا تھا۔ پسایؑ کا معاوضہ شاید ایک پیسہ فی سیر لیا جاتا تھا۔ اس چکی سے جڑا ایک حادثہ بھی مجھے یاد ہے۔ ایک بار نہ جانے کیسے یہ دیو ہیکل فولادی س پہیہ نکل گیا تو دیوار توڑتا سڑک پر آیا جو اتفاق سے خالی تھی۔سڑک عبور کرکے وہ ایک کھیت میں گھسا اور بالاخر ایک مکان سے ٹکرا کے رکا۔ تب تک اس کی قوت میں کمی آچکی تھی چنانچہ ایک دیوار منہدم ہویؑ اور ایک بڑھیا کو فورا" دنیا سے جانا پڑا۔ اس حادثے نے بہت سنسنی پھیلایؑ تھی
آبادی اور عام رہن سہن کے اعتبار سے یہ پسماندہ محلہ کسی گاوں سے بدتر تھا۔پرچون کی دو دکانیں راجہ کرم داد اور اس کے بھایؑ فیروز کی تھیں۔نیم پختہ سڑک پر ایک چھوٹا سا چاےؑ خانہ"اقبال ہوٹل" تھا۔۔ سبزی گوشت کی ایک دکان تھی ، نہ ٹرانسپورٹ نہ اسکول نہ ڈاکٹر۔ تھا۔ گوالے بہت تھے یا شوقین مزاج تانگے والے جو اپنے تانگوں کو سجا بنا کے رکھتے تھے اور بٹیر بازی کرتے تھے۔ مغرب کے بعد وہ تانگہ سڑک کے کنارے کھڑا کرکے گھوڑیےکو آزاد چھوڑ دیتے تھے اور وہ گلیوں سے گزرتا اپنے گھر پہنچ جاتا تھا۔ وہ خود اقبال ہوٹل پر چاےؑ پیتے فلمی گانے سنتےاور بٹیر لڑاتے۔ہمارے گھر سے آگے جو کھیتوں کا سلسلہ تھا وہ تقریبا" آدھا میل دور ایک قدرتی پانی کے دھارےتک پھیلا ہوا تھا ۔ اسے " کسسی" کہتے تھے کناروں تک نشیب تھا اور ناہموار گہرایؑ۔ پہاڑوں کی طرف سےآنے والے اس چشمے کا صاف پا نی دھیرے دھیرے بہتا کہیں چھوٹی سی جھیل بناتا تھا تو کہیں آبشار۔ محلے کی سب عورتیں چھوٹے بچوں کے ساتھ یہاں منگل کو کپڑے دھونے اور نہانے آتی تھیں۔ چونکہ یہ بات سب کو معلوم تھی تو منگل کومرد ادھر کویؑ نہیں آتا تھا۔ عورتیں بے فکری سے تمام کپڑے اتار کے صبح سےشام تک نہاتی دھوتی تھیں اور اس ہفتہ وار میٹنگ میں دل کا بوجھ بھی ہلکا کرتی تھیں۔ شوہر کے "حرامی پن" اور ساس نند کی کمینگی کا رونا روکے۔ادھر ادھرکی سنسنی خیز خبریں سناکے اور و ہ باتیں کرکے جن پر کھی کھی ہنسنے ۔ایک دوسری کو"چل بے شرم" ہی کہا جاسکتا تھا ۔ وہ بدن کا میل تو خیر اتارتی تھیں اندر کا غبار بھی نکال دیتی تھیں۔۔لیکن یہ میں آج تصور کر سکتا ہوں ۔۔ اس وقت کیسے سمجھ سکتا تھا
غیرارادی طور پر ایک روز میں منگل کو ادھرجا نکلا۔ در اصل میرے ایک بچپن سے اب تک کے ہم عمردوست طارق رفیع نے ( جو بعد میں کمانڈو۔۔ بریگیڈیر اور ڈایرؑیکٹر جنرل اے ایس ایف بنے) ایک دن زبر دست ساینسی انکشاف کیا کہ میڈک کو خشک کرکے اس کا پاوڈر بنا لیا جاےؑ تو اس کے ہر ذرے کو پانی میں ڈالنے سے مینڈک بن جاتا ہے۔ ہم نےبڑے اہتمام سے ایک برساتی پانی کے کیچڑ والے گڑھے میں سے مینڈک پکڑا۔ڈرپوک اور کم ہمت ہونے کی وجہ سے سارے کپڑے اتار کے کیچڑ میں اترنے اور زندہ مینڈک پکڑنے کی ہمت تو خیر آج بھی مجھ میں نہیں۔ طارق نے یہ کارنامہ سر انجام دیا اور ہم نے ایک صحت مند میڈنک کو جھاڑ پونچھ کے چوڑے منہ والی ایک شیشی میں ڈالا اور شیشی کو گڑھا کھود کے دبادیا کہ مہینہ دو مہینہ بعدخشک مینڈک کا پاوڈر بناکے سینکڑوں مینڈک بنانے کا عظیم ساینسی تجربہ کریں گے
روز میں یہی دیکھنے گیا تھا کہ مینڈک پاوڈر بنانے کی حد تک سوکھا یا نہیں۔ نشانی دیکھ کے میں نے شیشی نکالی تو اس میں کچھ ملغوبہ سا متحرک دکھایؑ دیا۔ ڈھکن کھولا تو بدبو کا ایسا بھبکا آیا کہ میں نے بے اختیار شیشی کو پھینکا اور ابکاییا ؑںلیتا بھاگا اور بھاگتا ہوا علاقہ ممنوعہ میں جا پہنچا۔ چکر مجھے پہلے ہی آرہے تھے ۔ پیش نظرہر عمر کی نہاتی دھوتی دس بارہ بے لباس خواتین کو پاکے بد حواسی میں پل بھر کیلےؑ میرے قدم زمین میں گڑ گےؑ۔ میں نے دو چار چیخوں میں ایک آواز سنی۔
