میں کون ہوں اے ہم نفسو۔۔۔
یاد نہیں کب طارق نام کےایک ہم عمرہم جماعت ہمدم وہمراز نے یہ احساس دلایا کہ مجھے اپنی عمر رفتہ کی خود نوشت کتابی صورت میں لانی چاہےؑ اور اس کے حق میں پہلی دلیل یہ دی کہ واقعات میں کم و بیش ایک صدی کی کہانی آجاتی ہے کچھ تقسیم سے پہلے کی معاشرتی تصویر ہے لیکن باقی تووہ تاریخ ہے جس سے تم گزرے لیکن ؎ لوح ایام پر لکھی تاریخ۔۔ ذکر اس کا کہیں نہیں ملتا۔۔۔ دوسری دلیل یہ تھی کہ میری یا دداشت کی تحریرکو وقت نے دھندلایا نہیں ہے اور تیسری یہ کہ میرا قلم تو کسی مصور کا موقلم ہے کہ تحریر کو تصویر کے پیکر میں بدل دے اور کل یوں لگے جیسے آج ہے ۔۔۔ میں قایل نہیں ہوا مگروہ ہے کڑوا کریلا نیم چڑھا۔۔ فوجی اور پھر کمانڈو جو ہار کے مفہوم سے آشنا نہیں ۔۔ پھر کچھ میری کہانیوں کی لذت آزار کے مارے اس کے ہمنوا ہوےؑ۔۔اس کے بعد فیس بک پر کچھ احباب نے اس قوالی میں اپنی آواز ملایؑ۔۔ میرے کان اس وقت کھڑے ہوےؑ جب لاہور کے بعد کراچی کےاور پھر اسلام آباد کے ایک پبلشر نے بھی باری باری یہی ٹیپ کا بند دہرانا شروع کیا ۔۔ہار میں نے مانی مجھ پر آسیب کی طرح مسلط ہو جانے والے اس شخص کے خلوص پیار اورجبر سے جس کا نام ہی فیصل ہے اورجو کمانڈر ہے تو مجھے بھی کمانڈ کرتا رہا۔۔او کے دوستو دشمنو ۔۔میں ہتھیارڈالتا ہوں ۔۔تاہم کچھ اپنے دفاع میں کہنے کا حق مجھے حاصل ہونا چاہےؑ
اپنی زندگی کی اس تحریر میں تجربات یا مشاہدات کی بنیاد دیدہ و شنیدہ پر ہے۔دیدہ کا تناسب نہ ہونے کے برابرہے کہ اب تک 80 برس کی جو مہلت بہت طویل محسوس ہوتی ہے یہ وقت کے بیکراں لا محدود سمندر کے مقابلہ میں پانی کا ایک گھونٹ لگتی ہے جس کا ذایقہ ضرور ایک ذاتی تجربہ تھا لیکن یہ دنیا اور گزر جانے والے وقت کے اور ان انسانوں کے تجربات جومجھ سے پہلے زندگی کر چکے ۔۔یہ سب ایک کاینات کی وسعت کے تصورکی طرح ہے۔ بقول فیض ؎ آدم و حوا کی اولاد پہ کیا گزری ہے۔۔۔اورآج کہاں کیسی گذررہی ہے۔۔۔ کچھ کل کی اور آج کی کتابوں۔ رسالوں یا اخبارات میں ہوگا۔لیکن یہ سب میں نے نیک نیتی سے اپنی سرگذشت میں شامل کر دیا ہے
۔۔میں کون ہوں اے ہم نفسو۔۔ بس ایک کہانی ہے۔۔ ہر زندگی کی طرح ۔۔۔اس سے زیادہ ہو بھی کیا سکتی ہے
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیجسے لی گئی ہے۔