"او یہ تو اپنے کرایہ داروں کا پتر اکبال ہے۔۔ کاکا تو یہاں کیا کر رہا ہے؟" ایک بھاری بھرکم ہاتھ میرے کندھے پر جم گیا۔۔ یہ ریشم تھی۔۔ مالک مکان بنارس خان کی 25سالہ لمبی چوڑی طلاق یافتہ بہن۔ میری عمرتو تھی تو تیرہ برس لیکن صحت وہیں کھیلتے سات آٹھ سالہ بچوں جیسی تھی جن کو خواتین گھر پر نہیں چھوڑ سکتی تھیں اور وہ بے ضرر تسلیم کرلےؑ جاتے تھے
اھساس جرم کی شرمندگی نے مجھے مزید کمزور کر دیا تھا۔۔ میں نے گھگیا کے کہا۔۔"وہ جی۔۔مجھے معلوم نہیں تھا۔۔۔"
اس نے ہنس کے دیگر خواتین سے کہا۔" نی کڑیو بچہ ہے یہ تو" ۔۔جو پہلے ہی میری موجودگی کو نظر انداز کر کے اپنے شغل میں مصروف ہو چکی تھیں
"بات کروں تیرے ابے سے۔۔؟"ریشم نے میرا کان پکڑ لیا
میری حالت غیر ہوگیؑ۔۔" وہ بہت ماریں گے مجھے۔۔معاف کر دیں مجھے اور جانے دیں" "اچھا نہیں بتاوں گی۔۔ لیکن تیری سزا یہ ہے کہ سوکھے کپڑے اتار کے تہہ کر" ریشم نے کہا ۔۔ اور میں نے یہ کام کیا۔۔اس وقت کی سنسنی خیز منظرکشی میں جب تک چاہوں جاری رکھ سکتا ہوں لیکن میرے نزدیک یہ ؐمحض ایک حادثہ تھا جس کے سنسنی خیز مناظر کو پڑھنے والے اپنی اپنی قوت متخیلہ سے جیسے چاہیں دیکھ لیں۔ اور غسل کے سین میں اپنی من پسند ہیروییؑن کی جلوہ نمایؑ سے بھی محظوظ ہولیں
1950 تک میں نے اسکول کی شکل نہیں دیکھی تھی۔ سابق ہیڈ ماسٹر ابا نے مجھے ضروری اور غیر ضروری بہت کچھ پڑھادیا تھا ۔ مجھے شکوہ جواب شکوہ اور مسدس حالی ازبر تھیں مگرمیں انگریزی اردوتاریخ جغرافیہ بھی اپنی عمر کے طلبا سے زیادہ ہی جانتا تھا ھساب کا مت پوچھےؑ۔۔ ایں خانہ ہمہ آفتاب است ۔۔شعروادب فنون لطیفہ اور صحافت میں نام بنانے والونں نے والدین کو بہت مایوس کیا جو انکو ڈاکٹر انجنییؑر دیکھنے کے آرزومند تھے۔۔ جب مجھے براہ راست نویں جماعت میں داخل کرانے کی کوشش کی گیؑ تو کہا گیا کہ بچہ ابھی بہت چھوٹا ہے اس سے اگلے سال داخلہ مل گیا۔یہ میرے گھر سے شارٹ کٹ کے ذریعے بھی 3 میل دور لالکڑتی میں تھا۔ گھر سے نکل کے میں کچا راستہ پکڑتا تھا۔۔ اسی "کسسی" یا قدرتی پانی کے دھارے سے گزرتا تھا جو برسات میں چھوٹی موٹی ندی بن جاتا تھا، میں جوتے اتار کے ہاتھ میں پکڑتا اور پاینچے گھٹنوں تک چڑھا لیتا۔اس کی تہہ میں گول چکنے پتھر تھے جن پر سنبھل کے چلنا ضروری تھا، ندی کے بعد کھیتوں کا طویل سلسلہ شروع ہوتا تھا ۔ منڈیروں اور درمیانی کچے راستوں پر میرا وجود کھڑی فصلوں میں گم ہوجاتا تھا۔ بارہا مجھے لومڑی اور گیدڑ نظر آےؑ اور ایک دو بار سانپ بھی سرسراتے راستہ کاٹ گےؑیہ وہ جگہ تھی جو اب ہارلے اسٹریٹ کہلاتی ہے اور جہاں کروڑوں روپے مالیت کی کوٹھیا ںاور ایلیٹ کلاس کے ٹاپ کلاس او لیول یا اے لیول کرانے والے اسکول ہیںاور ٹریفک جام رہتا ہے، ۔۔کھڑی فصلوں یا ہل چلے کھیتوں کے بعد ایک نالہ آتا تھا۔ اس کے کنارے پر چلتا میں اسکول کی عقبی دیوار تک پہنچتا تھا اور دیوار پھاند کے فٹ بال گراونڈ عبور کرتا تھا
سی بی اسکول 1928 میں قایم ہوا تھا۔1950 میں یہ ہایؑ اسکول بنا۔ میں نے دوسال بعد میٹرک کیالیکن اس وقت تک یہاں بجلی نہ تھی ۔چند سال قبل اسکول کے ہیڈ ماسٹر مشہور شاعر منشی ترلوک چند محروم تھے۔ ان کی ابی حیثیت کے بارے میں آپ وکی پیڈیا پر دیکھ سکتے ہیں۔ان کی ایک نظم " مزار نورجہاں" غالبا" 1970 تک میٹرک کے اردو نصاب کا حصہ رہی۔ اس کا ایک شعر دیکھےؑ
دن میں بھی یہاں شب کی سیاہی کا سماں ہے
کہتے ہیں یہ آرام گہ نورجہاں ہے۔!
1943 میں ان کو راولپنڈی کے تاریخی گورڈن کالج میں اردو فارسی کا لیکچرر مقرر کیا گیا فسادات میں وہ اندیا چلے گےؑ لیکن 1953 میں گورڈن کالج کے 75 سال پورے ہوےؑ تو یادگار"ڈایمنڈ جوبلی" ہال کا فتتاح کرنے کیلےؑ ان کو مدعو کیا گیا،وہ اپنے پرانے اسکول اےؑ تو میں نے ان کی ایک جھلک دیکھی۔۔ سفید دھوتی کرتہ اور ٹوپی ان کا لباس تھا۔ اس وقت کے ہیڈ ماسٹر انصاری صاحب کے ساتھ بر آمدے میں چلتے ہوےؑ ان کو ایک سگرٹ کا ٹکڑا ملا۔ وہ اٹھا کہ انہوں نے پوچھا کہ انصاری صاحب یہ کیا ہے؟ وہ کیا جواب دیتے۔۔منشی صاحب نے افسوس سے سر ہلا کے کہا" اگر یہ کسی طالب علم کا ہے تو بہت افسوس کی بات ہے۔۔لیکن کسی استاد کا ہے تو کہیں زیادہ افسوس کی بات ہے"،، میں نے یہ انشوران کی رہایؑش دو کمروں کے چھوٹے سے گھر میں تھی جو اسکول کے قریب لالکڑتی میں آج بھی موجود ہے۔ میں اس گھر کو قومی یادگار تو خیر نہیں بنوا سکتا تھا لیکن اس پر ان کے نام کی تختی لگوانے میں بھی ناکام رہا۔ ایک وجہ تو وہی کہ ہم کسی دانشوری کے قایل نہیں۔۔دوسری وجہ ان کا ہندو اور بھارتی ہونا۔ ان کے بیٹے ڈاکٹر جگن ناتھ آزاد تا حیات انجمن ترقی اردو ہند کے صدر رہے۔ باپ بیٹا دونو نعت گو شاعر تھے ،1956 تک رایؑج پاکستان کا قومی ترانہ سب سے پہلے انہوں نے قایؑد اعظم کے کہنے پر لکھا تھا۔ یہ بات بہت عام ہے
1953 تک اسکول میں بجلی نہیں تھی تو پنکھے کہاں سے آتےفیس 3 روپے ماہانہ تھی۔میٹرک کے سالامہ امتحانات میں انگریزی کے فرشتہ صفت استاد صدیقی صاحب رات کو ایکسٹرا کلاس لیتے تھے تو گیس والا ہنڈا منگواتے تھے اور کرایہ اپنی جیب سے دیتے تھے۔ وہ خود بھی 10 کلومیٹر سے ساییؑکل پر آتے تھے لیکن ٹیوشن فیس کا سوال ہی نہیں۔۔ 1962 میں اسکول کا نام " سی بی ٹیکنکل اسکول ہواور 2015 میں "ایف جی پبلک اسکول نمبر 2 "۔۔میرے لےؑ زندگی کا سب سے بڑا اعزاز یہ ہے کہ اس 90 سال پرانی تاریخی درسگاہ کو چھوڑنے کے 64 سال بعد مجے "اولڈ بوایزؑ ایسو سی ایشن " کا تا حیات صدر نامزد کیا گیا۔۔ اس تقریب میں جہانں سابق طالب علموں میں عدالت عالیہ کے جج پروفیسر اورجنرل بھی تھے اگر میں نے کہا کہ میرے لےؑ یہ اعزاز نوبل پرایزؑ سے بھی بڑا ہے۔۔۔۔ تو کیا غلط کہا؟
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